محب وطن کون؟
(شکیل اختر رانا, karachi)
ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا،
کل ہی کی تو بات ہے،تعصب،فرقہ پرستی اور مذہب بیزاری کی رداء اتار کرحقیقت
پسندی کا چشمہ لگائیں اور تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر زرا جائزہ لیں تو
آپ کو آپ کو اندازہ ہوگا کہ حب الوطنی اور پاک فوج کی محبت کے حمام میں کون
مخلص اورکون ننگا ہے، ماضی قریب کے احوال کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھنا
چنداں مشکل نہیں کہ جب مشرف کے اقدامات کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان
وجود میں آنے کے بعد ملک کی فضا بارود کی بو سے اٹنے لگی،اور ملک بھر میں
دھماکوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا،طالبان کے روپ میں ملک
دشمن ہر گروہ اپنا الو سیدھا کرنے لگا،مسجدوں سے لے کر مدرسوں تک کو بھی
خون میں نہلایا گیا، پھر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ہر واقعے کی ذمہ
داری قبول کرنے کا سلسلہ شروع ہوا-
یہ صورت حال دیکھ کر حکومت نے طالبان کے خلاف کاروائی پہ غور شروع کردیا تو
پوری قوم مجموعی طور پر طالبان کے حوالے سے دو حصوں میں بٹ گئی، ایک گروہ
کا نقطہ نظر یہ تھا کہ طالبان کے ساتھ تمام معاملات مذاکرات کے ذریعے طے
کرنے چاہیے ، کیوں کہ ان کے خلاف کاروائی کی وجہ سے ایک تو عسکری طور پر
فوج کو نقصان پہنچے گا، جب کہ دوسری جانب ملک کے حالات مزید خراب ہوجائیں
گے، دوسرا گروہ ہمیشہ آپریشن پر اصرار کرتا رہا، حکومت پاکستان اور پاک فوج
کی پالیسی بهی ابتداء یہی تهی کہ معاملات مذاکرات کے ذریعے ہی طے ہو ں تو
بہتر ہے، پاکستان کے سول اور عسکری حکام آخری حد تک اپنی پالیسی پہ عمل
پیرا رہے،اسی دووران کبھی مذاکرات کبھی ہلکے پھلکے آپریشن کا سلسلہ جاری
رہا۔
پهر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ تینوں گروہ ایک پچ پہ نظر آنے لگے،یہ کہانی
اس وقت شروع ہوئ جب سال 2014 کے اختتام میں 16 دسمبر کو 140 سے زائد بچوں
اور اساتذہ کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں شہید کردیا گیا،جس کی وجہ سے
پوری قوم سکتے میں آگئی اور پاک فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن تیز
کردیا،پاک فوج نے جب طالبان کے خلاف آپریشن کا تیز کیا تو پوری قوم بلا
تفریق فرقہ و مسلک فوج کی حمایت میں میدان میں آگئی،علماء نے طالبان کی
کاروائیوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا،عوام اور خواص سب ایک پچ پر جمع
ہوگئے،کسی بھی سنجیدہ طبقے نے پاک فوج کے خلاف فتوی جاری نہیں کیا، یہ اور
بات ہے کہ اس سے پہلے علماء اور کچھ دیگر لوگ آخری دم تک طالبان سے مذاکرات
پر زور دیتے رہے،مگر آخری لمحات میں یا تو وہ اعلانیہ یا خاموشی سے پاک فوج
کے حمایتی بن گئے،دوسرے نمبر پہ وہ لوگ تھے جو باقاعدہ طور پر یہ پیشکش
کرتے ہوئے نظر آئے کہ وہ اپنے جوانوں کو رضاکارانہ طور پر پاک فوج کے شانہ
بشانہ لڑنے کے لیے بھیجنے پہ تیار ہیں،پھر آپریشن ہوا اور طالبان کا زور
ٹوٹ گیا...
