عدلیہ کے معاملات میں مداخلت․․․․!
(Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed, Karachi)
عدلیہ نے عوام کی امنگوں کے
مطابق پیٹرول پرفیصلہ دے کر لوگوں کے بہتے آنسووں اورہوتی ہوئی خود سوزیوں
کو روکنے کیلئے ایک نہایت ہی مستحسن فیصلہ دیا تھا ۔جس کے تحت حکومت وقت سے
کہا گیا تھا کہ غریبوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے فوری طور پر پیٹرول کی
قیمتوں میں کمی کی جائے۔حکومت نے عدلیہ کے کہنے پر پیٹرول کی معمولی قیمت
تو کم کی مگر نہ تو کرائیوں میں کمی ہوئی اور نہ ہی مہنگائی پر کوئی اثر
پڑا۔مگر حکومت کی تلملاہٹ اس فیصلے پر اوربڑھ گئی ۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے
کرتا دھرتاؤں نے سپریم کورٹ کے حکم پر پیٹرول سستا کر نے کے بعد فوراََ ہی
پیٹرول پر ایک احمقانہ ٹیکس کاربن ٹیکس کے نام سے لگا دیا ہے۔ تاکہ اس
سسکتی بلکتی عوام کو کہیں سے بھی ریلیف میسر نہ آ سکے۔ لوگ کہتے ہیں کہ
ڈاکٹر عاصم حسین اپنے شعبے میں تو نا کام ترین آرتھوپیڈک ڈاکٹر ہیں ۔مگر
پیٹرولیم کے شعبے میں لگتا ہے کہ انہیں بلا کی مہارت حاصل ہوچکی ہے ۔یہی
وجہ ہے کہ انہوں نے جب پہلے پیٹرول مہنگا کیا تو عدلیہ نے اس پرایکشن لیاتو
موصوف فوراََ ہی عدلیہ کے مدِ مقابل آگئے اور پیٹرول مہنگا کرنے کے لئے
کاربن ٹیکس متعارف کرانے میں ذرا بھی دیر نہ کی ۔جب حکومت کے اس ظالمانہ
اور عوام دشمن فیصلے پرسپریم کورٹ نے ایک پٹیشن کے جواب میں اپنے عبوری حکم
میں اس طالمانہ ٹیکس کو ختم کرنے کا عبوری حکم جاری کیا تو حکومتی ایوانوں
میں کھبلی مچ گئی ۔ صدرِ مملکت جن کی ایمانداری اور عوام دوستی سے ساری
دنیا بخوبی واقف ہے ،نے 9 جولائی کی علی الصبح ایک آرڈننس کے ذریعے عوام کی
سانسیں روکنے کا بھر پور انتظام کر لیا تھا۔ جو پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی
آرڈننس مجریہ 2009 کہلائے گا۔جس کے ذریعے عوام پر پیٹرولیم بم گرا کراسکو
ملک میں فوری طور پرنافذکردیا گیا ہے۔ اس طرح کاربن ٹیکس کے عارضی خاتمے پر
عوام میں خوشیکی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ کہ اب وقتی طور پر ہونیوالی مہنگائی
سے عوام کو کچھ ریلیف تو ملنے کی امیدیں پیدا ہوگئی تھیں۔ کہ صدارتی
آرڈیننس سے ڈیزل، پیٹرول اور مٹی کے تیل ،لائٹ اسپیڈ ڈیزل آئل اور ایچ بی
اوسی کی قیمتیں دوبارہ بڑھا دی گئی ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے
کاربن سرچارج کو عبوری حکم کے ذریعے معطل کر دیا گیا تھا۔
صدار تی آرڈیننس کے نافذہونے کی وجہ سے ایون صدر اور عدا لتِ عظمٰی کے
درمیان ایک قسم کی کشمکش نے جنم لے لیا ہے۔بدھ کو سپریم کورٹ کے عبوری حکم
کے تحت کاربن ٹیکس کے خاتمے پر عوامی حلقوں کی کھوئی ہوئی خوشیاں بحال
ہوگئی تھیں۔کہ رات بھی گذرنے نہ دی گئی اور جمعرات کی علی الصح صبح ہی
کاربن ٹیکس کی معطلی کے فیصلے کو غیر موثر بنانے کے غرض سے صدارتی آرڈیننس
کا ڈرون حملہ کر دیا گیا۔صدر کے دستخط شدہ خط کی نقول وزارت پیٹرولیم اور
اوگراکو صبح صادق سے پہلے ہی پہنچا دی گیئں۔
کاربن ٹیکس کے خاتمے پر پوری قوم کا ردعمل نہایت ہی مثبت اور خوشگوار
تھا۔مگر بعض لوگ اس مسئلے کو بھی اپنی سیاسی دوکان چمکانے کا ذریعہ بنانے
پر تلے نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ایک قلم کار نے عدالت کے اس فیصلے پر یہ
کہہ کر کہ پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت کی جارہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کا مذاق
