زرداری کی دبئی روانگی ، سی ایم کی تبدیلی اور سلیم ڈالر کی ہلاکت
(Muhammad Anwar, Karachi)
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت
جمہوری عمل کے نتیجے میں سمٹ کر صرف سندھ تک محدود ہے مگر سندھ میں بے چین
بہت ہے ۔ اگر سیاسی جماعتوں میں شکر ادا کرنے کی روایت ہوتی تو پیپلز پارٹی
سندھ میں حکومت قائم رہنے اور بدستور چلنے پر اﷲ کا شکر اعلانیہ ادا کرتی ۔
مگر یہاں تو سیاسی فارمولے کے تحت ہر بات کو الٹا بیان کرنا ہی سیاست سمجھا
جاتا اور کہا جاتا ہے ۔
سندھ میں سنا ہے کہ حکومت اب بھی پیپلز پارٹی کی ہے ! ۔۔۔ اگر بلدیاتی
اداروں خصوصاََ بلدیہ عظمٰی کراچی میں اور سندھ بلڈنگز کنٹرول میں کرپشن کا
مثالی راج نہیں ہوتا تو مجھے بھی شک کرنا پڑتا کہ ’’ یہاں پیپلز پارٹی کی
حکومت نہیں ہے ‘‘ بلکہ شائد مسلم لیگ اپنے ماضی کے تجربات کو دہراتے ہوئے
ایک بار پھر یہاں حکومت قائم کرچکی ہے ۔
پیپلز پارٹی کی بے چینی کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ’’ قائم علی شاہ کی حکومت کو
قائم نہ رکھنے کی خواہشات رکھتے ہوئے بھی قائم رکھا ہوا ہے ‘‘ ۔ سنا ہے کہ
اب ایک بار پھر شاہ صاحب کے مخالفین اپنی خواہش پوری کرنے کی کوشش کررہے
ہیں ۔ اس مقصد کے لیے سکھر کے مہر برادری کی کسی شخصیت کا نام لیا جارہا ہے
۔۔۔ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کوقائم علی شاہ کے بغیر قائم و
دائم رکھنے یا بھر اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کے لیے اب ’’ مہر دینے
‘‘ کا وقت آگیا ہے ۔ سب ہی جانتے ہیں کہ عام طور پر ’’ حق مہر ‘‘کن حالات
میں طلب کیا جاتا ہے یا دیا جاتا ہے ۔
پیپلز پارٹی کی بے چینی کا ایک ثبوت الطاف بھائی اور نواز بھائی کے منجھلے
بھائی آصف زرداری کی اچانک تشویشناک سرگرمیوں سے بھی لگتا ہے ۔ جمعرات نو
اپریل کو انہوں نے بلاول ہاؤس میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’’
سراج الحق نے ایک زرداری سب پے بھاری کا نعرہ یاد دلادیا میں کہتا ہوں کہ
ایک زرداری سب سے یاری ہے ‘‘ ۔اس پریس کانفرنس کی سب سے اہم بات یہی تھی ۔
کیونکہ پریس کانفرنس کی وجہ کسی کو بھی سمجھ میں نہیں آئی اس لیے اسے بھی
تشیوشناک صورتحال سے جوڑا جارہا ہے ۔ بہرحال زرداری صاحب پریس کانفرنس کے
بعداچانک ہی وہ دبئی چلے گئے ۔
سندھ پولیس کے مگر ان کے اپنے چہیتے افسران نے انہیں ائیرپورٹ تک لے گئے ۔
اور اطلاعات کے مطابق انہیں بحفاظت جہاز پز میں سوار کرادیا ۔ ایک مقامی
چینل کی ویب سائیٹ پر دو لائن کی خبر بھی آئی مگر بیشتر اخبارات اور
الیکٹرونک میڈیا اس خبر کو ’’ گول کرگئے ‘‘ یا اسے چھپالیا گیا یا اسے خبر
نہیں بننے دیا گیا ۔ بعد میں بھی اس خبر کی پیپلز پارٹی کے کراچی کے
رہنماؤں نے تصدیق کی اور بتایا کہ ’’ نان شیڈول وزٹ ہے دبئی کا ، 25 اپریل
کی رات واپس آرہے ہیں ‘‘ ۔ میں جسارت میں شائع ہونے والی خبروں میں بتاچکا
تھا کہ آصف زرداری بھٹو کی برسی سے قبل یا فوری بعد کسی بھی وقت ملک سے
روانہ ہوسکتے ہیں ۔
زرداری صاحب کی پرسرار انداز میں روانگی سے جسارت کی خبر کی تصدیق ہوچکی ہے
۔ بہرحال فی الحال تو میں بات کررہا ہوں پیپلز پارٹی کی بے چینی کی ، اس بے
قراری کی وجہ پارٹی کے لوگ خود بتانے کے بجائے چھپارہے ہیں ۔ لیکن بعض
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ رینجرز سے مقابلہ کرتے ہوئے سلیم ڈالر کی ہلاکت
اور اس کے متعدد ساتھیوں کی گرفتاری نے متعدد سیاسی شخصیات اور موجودہ دور
میں اہم اسامیوں پر تعینات سرکاری افسران کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے
؟ کیوں اس بارے میں کون بتائے گا ؟ سندھ میں گزشتہ سات آٹھ سالوں میں کام
ہی ایسے ہوئے ہیں کہ سب ہی پریشان ہیں ، وہ بھی جن کے کام نہ ہوسکے اور وہ
بھی جن کے کاروبار خوب ترقی پاگئے ۔ایک سرکاری افسر کاکا ہیں جو پرسرار طور
پر سرکاری خدمات سے اچانک ہی غائب ہوجاتے ہیں اور پھر نمودار بھی ہوجاتے
ہیں ۔ واقف حال کا کہنا ہے کہ کاکا ویسے تو پنجابی زبان میں ’’ چھوٹے لڑکے
‘‘ کو کہا جاتا ہے مگر کاکا تو ’’بہت بڑے ‘‘ ہیں اتنے بڑے کہ گزشتہ ماہ وہ
سندھ کے چیف سیکریٹری سلیم ہوتیانہ کا تبادلہ کرانے میں بھی کامیاب ہوچکے
ہیں ۔ موصوف کے لیے ایک کروڑ ستر لاکھ کی لینڈ کروذر سرکاری رقوم سے سرکار
کے نام پر خریدی گئی ۔ سنا ہے کاکا بھی حیرت انگیز طور پر پریشان ہوچکے ہیں
۔حالانکہ یہ صاحب اپنے حلقے کے لوگوں کو خوش کرتے ہیں ۔سنا ہے کہ جلد ہی وہ
بھی سرکاری مہمان بننے والے ہیں ۔ ویسے امکان کم ہیں کیونکہ انہوں نے
کینیڈا کی شہریت لے رکھی ہے ۔ اس لیے وہ کسی ایرے غیرے کے مہمان بننے کے
بجائے اپنے ملک کینیڈا کو پیارے ہونے کی کوشش کریں گے ۔
سلیم ڈالر کون صاحب تھے اس بارے میں پھر کبھی بیان کریں گے ، ویسے بھی بہت
ساری تفصیلات مختلف اخبارات میں شائع ہوچکی ہے ۔ ضرورت محسوس ہوئی تو
قارئین کو ضرور آگاہ کیا جائے گا ۔ |
|