مشتاق مشرقی صاحب اور ملا حضرات
(Prof Masood Akhter Hazarvi, )
بروز بدھ 11 مارچ کو مشتاق مشرقی
صاحب کا کالم بعنوان ’’ گھریلو تشدد کرنے والوں کا تاریک مستقبل‘‘ روزنامہ
جنگ لندن میں شائع ہوا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر راقم الحروف نے بھی اسے
حرف بحرف پڑھا۔پس منظر یوں تھا کہ لندن کی ایک مسجد میں ڈومیسٹک وائلنس کے
حوالے سے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں چیف انسپکٹر پولیس شبنم
چوہدری نے جنوبی ایشیا کی خواتین سے خطاب کر کے انہیں اپنے حقوق سے آگاہ
کیا۔ اس پروگرام میں کسی عالم دین کی شرکت تک کا بھی کوئی تذکرہ نہیں ملا ۔
البتہ مشرقی صاحب نے کچھ مصلحتوں کے پیش نظرموصوفہ چیف انسپکٹر صاحبہ کو تو
معاف کردیاالبتہ کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر اپنے دل کی ساری بھڑاس بلا
وجہ مولوی صاحبان اور مساجد پر نکال دی۔ چند اقتباسات یہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں
’’ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ مساجد انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں اور
دوسری طرف ایشین اور مسلم کمیونٹی اپنے ہر مسئلے کے حل کیلئے مساجد سے رجوع
کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ملا حضرات کی اہمیت بلا ضرورت بڑھائی جارہی ہے‘‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جو مولوی کسی خاتون کی مدد
کر رہا ہے وہ حلالہ نکالنے کے بارے میں تو نہیں سوچ رہا‘‘ آگے چل کے اس پر
مزید روشنی اس طرح ڈالتے ہیں کہ ’’پچھلے بیس تیس برسوں میں مسلم کمیونٹی
مین سٹریم سے ہٹتے ہٹتے مساجد تک محدود ہوتی رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے
کہ مولوی حضرات ہمارے ہر معاملے میں دخل اندازی کرنے لگے ہیں‘‘۔ حضرت علامہ
اقبالؒ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ علامہ اقبال نے ملا ازم کے خلاف
جدو جہد کی تھی۔ شاعری میں کسی مذہبی لیڈر کو مولانا بہت کم لکھا ہے وہ
مولوی کو ملا ہی لکھتے رہے ہیں‘‘۔ درج ذیل سطور میں ہر طرح کے تعصب اور خود
غرضی سے بالاتر ہو کر اس مضمون سے پیدا شدہ چند ایک تحفظات اور غلط فہمیوں
کا ازالہ ہم نے ضروری سمجھا ۔ مسجد ہر دور میں اسلامی معاشرے کا ایک اہم
ستون رہا ہے۔ نبی کریمﷺکے دور مبارک میں ہمیں علحدہ سے کسی پارلیمنٹ ہاؤس،
سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو کی عمارت کا وجود نہیں ملتا۔ یہ تمام معاملات
مسجد کے پلیٹ فارم سے ہی سرانجام دیے جاتے تھے۔ مسجد عبادت کی جگہ ہے لیکن
اس کے ساتھ ساتھ اسلام کا شعار اور معاشرے میں مسلمانوں کے وجود کی علامت
بھی ہے۔ اگر برطانوی خاتون پولیس افسر ہماری مساجد میں آکر قانونی حوالے سے
ہماری خواتین کی راہنمائی کرتی ہیں تو ہمارے لئے باعث فخر ہو نا چاہئے نہ
کہ وجہ اعتراض۔ مساجد انتہا پسندی کو فروغ نہیں دے رہیں۔ اس طرح کے الزامات
سے مساجد کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایسی جگہ مشرقی صاحب کے علم میں
ہے جو مسجد کے نام پر انتہا پسندی پھیلا رہی ہے تو اس کی نشاندہی کریں یا
سیکیورٹی اداروں کو مطلع کریں تا کہ ان کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔ بلا
تخصیص سب مساجد پر انتہا پسندی کا مبہم سا الزام باعث تشویش ہے ۔مساجد کی