اڑانے کی کوشش کی ہے۔ لگتا یوں ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ کی بجائے پیپلز
پارٹی کی نمک خواری شروع کردی ہے۔ دوسری جانب فرینڈلی اپوزیشن کی زبان پر
عوام کے ساتھ اس نا انصافی پر تالے لگے ہوے ہیں۔جو عوام کا درد رکھنے کا
دعویٰ کرنے والوں کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ اس وقت مسلم لیگ کی لیڈر شپ
پیٹرول کی قیمتوں پر کہیں دبکی بیٹھی ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ پاکستان کے عوام
دونوں جماعتوں کے دشمن ہیں۔کہ کہیں سے بھی ریلیف کی رمک تک نظر نہیں آرہی
ہے۔ویسے تو دونوں جماعتیں اپنے آپ کو عوام کے دکھ درد کی ساجھی کہتی ہیں
مگر عملی طور پر دونوں امریکی ایجندے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ میرا سوال ان
دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ سے یہ ہے کہ ان عوام کا درد رکھنے والی
جماعتوں میں کوئی ایک بھی غریب یا نچلے درجے سے تعلق رکھتا رکن قومی یا
صوبائی اسمبلی ہے؟ جتنے بھی ان سیاسی پارٹیوں کے لوگ اسمبلیوں میں نظر آتے
ہیں ان کی اکثریت ارب پتیوں پر مشتمل ہے۔ تو پھر یہ کونسے غریبوں کی ہمدردی
کی بات کرتے ہیں؟ مگر الیکشن کے وقت تو واقعی ایسا لگتا ہے کہ سارے پاکستان
کا درد انہی کے جگر میں ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا یہ عزم ہے کہ وہ عدلیہ کے کردار پر کسی قسم
کا دھبہ برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ کراچی میں ججز سے خطاب کرتے ہوے چیف جسٹس
نے کہا کہ آپ کو کسی چھوٹے بڑے سے مرعوب نہیں ہونا چاہئے۔آج سے دوسال پہلے
ججزکا جو مقام تھا آج ان کی عزت اُس سے کہیں زیادہ بلند ہے۔آج سے پہلے ججوں
کو اس عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارا بنیادی
کام اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ جب تک آپ منسٹری
اسٹاف کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے آپ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ان کے خلاف بہت
سی شکایات ہیں ۔لیکن ہم نے فی الحال اس کیلئے کوئی ایکشن نہیں لیا کہ ہم
انہیں ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔ آخر میں ان کا کہنا تھا کہ اب ہم سمجھتے
ہیں کہ ہمیں عدالت کی عزت سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔
اسی طرح سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے وکلاء کے لئے
چیمبر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوے عدلیہ کے حوالے سے کہا ہے کہ آئین کی طرف
اٹھنے والی ہر آنکھ اور ہاتھ کو روکنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ کے کسی
فیصلے کا مقصد کسی پر بالا دستی یا رعب جمانا نہیں ہے ۔بلکہ عدلیہ کی حیثیت
اُس چوکیدار کی سی ہے جو ملک کے ہر گھر اور اس گھر کی طرف اٹھنے والے ہر
ہاتھ کو روکتا ہے۔ خواہ اس کیلئے چوکیدار کو اپنے ہی ہاتھ پیر تڑوانا پڑیں
اور یہی چوکیداری عدلیہ کی عبادت ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے سپریم کورٹ کے فیصلے اور صدارتی
آرڈیننس پر اظہار خیال کرتے ہوے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عوام نے
سکھ کا سانس لیا تھا۔ مگر صدارتی آرڈیننس جاری کر کے پیپلز پارٹی نے عدلیہ
سے محاذ آرائی شروع کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے کاربن ٹیکس کو کالعدم قرار دے
کر قوام کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کی تھی۔ پیپلز پارٹی کو یہ بات
ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سپریم کورٹ سے تصادم کے نتیجے میں جو انجام پرویز
