فارسی میں حکیم لقمان کی ایک
حکایت ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے حکیم لقمان سے کسی نے پوچھا آپ نے کہا۔ادب
کہاں سے سیکھا؟ انھوں نے جواب دیا ۔ بے ادب لوگوں سے ۔یعنی اگر کسی بے ادب
انسان کے رویے کا جائزہ لیں تو آپ کو اس بات کا اندازہ ہو گا کہ وہ شخص
اپنے اردگرد کے لوگوں میں کیا مقام رکھتا ہے ۔ لوگ اسے کن الفاظ میں یاد
کرتے ہیں ۔ کسی بھی بے ادب انسان کے بارے میں لوگ اچھی رائے نہیں رکھتے ۔
اسے عزت کی نگاہ نہیں دیکھا جاتا ۔
حدیث ِ نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں جو بڑوں کا احترام نہ کرے
اور چھوٹوں سے پیار نہ کرے ۔
بڑوں کا احترام ایک طرح سے ایمان کا حصہ ہے اور اس شخص کو مسلمانوں کی صف
سے خارج سمجھا گیا جو دوسروں کی عزت و احترام کا خیال ملحوظِ خاطر نہ رکھا
جائے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادب و احترام ہمارے معاشرے سے ناپید ہوتا جا
رہا ہے ۔
حکایت سعدی میں ایک واقع کچھ یوں نقل کیا گیا ۔ کسی زاہدو عابد شخص اورخوش
خصال کے پاس ایک ایسا غلام تھا جو اپنے آقا کے مقابلے میں بد خصلت اور بری
عادات کا مالک تھا ۔ وہ کام کاج میں سست اور کاہل تو تھا ہی بد اخلاق بھی
تھا۔ ایک روز اس بزرگ سخص کے گھر میں ایک بہت ہی معزز مہمان آیا ۔ اس نے
غلام کو دیکھ کر اپنے دوست میزبان سے پوچھا کہ اس نے غلام میں کون سی ایسی
خوبی دیکھی ہے کہ اس جیسے بد خصلت انسان کو برداشت کر رہا ہے ۔ اس نے دوست
کومشورہ دیا کہ اس غلام کو بیچ دے اور کوئی اچھا غلام لے آئے ۔ دوست کی بات
سن کر اس زاہد و عابد شخص نے جوب دیا دیا ۔ دوست ! تم نے جو کچھ کہا ہے وہ
سو فی صد درست ہے مگر میں نے تو اس کی بری عادتوں کو دیکھ کر اپنی عادات
درست کی ہیں ۔ میں نے اسے اتنا برداشت کیا ہے کہ اب مجھے اسے برداشت کرنے
کی عادت ہو گئی ہے ۔ اب یہ بے مروتی ہو گی جو میں اس غلام کو فروخت کر دوں
۔
ہماری نسل کا المیہ یہ ہے کہ ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ہمارا ادب واحترام کیا
جائے، ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے لیکن ہم خود کسی کو عزت دینے کو تیار
نہیں ۔ والدین کی عزت و احترام اب اس طرح سے نہیں کی جاتی جس طرح سے والدین
کا حق ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں کی حالت یہ ہے کہ بچوں کے
سامنے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے گریز نہیں کیا جا تا ۔گھر کے بڑوں میں
برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ باپ بچو ں کے
سامنے ان کی ماں کو برا بھلا کہتا ہے بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے سے جہاں ان
کی نفسیات پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں وہاں وہ بدتمیزی اور بدتہذیبی سیکھتے
ہیں اور اور عدم برداشت کا رویہ بچپن سے ہی ان کی عادت ِ ثانیہ بن جاتا ہے
۔ یہ بچے جب جوان ہوتے ہیں تو جو رویہ بچپن سے وہ دیکھتے آرہے ہیں وہی رویہ
وہ عملی زندگی میں اپناتے ہیں ۔یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو معاشرے کے مفید
شہری بننے کی بجائے معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں ۔ بچے بڑے ہوکر عدم
برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ نوجوانوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو ان
کے بچپن میں اپنے رویے کا جائزہ لینا ہو گا ۔اور آج کے نوجوان کو اپنے بچوں
کے لیے رول ماڈل بننا ہو گا ۔
صرف ایک گھر کی سطح پر نہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی ہمارے یہاں کسی کے کام پر
تنقید کی بجائے دوسروں کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔تنقید اگر کام پر ہو
تو اس کے مثبت اثرات سامنے آ سکتے ہیں لیکن جب بات ایک دوسرے کی ذاتیات پر
آ جائے تو کارکردگی بہتر ہونا تو درکنار الٹابیان بازی کے ایک سلسلے کا
آغاز ہو جاتا ہے ۔اور اس طرح عملا نہ تو کوئی مسئلہ حل ہو پاتا ہے اور نہ