اس کے بعد فوج کی نظریں کراچی پہ پڑھ گئیں،کراچی جو کہ گزشتہ ایک عشرے سے
آگ و خون میں جل رہا تھا، فوج نے رینجر کی مدد سے کراچی میں آپریشن شروع
کردیا، تقریبا پوری قوم یہاں بھی فوج اور رینجرکی حمایت کرتی نظر آئی،اور
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی شرح صفر تک پہنچ گئیاور کراچی کے شہریوں نے سکھ کا
سانس لیا،اس کے بعد پوری قوم مزے سے ورلڈکپ دیکھنے میں مشغول ہوگئی،ابھی
قوم کرکٹ میں ہارنے کے صدمے سے باہر نہیں نکلی تھی کہ اچانک خلیج کے اندر
صورت حال بدل گئی،سعودی عرب نے یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کاروائی
کا آغاز کردیا،جب یہ اطلاع پاکستان پہنچی تو حکومتی و عسکری ذرائع نے دوٹوک
الفاظ میں اعلان کردیا کہ سعودی عرب کی سلامتی کے لیے پاکستان ہر ممکن کوشش
بروئے کار لائے گا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی قوم ایک بار پھر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی،قوم کا ایک
بہت بڑا اور اکثریتی حصہ خاموش یا اعلانیہ طور پہ حکومت کے اس اعلان کا
حامی بن گیا، واضح رہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جو ابتداء طالبان کے ساتھ مذاکرات
پہ زور دیتا رہا اور جب فوجی آپریشن شروع ہواتو فوج کا حامی بن گیا اسی طرح
کراچی میں رینجرز کی کاروائیوں کا بھی خاموش یا اعلانیہ طور پر حامی
رہا،دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے، جو اس وقت تو فوج کی حمایت میں
ریلیاں نکالنے میں مصروف تھا جب پاک فوج قبائلی علاقوں میں طالبان کے خلاف
آپریشن میں مصروف تھی،اس گروہ نے پاک فوج کے حق میں اتنا شور و غوغا مچایا
کہ یوں محسوس ہورہا تھا کہ ان کے علاوہ کوئی محب وطن اور پاک فوج کا حامی
کوئی ہو ہی نہیں سکتا،اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کرائے کی آنٹیوں کو
لنڈے کے جینز پہناکر چوکوں چوراہوں میں چراگاہ کرتا رہا،اس میں سول سوسائٹی
کے نام پر مذہب کے خلاف زہر اگلنے والے کچھ آستین کے سانپ بھی شامل تھے،کچھ
لوگ اس قافلے میں ایسے بھی تھے جو پاک فوج کی حمایت کی آڑ.میں اپنے مذہب
بیزاری کا الو سیدھا کرنے میں مشغول تھے۔
پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے وعدے وعید کرنے والا اس گروہ کا ہر فرد
گزشتہ کچھ دنوں سے منڈٰیر پر بیٹھے کوے کی طرح کائیں کائیں کررہا ہے، کل تک
جس فوج کو اسلام کے سپاہی قرار دیا جارہا تھا آج اسی فوج کو یہ لوگ کرایے
کے ٹٹو کہہ رہے ہیں،طالبان کے خلاف آپریشن کی وجہ سے جس حکومت کی بلائیں لے
رہے تھے، آج وہی حکومت ان کے نزدیک ریالوں کی بھوکی نظر آنے لگی ہے،موم
بتیاں جلانے والی آنٹیا ٹی وی پہ بیٹھ کر اسی فوج کے خلاف زہر اگلنے لگیں
ہیں، جن کی حمایت میں وہ کچھ عرصہ پہلے زمین اور آسمان کے قلابے ملارہ تھی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی پہ نظر رکھنے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ
سعودی عرب پاکستان کا وہ سٹریٹیجک پاٹنر ہے جس نے ہر مشکل میں پاکستان کی
مدد کی ہے۔ یہ جن ایٹم بموں اور میزائیلوں پر ہم فخر کرتے نہیں تھکتے انکے
پروجیکٹس پر نصف سے زائد رقم سعودی عرب نے ہی خرچ کی ہے۔ اسی لئے 80 کی
دہائی میں امریکہ نے ہمارے ایٹم بم کو "اسلامک بم" قرار دیا تھا کیونکہ
امریکہ جانتا تھا کہ عرب ممالک کوئی صدقہ نہیں بانٹ رہے بلکہ یہ بم ان سب
کا ہوگا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگیں تو ایک
بار پھر سعودی عرب آگے آیا اور ان مشکلات میں ہماری معیشت کو مضبوط سہارا
دیا۔ وزیر اعظم نے صاف کہدیا ہے کہ سعودی سلامتی کو لاحق خطرات کا سختی سے
جواب دیا جائے گا۔ یہ پیغام امریکہ اور ایران دونوں کے لئے ہے۔ پاکستان کل
وزیر دفاع اور مشیر خارجہ دونوں کو سعودی عرب بھیج چکا ہے جو اس بات کا
اظہار ہے کہ سفارتی و عسکری دونوں آپشنز کھلی ہوئی ہیں۔ سعودی عرب کے گرد
گھیرا تنگ کرتی طاقتیں خود انتخاب کر لیں کہ بات چیت کرنی ہے یا جنگ ؟ یہ
بات طے ہے کہ اگر سعودی عرب کو براہ راست چھیڑا گیا تو پاکستان اپنے تمام
وسائل کے ساتھ اس کا ساتھ دے گا۔ جن لوگوں کا یہ تصور ہے کہ پاکستان کو
سعودی عرب کا ساتھ نہیں دینا چاہئے اللہ ان کے پڑوس اور دوستی سے ہر شریف
آدمی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے کہ یہ مشکل میں ساتھ چھوڑ جانے والے
مجنوں ہیں۔
اس صورت حال کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کریں کہ حکومت پاکستان اور پاک فوج کے
ساتھ حقیقی محبت کرنے والے لوگ وہی ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک پاک فوج کی
حمایت کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے میں مصروف تھے اور اب مختلف
حیلوں بہانوں سے پاک فوج کے خلاف زہر اگل رہے ہیں، یا وہ لوگ حقیقت میں پاک
فوج کے حامی ہیں جو ہر مسکل گھڑی میں پاک فوج کی حمایت میں کھڑیں ہیں؟ |
|