"خراٹے اور ان کے اثرات"

"خراٹے لینا"دنیا کی واحد بیماری ہے جس کا اثر مریض پر ہونے کے بجائے آس پڑوس کے لوگوں پر ہوتا ہے....یہ بیماری اکثر و بیشتر ایسے لوگوں کو لاحق ہوتی ہے، جن کا وزن ان کی عمر سے زیادہ ہوتا ہے،خراٹے لینے والا شخص جب گھوڑے بیچ کر سوجاتا ہے....تو اس کے جسم کے مختلف حصوں سے اٹھنے والی عجیب و غریب آوازیں اس کے قریب سونے والوں کو تگنی کا ناچ نچاتی ہیں....

ہمارے ایک دوست تهے جب وہ سوتے تهے تو کمرے کے باقی ساتھی اٹھ کر اس کو کوسنے دیتے رہتے....ایک دفعہ رات کو شدید خر خر کی کان پهاڑ آوازوں نے عالم خواب سے جگا دیا..... تو اٹھ کر کھڑکی سے جھانکنے لگا کہ شاید لائٹ چلی گئی ہو، اور جنریٹر اسٹارٹ کرنے کی وجہ سے رات کی تاریکی میں میں شور زیادہ محسوس ہورہا ہو...کچھ دیر کھڑکی سے لگ کر کھڑا رہنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ آواز میرے عقب سے آرہی ہے، پیچھے مڑ کر جو دیکھا تو وہی دوست پشت آسمان کی طرف کرکے لیٹے ہوئے تھے..اور جسم کے ہر حصے سے حسب استطاعت آوازیں بلند ہورہی تھیں....اور کمرے کے باقی سب ساتھی اپنے بستر سمیت کوریڈر میں شفٹ ہو چکے تھے...چارو ناچار اس متحرک جسم پہ ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالتے ہوئے میں بھی بستر اٹھا کر کمرے سے نکل گیا.....یہ ہمارا روز کا معمول تھا.....

ایک مرتبہ اس کے خراٹوں کی آواز اتنی شدید ہوگئی کہ یوں محسوس ہونے لگا جیسے پلیٹ فارم کی 4 مختلف پٹریوں پر بیک وقت ٹرینیں چل پڑی ہوں...اس رات ان کی آواز کو موبائل کے ذریعے محفوظ کرکے صبح ان کے سامنے ریکارڈ چلا کر جب اس سے پوچھا گیاکہ یہ کس چیز کی آواز ہے...تو اس نے جھٹ سے جواب دیا کہ یہ آواز اس وقت کی ہے جب جہاز اڑان بھرنے کے لیے رن وے پہ دوڑنا شروع کردیتا ہے...ایک دن کمرے کے سب ساتھیوں نے مل کر نگران کے سامنے درخواست پیش کی کہ کمرے میں فلاں صاحب سوئیں گا یا ہم....درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے نگران صاحب نے اسے بورڈنگ ہائوس کے کوریڈر میں منتقل کردیا....

کمرےوالوں نے سکھ کا سانس لیا مگر یہ ان کی بھول تھی، کیونکہ اگلی رات پورے بورڈنگ ہائوس میں ہلہ گلہ مچا ہوا تھا....رات کو جب اس کے خراٹوں کی آوازوں نے رنگ جمانا شروع کردیا تو ہر کمرے میں سرگوشیاں ہونے لگی کہ شاید جنات کی کسی سرکش جماعت نےآج بورڈنگ پہ یورش کردی ہو...مگر جب ان کے سامنے اصل کہانی سے پردہ اٹھا تو ہاتھ دھوکر اس کے پیچھے پڑ گئے،نتیجتا اس کو گرائونڈ فلاور کے کارنر پہ نزیر مالی کے کمرے میں منتقل کرنا پڑا جو رات کے وقت خالی رہتا تھا.... اس کے بعد سال کے بقیہ دن خیریت سے گزر گئے....

اگلے سال ایک اور دوست سے واسطہ پڑا....ہمارے آفس سے متصل دو کمرے تهے....چھوٹے کمرے میں وہ خراٹے باز تن تنہا رہائش رکھتے تھے...جب کہ بڑے کمرے میں ہم 3 ساتھی....یہ خراٹے والی سرکار جسمانی حجم کے اعتبار سے میٹھے پان سے کم نہ تھی....اس کے خراٹے لینے کے لیے گہری نیند کی بهی ضرورت نہ تھی...ادھر گردن ڈهلکایا ادھر گاڑی اسٹارٹ...رات کو جب وہ اپنے کمرے میں خراٹے لیتے تو دو کمروں سمیت آفس کے درو دیوار ہلنے لگتے...ہمارے ایک ساتھی جو نئے نئے آئے تھے رات کو پڑوس میں سوئے ہوئے انسان نما ڈرم کے خراٹوں کی تاب لا سکے، اور انہیں یہ گمان گزرا کہ شاید 5.4شدت کا زلزلہ آیا ہوا ہے اور آن کی آن ٰٰؐؐمیں سب کچھ اتھل پتھل ہوجائے گا، عمارتیں زمین بوس ہوں گی اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، وہ بھاگتے ہوئے مسجد پہنچا اور افراتفری کے عالم میں بے وضو سجدے میں گرگیا،جب تھوڑا ہوش آیا تو وہ خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ شاید میری دعا کی وجہ سے زلزلہ رک چکا ہے، حالانکہ اس کے کمرے کے قریب زلزلہ مزید شدت اختیار کرچکا تھا....

یہ صاحب بیک وقت جسم کے تمام اعضاء خراٹے بھرنے کے لیے استعمال کرنے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں.....یہاں تک تو سب ٹھیک تها مگر یہ شخص اب رشتہ ازواج میں منسلک ہوا ہے....نہ جانے اس خدا کی بندی پہ کیا گزر رہی ہوگی....
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 47387 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More