این اے246 ۔۔۔اور ایم کیو ایم

قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ این اے 246 کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم انتخابات سے کچھ دن پہلے یا انتخابات والے دن الیکشن کا بائیکاٹ کر دیگی ۔ اِس طرح کی افواہوں / قیاس آرائیوں میں کتنی صداقت ہے اور کتنی نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ، لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر واقعی ایم کیو ایم اِس طرح کی کوئی پالیسی اختیار کرتی ہے تو یہ اُ س کی سیاسی موت ہوگی۔ ہم نہیں سمجھتے ایم کیو ایم اور اس کی قیادت ایسی بھیانک غلطی کا ارتکاب کرسکتی ہے ۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے 2002 ء کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیوایم الیکشن کا بائیکاٹ کر کے غلطی کر بیٹھی تھی۔ یہ ممکن ہے ضمنی انتخابات سے کچھ دن پہلے ایم کیوایم کے خلاف کسی اہم شخصیت کا بیان یا وڈیو ایسی آسکتی ہے جس سے ایم کیو ایم کی سیاسی ساخت کو نقصان پہنچانا مقصود ہو جس کے بعد ایم کیوایم ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوکرکوئی غلط فیصلہ نہ کربیٹھے اس حوالے سے ایم کیوایم خود کو ذہنی طور پر تیار رکھے۔نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن ایم کیو ایم کو کسی صورت میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔این اے 246 ایم کیوایم کے لئے اُتناہی اہم ہے جتنا پیپلز پارٹی کے لئے لاڑکانہ ، مسلم لیگ ن کے لئے لاہوراور رائیونڈ ، پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے میانوالی، مولانا فضل الرحمن کے لیے ڈیرا اسمعیل خان ، جماعتِ اسلامی کے لیے منصورہ فنکشنل لیگ کے لیے پیر جو گوٹھ۔

جبکہ شاید2013 ء کے عام انتخابات میں نبیل گبول کو حلقہ 246 سے الیکشن لڑانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اگر کبھی لوٹا گیری ہوبھی گئی تواین اے 246 ایم کیوایم کا مظبوط حلقہ ہونے کی وجہ سے ضمنی الیکشن میں سیٹ ہائی جیکنگ کا کوئی ایشو نہیں رہیگا۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں جس طرح تیزی سے حالات و واقعات موڑ کھاتے ہیں اِس کا اندازہ لگانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ، کون جانتا تھا جنرل راحیل شریف آرمی چیف کا عہدہ سنبھال لیں گے یا جنرل رضوان اختر ڈی جی آئی ایس آئی کے فرائض ِ منصبی پر فائض ہوجائیں گے۔ اور کون جانتا تھا کہ کوئی حب الوطنی کے جذبے سے اس قدر بھی سرشار ہوسکتا ہے کہ ملک سے حقیقی معنوں میں دہشت گردی کو ختم کرنے کا عظم لے کر عملی طور پر میدان میں آسکتا ہے۔

خیر جو ہوا سو ہوا لیکن آگے کے لئے ایم کیو ایم کو اب بہت محتاط رہنے کی اور نہایت ہوش مندی کے ساتھ سیاست کی بساط پر اپنی چال چلنے کی ضرورت ہے۔ایم کیوایم کے اندر ایک سیاسی و جمہوری فکر پائی جاتی ہے جس سے اُسے بھرپور فائدہ اٹھاناچاہیے اب وقت آگیا ہے کہ ایم کیوایم اپنی پالیسی میں واضح طور پر تبدیلی کرے اور اپنے حقیقی و اصولی منشور کو آگے لیکر چلے ، سندھ میں آباد اردو بولنے والی مہاجر قوم کے حقوق کے لئے عملی اقدامات کرے اور اِس حوالے سے سندھ حکومت سے واضح اور بامقصد مذاکرات کرنے کے لئے عملی طور پر میدان میں آئے تاکہ عرصوں پر محیط یہ کشمکش اپنے انجام کو پہنچے ۔کیونکہ یہ بات اب ایم کیو ایم سمیت پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب وہ وقت نہیں رہا جب کھوکھلے نعروں سے عوام کے ذہنوں میں شیخ چلی کے تصورات بھر دیئے جاتے تھے ، یا تعصب کی سورش سے عوامی جذبات کو بھڑکایا جاسکتا تھا یا خوف وہراس سے عوام کو ڈرایا دھمکا یا جاسکتا تھا یہ تمام دور اب پرانے وقتوں کی باتیں ٹھہریں اب عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوچکا ہے آزاد میڈیا دیدے پھاڑے سب کچھ دیکھ رہا ہے اہلِ قلم اپنی بھرپور قلم آزمائی سے عوامی شعور بیدار کرنے میں مصروف ہیں اہلِ دانش بھی میدانِ عمل میں موجود اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔ اب تھری جی فور جی اور ایل ٹی ای جیسی جدید ٹیکنالوجی کا دور دوراں ہے پوری دنیا صرف پانچ انگلیوں کے درمیان سماچکی ہے اب کسی ٹی وی چینل کوبند کرانے کا کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے نہ اخبارات کی ترسیل روکنے سے کوئی مقصدحاصل ہوسکتا ہے ۔انٹرنیٹ کے ذریعے ہر پل کی خبر عوام کی پہنچ میں ہے اِس جدید اور ایڈوانس دور میں 70 ء 80 ء کی دھائی کی سیاست اب کہاں چلے گی ۔

عوام کی سوچ بدل رہی ہے لہذا سیاست دان اپنا ذہن بھی بدل لیں ۔ چاہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہو چاہے مسلم لیگ ن ہو، چاہے پاکستان تحریکِ انصاف ہو یا پھر ایم کیوایم۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنی طرزِ سیاست تبدیل کریں اگر انھیں عوامی پذیرائی اور عوامی حلقوں میں نمائندگی کرنی ہے ۔جب تک یہ باتیں تمام سیاسی جماعتوں کے ذہنوں میں نہیں بیٹھیں گی اور جب تک یہ جماعتیں ان کا تدارک نہیں کریں گی عوام میں اپنی مقبولیت کھوتی رہیں گی۔ این اے 246 سے کون جیتے گا کون ہارے گا یہ بتانا اِتنا مشکل بھی نہیں لیکن شاید یہ سمجھناان کے لئے مشکل ہو کہ آج صرف ایک حلقے کی وجہ سے حلق میں آئی ہوئی ہے کل تو پورے ملک کی بات ہوگی ۔
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 115925 views کالم نگار/بلاگر.. View More