ہی کسی کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے ۔
کسی بھی سیاسی پارٹی کو ہی لے لیں ، کسی جلسے کو اٹھا کر دیکھ لیں سیاسی
رہنما اپنے حریفوں کو اس طریقے سے مخاطب کرتے ہیں جو کسی طور پر تہذیب کے
دائرے میں نہیں آتا اور بعض اوقات تو رہنماؤں کے الفاظ انتہائی حد تک نا
زیبہ ہو جاتے ہیں ۔مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماایک دوسرے کو فرعون اور
طالبان کہنے سے نہیں چوکتے ۔۔یہی نہیں سیاسی رہنما جلسوں ، پارلیمنٹ ، اور
قومی اسمبلی میں ایک دوسرے کو اس طرح للکارتے ہیں جیسے کوئی پہلوان کشتی کے
لیے اپنے حریف کو للکارے ۔صرف سیاسی جماعتوں کے رہنما ہی نہیں ہمارے عہد کے
علماء بھی جوشِ خطابت میں دوسرا مکتبہ ء فکر رکھنے والوں کو کافر ، اسلام
سے خارج قرار دیتے ہوئے نہیں چوکتے ۔ اس طرح کے خطابات سے دو فرقوں کے
مابین اختلافات بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔صرف یہی نہیں بعض اوقات تو رہنما یہاں
تک کہتے پائے جاتے ہیں کہ خدا کی عدالت میں فلاں کا انجام برا ہے یا فلاں
پر لعنت ہو اس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں ۔ یہ باتیں نہ صرف عالمی سطح پر
ملک کی جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں بلکہ ان جلسوں میں شامل نوجوانوں اور
بچوں کی نفسیات پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اسلام اس طرح کے بیانات کی شدید
مذمت کرتا ہے-
حدیث شریفﷺ میں بیان ہوتا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے آپ ﷺ کو
فرماتے سنا کہ کوئی شخص کسی کو فسق و کفرکے ساتھ متہہم نی کرے اس لیے کہ وہ
اس کا اہل نہ ہو گا تو وہ کفر و فسق اسی کی طرف لوٹ آئے گا ۔ ( صحیح بخاری
)
اہم اور غور طلب بات یہ کہ ایک عام آدمی کے الفاظ چند محدود لوگوں تک ہی
پہنچتے ہیں اور محدود لوگوں کا گروہ ہی ان الفاظ سے متاثر ہو سکتا ہے ۔اس
گروہ میں اس کے اپنے خاندان کے لوگ ، اس کے دوست یا وہ لوگ جو اس کے ساتھ
کام کرتے ہیں شامل ہیں ۔اس کے برعکس کسی سیاسی یا مذہبی رہنما کے الفاظ اور
اس شخص کے بات کرنے کا اندازمعاشرے کے ہر طبقہ تک پہنچتے ہیں اور ہر طبقہ
ان الفاظ کو اپنی سوچ کے مطابق اپنے خیال کے مطابق محسوس کرتا اور اس پر
عمل کرتا ہے ۔خصوصا مذہبی رہنماؤں کے الفاظ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور
ان کے الفاظ معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کرتے ہیں ۔ مذہبی رہنما اگر
جوش ِ خطابت میں بھی کسی کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان کی بات کو حرف ِ آخر
سمجھا جاتا ہے ۔ لوگ ان کی باتوں پرعمل بھی زیا دہ کرتے ہیں ۔اس لیے سیاست
دانوں ، علماء اور رہنماؤں پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی
زبان کو شائستہ رکھیں اورتنقید تہذیب کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کریں ۔
جوش ِ خطابت میں بھی کسی کو فرعون یا دین سے خارج قرار نہ دیں ۔
ذرا سوچیئے ! جو نوجوان یا بچے ان جلسوں میں شامل ہوتے ہیں یا یہ جلسے ٹی
وی پر لائیو دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ کیا سیکھ رہے ہیں ؟ بدتمیزی اور بد
تہذیبی ۔اور کل کو وہ جب عملی زندگی کا آغاز کریں گے تو وہ کس کی پیروی
کریں گے ؟ آج کا بچہ وہی کچھ سیکھے گا جو وہ اپنے بڑوں کو کرتے دیکھے گا
۔کیونکہ بچوں کے لیے ان کے والدین ، اساتذہ اور اردگرد کا ماحول ان کی
عادات کو فطرت بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ بچوں نے وہ سیکھنا ہے جو
ان کے بڑے کر رہے ہیں اور کل کو انھوں نے بھی یہی کرنا ہے ۔ نئی نسل کی
بہتر نشوو نما کے لیے ضروری ہے کہ آج کی نسل اپنے رویے کو بہتر بنائے ۔اپنی
ذمہ داریوں کو پہچانے اور ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی حتی ٰ المقدور
کوشش کرے ۔اگر ہر شخص اپنی ذمہ داری کو نبھائے گا تو معاشرہ ایک فلاحی
معاشرہ کی تصویر پیش کرے گا ۔
|