جدید دور اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجز

ابھرتا سورج

آرنلڈ ٹوئن بی ”اے سٹڈی آف ہسٹری“ میں لکھتا ہے:
”ایک دور تھا کہ شمالی افریقہ کے صحرا زرخیز خطے تھے جو شکاریوں کی ایک کثیر آبادی کی کفالت کرتے تھے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ علاقے خشک ہوتے چلے گئے۔ تمام جانور وہاں سے بھاگ نکلے یا پھر لقمئہ اجل بن گئے اور شکاریوں کو اپنے زمانے کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا کہ اب وہ کس طرح زندہ رہیں گئے؟ ان شکاریوں میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو اس چیلنج کو نہ سمجھ سکا۔ وہ اپنے آپ میں کوئی تبدیلی لانے سے قاصر تھا۔ اُس گروہ نے حالات کو سمجھے بغیر شکاری رہنے کا ہی فیصلہ کر لیا۔ یوں وہ لوگ جو اپنے زمانے میں تہذیب یافتہ تھے بعد میں محض ”وحشی“ بن کر رہ گئے۔
وہ لوگ جنہوں نے اس چیلنج کا مقابلہ کیا اور انہوں نے مکمل طور پر اپنی زندگیوں کو تبدیل کر لیا، وہ نیل کی وادیوں کا رخ کرنے لگے۔انہوں نے وہاں جنگلوں کو صاف کیا، زمین کو قابل کاشت بنایا اور یوں اعلیٰ قسم کی زراعت کا آغاز کیا۔ اس کے نتیجے میں وہ خوش حال ہو گئے اور انہوں نے اس عظیم تہذیب کی بنیادیں رکھیں جو چار ہزار برس تک زندہ رہی۔“

ہزاروں صفحات اور دس جلدوں پر مشتمل ”اے سٹڈی آف ہسٹری“ میں ٹوئن بی نے انسانی تاریخ کی چھبیس تہذیبوں مطالعہ اور محاکمہ پیش کیا ہے۔ یہ چھبیس تہذیبیں ٹوئن بی کے خیال میں وہ تہذیبیں ہیں جنہوں نے چھ ہزار برس میں انسانی تاریخ اور دنیا کی صورت گری کی۔ اس طویل و بسیط مطالعہ کا نتیجہ ٹوئن بی نے یہ نکالا ہے کہ تمام تہذیبیں ایک ہی ڈھانچے کی تقلید کرتی ہیں اور ہر تہذیب کی نشوونما اور اس کے زوال کے اسباب تقریباً ایک سے ہیں اور یہ اسباب وہ چیلنجز ہیں جن کا ان معاشروںاور تہذیبوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹوئن بی لکھتا ہے کہ ایک معاشرے اور تہذیب کو کئی طرح کے چیلنج درپیش ہوتے ہیں۔ جب وہ تہذیب ایک چیلنج کے مقابلے میں سرخروئی حاصل کرتی ہے تو ایک دوسرا چیلنج اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح اُسے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب تک وہ سرخروئی حاصل کرتی رہتی ہے تب تک وہ دنیا میں زندہ اور پائیدار اور غالب تہذیب رہتی ہے لیکن جیسے ہی اُس تہذیب میں ان چیلنجز کا سامنا کرنے کی سکت ختم ہوتی ہے تو وہ تہذیب بھی ختم ہو جاتی ہے اور اُس کی جگہ کوئی دوسری تہذیب لے لیتی ہے۔ اسی طرح سے قوموں کے عروج و زوال کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

ٹوئن بی کی شکاریوں والی مثال سے دو طرح کے گروہ سامنے آتے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ جو ہر طرح کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ بدلتے وقت کے تقاضوں کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرا گروہ ایسی تمام صلاحیتوں سے عاری ہوتا ہے جن سے درپیش چیلنجز کا سامنا کیا جا سکے۔ لہذا اس صلاحیت کے نہ ہونے کے باعث وہ اپنی اور آنے والی نسلوں کی تنزلی کا باعث بنتا ہے۔ اس گروہ کی سب سے اہم خامی یہ ہوتی ہے کہ اُس نے جو کچھ اپنے آباﺅ اجداد کو کرتے ہوئے پایا اُسی کی اندھا دھند تقلید کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ اپنے آباﺅ اجداد کے طریقوں سے انحراف کریں۔ لہذا زوال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ افریقی شکاریوں کے ساتھ ہوا اُسی طرح کا کچھ واقعہ مسلم دنیا میں بھی اُس وقت پیش آیا جب یورپ میں سائنس و ٹیکنالوجی کا انقلاب آیا۔ اور اُس نے تمام مسلم دنیا کو اپنی نو آبادیوں میں شامل کر لیا۔ اس وقت مسلمانوں کی ایک عظیم تعداد اس تبدیلی کو سمجھ نہ پائی جس کے باعث مسلمانوں پر زوال عمیق سے عمیق تر ہوتا گیا۔ اُس کی تمام عظیم سلطنتیں یعنی سلطنتِ مغلیہ، سلطنتِ صفویہ اور سلطنتِ عثمانیہ چھین لی گئیں۔ جب یورپ میں سترھویں صدی میں یہ عظیم انقلاب آیا تو مسلمانوں کے لیے یہ ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر گیا پھر اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسلامی دنیا میں بڑی بڑی شخصیات اُٹھیں جنہوں نے مسلم دنیا کو اس چیلنج کو سمجھنے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے دن رات محنت کی۔ اور بتایا کہ اسلام سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے سے نہیں روکتا بلکہ اسلام تو تسخیرِ کائنات کا درس دیتا ہے۔ ان اہم شخصیات میں جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، علامہ اقبال، حسن البناءوغیرہ شامل ہیں۔ ان شخصیات کی پیہم کوششوں نے مسلم دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

اور اب یوں لگتا ہے کہ مسلم دنیا بھی اس تبدیلی کا حصہ بننے جا رہی ہے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیونس اور مصر تو میدان میں اُتر آئے ہیں۔ جبکہ تبدیلی کی ایک بڑی لہر عرب دنیا میں بالخصوص اور بالعموم باقی دنیا میں چل چکی ہے۔ جبکہ اس سے پہلے ترکی اور ایران اس شاہراہ پر قدم رکھ چکے ہیں۔ اور کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ لہذا ہمیں بھی آج دنیا میں اپنی حیثیت کو منوانے کے لیے اپنے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی نظام میں تبدیلی لانا ہو گی تاکہ ہم دنیا میں باوقار قوم کی حیثیت سے زندہ رہ سکیں اور اپنے آپ کو منوا سکیں۔
Tahir Afaqi
About the Author: Tahir Afaqi Read More Articles by Tahir Afaqi: 24 Articles with 19315 views I am interested to indulge myself for meeting new challenges of life and want to find new solutions for myself and for humanity.. View More