ارم زہرا شعبہ ادب کی ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ کم عمری
میں ہی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا اپنا لوہا منوایا ہے۔ ان کے اندر ایک صنف
نازک کے ساتھ ناول نگار، افسانہ نگار ، کالم نگار ، کہانی کار اور شاعرہ
بھی نمایاں ہیں مگر ہر روپ میں انفرادی حیثیت رکھتی ہیں ۔ہر پہلو ایک مکمل
اکائی ہے۔ ان کی تصنیفات میں" چاند میرامنتظر" رومانوی اور معاشرتی ناول "میرے
شہر کی کہانی" کرائم اسٹوریزکا نیا افسانوی انداز " ادھ کھلا دریچہ"
افسانوی مجموعہ شامل ہیں جبکہ ان کا شعری مجموعہ "چاندنی ادھوری ہے " ان
دنوں زیر اشاعت ہے۔ہم نے نوعمر اور باصلاحیت قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے
ضمن میں ارم سے ان کے خیالات ، احساسات اور معاشرے کے بہتری کے لیے ان
خیالات جاننے کی کوشش کی اور ان سے گفتگو کی ۔ جو قارئین کی خدمت میں حاضر
ہے ۔
|
|
سوال نمبر ۱؛آپ کا افسانے لکھنے کی طرف رحجان کیسے ہوا ؟
میں بہت حساس طبیعت کی مالک ہوں ۔ زندگی کو حقائق اور مشاہدات کی کسوٹی پر
پرکھتی ہوں۔یہی وجہ ہے کہ میں اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والے واقعات
جب دیکھتی ہوں تو میرے اندر گھٹن کا احساس غالب ہونے لگتا ہے اور اسی گھٹن
زدہ ماحول سے باہر نکلنے کے لیے میں نے سوچا کہ اپنے احساسات کو الفا ظ کی
زباں دوں اور پھر یہ الٹی سیدھی لکیریں قرطاس پر اپنے مفہوم کو تلاش کرتی
لفظ ، جملے اور تحریر کا روپ کب اختیار کرتی چلی گئیں مجھے خود بھی اندازہ
نہیں ہوا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ زمانہ طالبِ علمی سے مجھے الفاظ سے کھیلنے کا
شوق رہا ہے عام سی بات کو خاص انداز میں پیش کیسے کیا جائے اور کفایتِ لفظی
سے اپنی تحریر کو کیسے آراستہ کیا جائے کہ ہر لفظ نگینے کی طرح جڑا محسوس
ہو میں ہمیشہ اسی تگ و دوہ میں رہا کرتی اور یہ ساری خصوصیات ایک افسانے کی
اساس پر پوری اترتی ہیں ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بچپن سے کلاسیکی ادب
سے جڑی رہی ۔غلام عباس، بلونت سنگھ، رابندر ناتھ ٹیگور اور حاجرہ مسرور کے
افسانے اوائل عمر سے زیرِ مطالعہ رہے ہیں۔
سوال نمبر ۲؛سب سے پہلے افسانہ لکھا یا شعر ؟
ابتدا ء تو نظموں سے ہوئی ۔مختصر نظمیں اور اشعار کالج کے میگزین میں لکھا
کرتی تھی لیکن باقاعدہ لکھنے کا آغاز افسانے سے کیا۔ ’’ فسانہ ایک رات کا‘‘
میری پہلی تحریر تھی جو دوشیزہ ڈائجسٹ میں شائع ہوئی۔
سوال نمبر ۳ ؛افسانہ نگاری سے آپ معاشرے کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟
افسانہ ادب کی ایک پاور فل صنف ہے ۔میں سمجھتی ہوں رائٹر معاشرتی سرجن ہوتا
ہے۔وہ اپنے گرد و پیش کے ماحول سے کہانیاں اخذ کرتا ہے ۔میں بھی قلم کے
ذریعے معاشرے کی اصلاح کا عزم رکھتی ہوں ۔میرے افسانے تصوراتی نہیں بلکہ
میں سچائی اور سماجی روایؤں کو قلمبند کرتی ہوں تا کہ قارئین تک مثبت پیغام
پہنچ سکے۔
سوال نمبر۴؛ کراچی کے حوالے سے بھی ایک کتاب لکھی ہے ۔کیامحسوس کرتی ہیں آپ
روشنیوں کے شہر کراچی کے حوالے سے اس کے مستقبل کے بارے میں؟
جی ’’میرے شہر کی کہانی‘‘ شہر کراچی میں ہونے والے کرائم کو افسانوی انداز
میں پیش کرنے کی میری ایک کوشش ہے۔مجھے دکھ ہوتا ہے کراچی جو عروس البلاد
کے نام سے مشہور تھا جس کی روشن راتوں کی لوگ مثالیں دیتے تھے وہ روشنیوں
کا شہر آج لاشوں کا شہر بن چکا ہے۔ہر طرف دہشت اور وہشت کا بازار گرم،عدمِ
تحفظ اور بے یقینی کی فضا سے میرے وجدان کا چمن خزاں کا روپ اختیار کرتا