اہمیت اور وقار کو بحال رکھنا ہم سب کی منصبی ذمہ داری ہے۔ اگر کہیں خامیاں
ہیں تو اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر مسلمان کمیونٹی مذہبی حوالے سے پیش
آمدہ مسائل کے حل کیلئے مساجد سے رجوع کرتی ہے تو اس میں بھی کوئی زرا بھر
قباحت نہیں بلکہ مسائل کے حل کی صحیح سمت یہی ہے۔ سیاستدان، صحافی، علماء و
مشائخ، تکنیکی شعبوں کے ماہرین اور معاشرے کے دیگر طبقات میں سے ہر ایک کو
اپنی حیثیت اور مقام کے مطابق احترام ملنا چاہیے۔ لیکن علماء کے احترام
پربے جا اعتراض سے بھی خدا واسطے کے بیر کی بو آتی ہے۔ مشرقی صاحب کو خدشہ
ہے کہ عورت دینی مسائل کیلئے اگر علماء سے رجوع کرے تو حلالہ کی شکل میں
جنسی ھوس کا شکار نہ ہو جائے۔ اسی بنا پر تمام علماء کو شک کی نگاہ سے
دیکھنا بھی سوئے ظن کے ساوا کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ علماء
کا روپ دھار کے لادینیت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ انہیں’’ علماء سو‘‘ سے تعبیر
کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کالی بھیڑیں کس طبقہ میں
موجود نہیں؟وکلاء، صحافی، ڈاکٹر، جج یا سیاستدان سبھی میں اکا دکا ایسی
مثالیں ملتی ہیں۔ اس وجہ سے بلا امتیاز سب برادری کو ہی مورد الزام ٹھہرا
نا کہاں کی دانشمندی ہے؟ بقول مشرقی صاحب بیس تیس سالوں سے لوگوں کا رجحان
مساجد کی طرف زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ تو خوشی کا مقام ہے نہ کہ سوگ اور
پریشانی کا۔ یہ بھی خلاف حقیقت بات ہے کہ ہماری کمیونٹی کچھ سالوں سے مین
سٹریم سے کٹ کے صرف مساجد تک محدود ہو ر رہ گئی ہے۔ لارڈز، ممبرز پارلیمنٹ
، کونسلرز، علماء، ڈاکٹرز، انجنئرز اور تکنیکی امور کے ماہرین برطانوی
معاشرے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسجدیں اپنے ہاں آنے والوں
کو وہ جذبہ عطا کرتی ہیں کہ جس سے خدا خوفی اور دیانتداری کے ساتھ معاشرے
میں اپنے فرائض منصبی ادا کر سکیں ۔ جہاں تک علامہ اقبال ؒ کی شاعری کاتعلق
ہے۔وہ ایک مرد درویش اور مصلح تھے۔ انہوں نے کرپٹ حکمرانوں، جاہل صوفیا،
علماء سواورمعاشرے کے ہر بے اعتدال طبقے کی خوب خبر لی۔ وہ خود علماء حق
اور صوفیا کرام کی مجالس میں بیٹھتے اور اکتساب فیض کرتے تھے بلکہ مولانا
روم کو اپنا روحانی مرشد مانتے تھے۔ مولوی کے بارے میں اقبال کا تصور یہ
تھا کہ وہ صرف ظاہری کتب کا عالم ہی نہ ہو بلکہ کسی مرد درویش کی بارگاہ کا
فیض یافتہ بھی ہو۔ فرماتے ہیں مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس
تبریزی نہ شد
چونکہ مولانا جلال الدین رومیؒ کی علمی فقاہت اور روحانی بصیرت میں نکھار
حضرت شمس تبریزؒ کی بارگاہ سے حصول فیض کے بعد آیا لھذ حضرت علامہ اقبالؒ
بھی بیک وقت شریعت اور طریقت کے علمبردارعلماء کے قدر دان تھے۔ یہاں ہم نے
اسلامی اقدار کی حفاظت کرنی ہے اور قوانین کا احترام بھی۔ اپنی آنے والی
نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے معاشرے میں فعال کردار کیلئے تیار کرنا
ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ باعمل مسلمان بھی۔ مثبت تنقید باعث اصلاح ہوتی ہے
لیکن کسی ایک طبقے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جانا سماجی انتشار کا سبب بھی بن
سکتا ہے۔ احتیاط لازم ہے۔ |
|