مشرف کا ہوا تھا وہ ہی اس حکومت کا بھی ہو سکتا ہے۔
اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر
اعتزاز احسن نیکہا ہے کہ صدر وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو میرا مشورہ ہے کہ
عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں
جہاں عدلیہ نے ٹیکس لاگو کرنے کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا۔ پارلیمنٹ
سے غلطی ہو سکتی ہے مگر سپریم کورٹ اسے درست کر سکتی ہے۔ انہون نے ایک مثال
کے ذریعے اپنی بات کو واضح کرتے ہوے کہا کہ کل کو اگر پارلیمنٹ قانون بنا
دے کہ سندھی پٹھان یا عینک والے شخص کا شناختی کارڈ نہیں بنے گاتو عدلیہ
کیا اس معاملے پر خاموش رہے گی؟آئین سے متصادم کسی بھی قانون یا ٹیکس
کوسپریم کورٹ ختم کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی غلطیوں اور غلط
پالیسیوں کے ضمن میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے تبصرہ کرتے ہوے
ایک خبر رساں ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوے کہا ہے کہ موجودہ حکومت زیاہ عرصہ
تک نہیں چلے گی صدر زرداری ایک کے بعد ایک غلطی کئے جا رہے ہیں۔ صدر زرداری
نے پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ بنا دیا ہے۔
آئین اور پارلیمنٹ کی وضاحت کرتے ہوے سابق جسٹس وجہہ الدین احمد نے کہا ہے
کہ جن ممالک کا آئین تحریری ہوتا ہے وہاں پارلیمنٹ سپریم نہیں ہوتی ہے۔
بلکہ آئین سپریم ہوتا ہے۔ اگر پارلیمنٹ کوئی بھی ایسا کام کرے جو اختیارات
سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہو تو اس فیصلے کو رد کرنے کا سپریم کورٹ کے پاس
اختیار موجودہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت عوام دوست ہونے کے بجائے حکمرانوں
کے لئے لگژری اور پر آسائش سہولتیں مہیا کئے جانے میں لگی رہیں اور ان کے
غیر ملکی دوروں اور ناز برداریوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہوں اور ملک
کے عوام بھوک و افلاس کا شکار ہوتے چلے جائیں تو ایسی صورت حال میں ملکوں
میں طبقاتی کشمکش جنم لینے کے بعداپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔یہ کشمکش آخر
کار حکومتوں کے کے فوری زوال کا سبب ثابت ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے میں بنیادی
سہولتیں عوام کی پہنچ سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ایسے بد حال عوام کی داد
رسی کون کرنے آئے گا؟صرف سپریم کورٹ ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو عوام کے زخموں
پر مرہم رکھ سکتا ہے۔ اس وقت سے حکومت کو ڈرنا چاہئے جب عوام اپنی بد حالی
کی وجہ سے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ لہٰذاحکومت وقت کو یہ ہما را صائب مشورہ
ہے کہ وہ اپنے عوام کے دکھوں کا مدوا کرے اور پارلیمنٹ کوبھی اپنے اوپر سے
ربر اسٹیمپ ہونے کا لیبل اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ عدلیہ سے
ٹسل نہ لے اور آئی ایم ایف کے ایجنڈے سے عوام کو دور رکھے ۔اپنی شاہ خرچیاں
ختم کرکے اور بڑی بڑی گاڑیاں اپنے کارندوں سے واپس لیکرملک کے خزانے کو
محفوظ بنانے کی کوشش کریاور بجٹ خسارہ پورا کرنے کی کوشش کرے ۔یہ یاد رکھنا
چاہئے کہ تاریخ ہر اچھے برے حکمران پر بے لاگ تبصرہ کرتی ہے۔ حکمرانوں کے
لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے بیرونی اکاؤنٹس کی رقوم کو وطن عزیز میں لائیں
تاکہ ملک بیرونی قرضوں سے نجات پا سکے اور وہ خود بھی تاریخ کے صفحات پر
اچھے ناموں سے جانے جائیں۔ |
|