چلا گیا۔تب میں نے اس ظلم کے خلاف اپنی آواز کو الفاظ کا روپ دینا شروع
کیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں شہر کراچی کے قصیدے لکھتی مگر افسوس ظلم
وجبر ،معاشرتی ناہمواریوں اور بے حسی نے مجھے میرے شہر کا مرثیہ لکھنے پر
مجبور کردیا۔
روشنیوں کے شہر پر لہو کی بارش مسلسل جاری ہے ۔امن و امان کاموسم بدل چکا
ہے ۔سازش کرنے والے اپنا کام کر چکے ہیں۔لیکن اب بھی وقت ہے اپنے ہاتھوں سے
اپنے چمن کو تباہ کرنے کے بجائے کوئی سدِباب کوئی حل ڈھونڈنا چاہیے اور جس
دن اربابِ حل و نقد اور منصوبہ ساز وں نے ملک سے جہالت کے اندھیرے دور کرنے
والے دانشوروں کو ایک جگہ اکھٹا کرکے مذاکرات نہیں بلکہ عملی اقدامات کی
جانب قدم بڑھایا اس دن پاکستان دینا کے نقشے پر ایک جنت نذیر ملک کی حثیت
اختیار کرلے گا۔میں سمجھتی ہوں اس کے لیے سب سے اہم کردار نوجوان نسل کا
بھی ہے جنہیں بھرپور تعلیم حاصل کرنی چاہیے تاکہ ملک ترقی کی شاہراہ پر
گامزن ہو سکے۔
سوال نمب۵ ؛ایک ایوارڈ یافتہ افسانہ نگار ہیں ایک افسانہ نگار اور شاعرہ
معاشرے سے کیا توقعات رکھتی ہے؟
معاشرے کی تعمیر و ترقی میں خواتین تمام مشکلات کے باوجود کلیدی کردار ادا
کر رہی ہیں۔وہ اپنے تخلیق کے کرب سے معاشرے کی اصلاح کرتی ہیں ۔معاشرے کے
مسائل اجاگر کر رہی ہیں وہ عوام اور ارباب بستہ کے مابین پل کا کردار بھی
ادا کر رہی ہیں ۔خواتین ادب و شعراء کی تخلیقات عام آدمی کو متاثر اور اس
کے فکر و احساس کو باآسانی تبدیل کرتی ہیں اس کی بڑی وجہ آج کی خواتین
رائٹر ز اپنی نگارشات میں نہ صرف مسائل کے اسباب بیان کرتی ہیں ، نتائج سے
آگاہ کرتی ہیں بلکہ اپنی تحریروں سے انہیں سلجھانے کی کوشش بھی کرتی ہیں تو
میں سمجھتی ہوں خواتین رائٹرزبھی معاشرے کا ایک اہم کردار ہیں انہیں اہمیت
ملنی چاہیے کیونکہ آج بھی رائٹرز کا ایک بہت بڑا مسئلہ اپنی شناخت ہے۔
|
|
سوال نمبر۶؛ آپ بحثیت افسانہ نگار اورشاعرہ ملک کے سیاست دانوں کو کیسے
دیکھتی ہیں ؟
سیاست کا مطلب خدمت ہے لیکن افسوس کہ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ بعد اس
فلسفے سے انحراف کیا گیا اور سیاستدان عوامی خدمت کرنے کے بجائے اقربا
پروری اور لوٹ کھسوٹ جیسے منفی رویوں کا شکار ہوگئے جس کی وجہ سے حصول
پاکستان کے مقاصد ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔
سوال نمبر ۷؛ ملک کی آج جو صورتِ حال ہے اس کا زمہ دار آپ کس کو سمجھتی ہیں
؟
میرے خیال میں ہر فرد اس کا زمہ دار ہے کیونکہ بحثیت مجموعی معاشرہ اپنی
انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ابھی تک ناکام ہے۔اس لیے کسی
ایک فرد پر ساری زمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی ۔ہم سب اس میں برابر کے شریک
ہیں۔
سوال نمبر۸۔ ملک کا الیکٹرانک میڈیا کیا قوم کی توقعات پوری کر رہا ہے ؟
اس حوالے سے میڈیا کا کردار انتہائی مایوس کن ہے۔الیکٹرانک میڈیا کے پاس تو
سنسنی اور ملک میں خوف و ہراس پھیلانے کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں ۔
سوال نمبر ۹؛پرنٹ میڈیا کے کردار کے بارے میں بتایئے کہ آپ اس کے کردار کو
کیسا پاتی ہیں؟
پرنٹ میڈیا میں اخبارات میں ہفتہ وار ادبی ایڈیشن شائع ہو رہے ہیں تاہم اس
اخبار کو کوئی بڑا اشتہار یا کوئی سنسنی خیز فیچر مل جائے تو اس روز ادبی
ایڈیشن کی چھٹی ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود پرنٹ میڈیا ادب کے فروغ میں
اہم کردار ادا کر رہا ہے اور قارئین کو ادب کی ہمہ جہت شخصیات سے روشناس
