نہ جانے آج مجھے چرند و پرند
کیوں یاد آرہے ہیں ،خاص کر ایسے جا نور جو شریف اور سُست تصور کیئے جاتے
ہیں اونٹ، گدھا، اُلو،طوطا اور بھینس ان جانوروں کے متعلق کہاوتیں اور ضرب
المثال بھی بڑے موجود ہیں۔ایک محاورہ ہے ـ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل
سیدھی یہ کہاوت کب کہی گئی اور کس نے کہی لیکن جس نے بھی کہی ہے کمال کی
بات کہی ہے ۔میرے خیال میں حکومتی عیاشیاں رشوت اور کرپشن کا تفصیل سے ذکر
کرنے کے بجائے اس محاورے میں موجود اونٹ کے لفظ کو ہٹا کر حکومت لکھ دیا
جائے تو اونٹ رے اونٹ والا محاورہ سب کی سمجھ میں آئیگا ورنہ تو ہم جیسے
عقل کے کورے اونٹ کو ہی بے ڈھنگا جانور سمجھتے رہئنگے۔ کہیں میں بھینس کے
آگے بین تو نہیں بجا رہا ہوں ،بین کی دُھن ایک ایسی دُھن ہے جس پہ ہر سانپ
جھوم اٹھتا ہے پر یہاں تو معمالہ ہی الٹا ہے بھینس سانپ تھوڑی ہے کہ جھوم
اٹھے یہ بھینس کے آگے بین بجانے کا قصہ پُرانا ہو چکا ہے اب تو جدید دور ہے
اس لیئے اس محاورے کے بجائے جس کی گورنری اس کی بھینس ہونا چاہئے۔آپ کے ذہن
میں یہ بات آئی ہوگی کہ محاورہ تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے یہ جس کی
گورنری اس کی بھینس کہاں سے ٹپک پڑا تو جناب عرض ہے کہ یہ محاورہ مجھے طوطے
نے بتایا اور طوطا ایک ایسا پرندہ ہے جو رٹے کا ماہر ہے اور جب کسی چیز کو
رٹ کرتا ہے تو کبھی نہیں بھولتا اس پرندے کو میاں مٹھو بھی کہتے ہیں اور اس
کی بہت ساری قسموں میں سے ایک قسم طوطا چشم بھی ہے جس کی ہمارے معاشرے میں
کوئی کمی نہیں اور جس معاشرے میں حکومتی اقدام سے نا اہل اور ناکارہ لوگ
ایسے منصب پر فائز ہوں جہاں سے وہ اپنے سے زیادہ اہل لوگوں پر حکم چلائیں
تو ایسے ہی محاورے سامنے آتے رہئنگے ۔سب کو ایک ہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ
ان کی طوطی بولی جائے پر ہم طوطی کے جو بول بولنا چاہتے ہیں اس کی آواز
نقارخانے تک ہی نہیں پہنچ پاتی۔اب اس محاورے کا مطلب پوری طرح آپ کی سمجھ
میں آیا ہوگا اس پہ مزید وقت ضائع کئے بغیر گدھے کی طرف مڑتے ہیں گدھا بھی
انتہائی شریف اور کار آمد جانور ہے اس جانور کے متعلق بھی بہت سارے محاورے
اکثر اوقات مختلف موقعوں پر استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔گدھے کا لفظ ہمیشہ
احمق کے معانی میں استعمال کیا جاتا ہے اور یہ ہر ملک میں پائے جاتے ہیں
۔گدھے کا ذکر ہو اور گھوڑے کا نام نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے ۔ انسان گدھا اور
گھوڑا ۔ ان کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے تبھی تو انسانوں کو ممتاز کرنے کے
لئے گدھا گھوڑا ایک بھاؤ والا محاورہ استعما ل میں لایا گیا ہے ۔یہاں گدھا
خراب چیز یا کام کا اور گھوڑا اچھی چیز یا کا م کا استعارہ ہے اسی طرح ایک
اور محاورہ گدھا کیا جانے زعفران کی قدر یعنی نا اہل آد می کو اچھے کام کی
قدر نہیں ہوتی ۔اب ان دو محاروں کا تجزیہ جدید تقاضوں کے مطابق کیا جائے تو
بات ہمارے پلے خود بخود آسکتی ہے پہلے والے محاورے کو حکومت اور عوام ایک
بھاؤ اور دوسرے کو ممبر کیا جانے ووٹ کی قدر پڑھا جائے تو شائد بات کو صحیح
طرح سمجھنے میں آسانی رہے ورنہ دوسروں کو احمق اور اپنے آپ کو ہوشیار
سمجھنے کی غلطی اور زک اٹھاتے رہئنگے۔اب تو آپ ا ن محاوروں کا مطلب اچھی
طرح جان چکے ہونگے ۔گھوڑا ایک تیز جانور ہے اور کمال پھرتی دکھانے میں اس
کا ثانی کوئی نہیں اس طرح حکومت بھی پھرتی دکھانے کی ماہر ہے صرف اخباری
بیانوں کے چابک سے عوامی گدھوں کو ہانکتی ہے اور عوام گدھوں کو گھوڑے سمجھ
کر اپنے ووٹ کی قدر و منزلت کھو دیتی ہے ۔اب ان دو صورتوں میں گدھے والے
محاورے عوام پر صادق آتے ہیں ۔یہ میرا کہنا ہے و ہ اس لئے کہ عوام جب بے حس
اور اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کریں اور نہ گائے ہے نہ گائے کا بچہ کے
محاورے پر عمل پیرا نظر آجائیں یعنی ہر قسم کی ذ مہ داری سے اپنی جان
چھڑانے والے کا کردار نبھائنگے تو ایسے میں انہیں اُلو کی یاد ہی آسکتی ہے
جو آنکھیں بند کئے سو تا ہی رہتا ہے۔ شائد اُلو کی کاہلی اور سونے کی خاصیت
کی بنا پرعوام اُلو کو بہت پسند کرتے ہیں اور ہر وقت اُلو ہی کی باتیں کرتے
رہتے ہیں جسے میں اور آپ اپنی روز مرہ زندگی میں سنتے رہتے ہیں جیسے ۔کیا
اُلو بنتے ہو،تم تو اُلو کے اُلو ہی رہوگے کبھی کبھار حدوں سے اتنے آگے
جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو اُلو کی دم اور اُلو کا پٹھہ کہنے سے بھی نہیں
چونکتے۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں اُلو کتنا عزیز ہے ۔اپنا
اُلو سیدھا کرنے کی کوشش میں ہمیشہ اُلو ہی بنے رہتے ہیں ۔کیا اب بھی ہمیں
اپنے اُلو بننے سے انکار ہے - |