کرا رہا ہے کیونکہ آج کی نسل توکتابوں سے دور ہو چکی ہے سو ادبی شہہ پاروں
تک رسائی کا واحد ذریعہ پرنٹ میڈیا ہی رہ گیا ہے۔
سوال نمبر۰ ۱؛آپ کے خیالات میں امن و امان کی خراب صورتحال نے کیا نقصانات
پہنچائے؟
پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کا سب سے بڑا نقصان معیشت کو ہوا
ہے۔اس کے علاوہ ہمارے قومی تشخص کو نقصان پہنچا ہے ۔ہمارامعیار زندگی تنزلی
کی جانب جا رہا ہے۔لوگوں کے عمومی روئیے تبدیل ہوئے ہیں۔ملکی وسائل کا بڑا
حصہ دفاع کے شعبے میں خرچ ہو رہا ہے۔
سوال نمبر ۱۱۔پاکستان میں افسانہ نگاری کا مستقبل کیا ہے ؟
موجودہ دور میں افسانے کے حوالے سے بہت سے ناقدین کی رائے ہے کہ افسانوں کا
وہ معیار نہیں رہا جو گزشتہ سے پیوستہ تھا۔دراصل افسانہ زندگی کا ترجمان
ہے۔جس طرح گھڑی کی سوئیاں ماضی کی طرف گھمائی نہیں جا سکتیں اسی طرح
تخلیقات کی وقوع پذیری کا تناظر بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے آج کا
قلم کار افسانہ نگاری کو حقیقت کے ترازو میں تول رہا ہے اور یہ خوش آئند ہے
میری نظر میں افسانے کا مستقبل روشن ہے۔
سوال نمبر۱۲۔کچھ اپنے بارے میں بتائیے؟
حادثات کے شہر کراچی سے میرا تعلق ہے۔کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے۔
درس و تدریس کے شعبے سے تعلق رکھتی ہوں ۔اب تک میری تین تصنیفات منظرِ عام
پہ آچکی ہیں۔جن میں رومانوی ناول ’’ چاند میرا منتظر‘‘ کرائم کہانیاں’’میرے
شہر کی کہانی‘‘ افسانوی مجموعہ ’’ ادھ کھلا دریچہــ‘‘ جبکہ زیرِ تصنیف شعری
مجموعہ ’’ چاندنی ادھوری ہے‘‘۔ میرے نزدیک اپنی باتیں اور احساسات لوگوں تک
پہنچانے کے لیے نثر کا کینوس قدرے وسیع ہے سو میں اپنی بات افسانہ، ناول ،
کالم اور شاعری کے ذریعے بہتر انداز میں کہہ لیتی ہوں۔
آخری سوال۔ بحثیت کالم نویس آپ کیا لکھنا چاہتی ہیں اور کیوں لکھنا چاہتی
ہیں ؟
میرے کالم زیادہ تر تعلیمی مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔ تعلیم انسان کو انسان
سے جوڑتی ہے۔تعلیم انسانی رشتوں کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے ۔انسان کے انہی
باہم رشتوں سے انسانی معاشرے جنم لیتے ہیں اور تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں۔
پاکستان کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔پاکستان میں تعلیمی دنیا
کا حال سب سے نرالا ہے ۔یہاں کا قومی نظام ِ تعلیم ورلڈ بینک کے ماہرین
،عیسائی اور یہودی تیار کرتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ جو قوم اپنے بچوں کی
ابتدائی تعلیم کے لیے کشکول اٹھائے در،در بھیک مانگنے پر کمر بستہ ہو ۔اس
قوم کا مستقبل کیسے شاندار ہو سکتا ہے۔قوم کا فکری بانجھ پن سے بچانے کے
لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو ذیادہ سے ذیادہ عملی اور سائنسی بنایا جائے تاکہ
ملکی تعلیمی و ترقی میں غیروں کا دستِ نگر نہ رہنا پڑے ۔ اس کے علاوہ سیاسی
نظام کی خامیوں کی بھی نشاندہی کرتی ہوں کیونکہ اظہار کی آزادی کے بغیر
فکروخیال کی آزادی پروان نہیں چڑھ سکتی ۔ آزادی کی اہمیت معاشیزندگی میں
بھی ہے اور سیاسی زندگی میں بھی ہے۔آج ہمارا معاشرہ زوال کی انتہاکو چھو
رہا ہے۔آج ہمارے پاس نہ اخلاقیات ہیں اور نہ کوئی سماجی اصول ہم قوم کے نام
پر ایسا ہجوم ہیں جس میں ہر فرد کے اپنے مفادات ہیں کالم لکھتے ہوئے میرے
ذہن میں مثبت رویوں کو اجاگر کرنا اور منفی سوچ کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ |