حلقہ 246 کی مشہوری
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
یوں تو عام طور سے ضمنی انتخابات
ہوتے ہی رہتے ہیں الیکشن کمیشن کے معمول کا یک عمل ہے جو وقتاَفوقتاَہوتا
رہتا ہے لیکن حلقہ 246 کی اتنی ضرورت سے زیادہ پبلسٹی اور پوری دنیا میں اس
ضمنی انتخاب کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے کہ ہر چینل کی خبروں کا ایک
حصہ اس ضمنی انتخاب کی کوریج کے لیے مختص ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر ایک پارٹی
کے امید وار جناب عمران اسماعیل کہیں نہاری کھانے جائیں یاحسین آباد کی فوڈ
اسٹریٹ پر کسی ہوٹل میں چائے نوش فرمائیں تو ہر چینل اس کی کوریج بھی دیتا
ہے ۔آج کے جائزے میں اس پر گفتگو ہو جائے کہ اس نشست کو اتنی اہمیت کیوں دی
جارہی ہے اور یہ کہ پورا میڈیا صرف دو جماعتوں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف
کی خبریں اور مہم کی تفصیلات بتارہا تھا کہ جیسے یہی دو جماعتیں انتخاب
لڑرہی ہوں،اب کچھ دنوں سے جماعت اسلامی کوبھی کچھ کوریج ملنا شروع ہوئی ہے
لیکن اس سے پہلے اس نشست کے حدود اربع کا تعارف ہو جائے ۔لیاقت آباد شہر
کراچی کی وہ بستی ہے جو 1964میں اس وقت خبروں کا مرکز بنی جب ایوب خان اور
فاطمہ جناح کے درمیان انتخابی معرکہ ہوا اور اس کے بعد گوہر ایوب نے فتح کا
جلوس نکالا اور لیاقت آباد میں جلوس کے ساتھ داخل ہوئے پھر جو کچھ ہو ا وہ
تاریخ کا حصہ ہے پھر 1965میں پوری دنیا نے اس وقت لیاقت آباد کا نام سنا جب
آل انڈیا ریڈیو نے دوران جنگ یہ خبر نشر کی لیاقت آباد تین ہٹی کا ہوائی
اڈہ بھارتی طیاروں کی بمباری سے تباہ ہو گیا ۔ایوب خان کی آمریت کے خلاف جو
تحریک چلی پورے ملک میں کراچی اس کی قیادت کررہا تھا تو اس وقت لیاقت آباد
کراچی کی قیادت کررہا تھا 1972میں لسانی بل سندھ اسمبلی میں منظور ہو ا اس
ہنگامے میں لیاقت آباد کی مارکیٹ تباہ ہوئی اور دس نمبر پہ شہید چوک وجود
میں آیا جب نئی سپر مارکیٹ کا افتتاح ہوا تو بھٹو صاحب کی دوران تقریر کچھ
شرپسندوں نے فضا میں جوتے اچھالے اس پر بھٹو نے کہا کہ ہاں ہاں مجھے معلوم
ہے کہ ملک میں جوتے مہنگے ہو گئے ہیں ۔بھٹو دور میں بنگلہ دیش نا منظور
تحریک ہو،تحریک ختم نبوت ﷺ ہو ،تحریک بحالی جمہوریت ہو یا تحریک نظام مصطفی
ﷺ ہو ان تماتم تحریکوں میں قیادت لیاقت آباد کے پاس تھی ۔1970,1977 1985کے
انتخابات تک لیاقت آباد کے ساتھ کچھ دوسری آبادیوں کو شامل کرکے حلقہ
انتخاب تشکیل دیا جاتا رہا اور ان تینوں انتخابات میں جماعت اسلامی کامیاب
ہوئی تھی اس کے بعد کے انتخابات میں لیاقت آباد کو دو حصوں میں تقسیم کردیا
گیا لیاقت آباد کا جنوبی حصہ ناظم آباد کے ساتھ ملا دیا گیا جو حلقہ
247ہے۔اس کا شمالی حصہ فیڈرل بی ایریا کے ساتھ ملا کر حلقہ 246بنایا گیا ۔اس
حلقے میں لیاقت آباد کی یو سی 6(بندھانی )جس میں بلاک نمبر 7,8,9,10سکندر
آباد،راجپوتانہ کالونی اور بندھانی کالونی اور یوسی 7(شریف آباد )جس میں
اسحاق آباد ،غریب آباد ،شریف آباد ،النصیر ،الاعظم اپسرا اور الکرم
اسکوائرز کے علاوہ ایف سی ایریا کا نصف حصہ ہے بقیہ ایف سی ایریا کا نصف
بلاک نمبر 3,4کمرشیل ایریا ہے جو یوسی 8ہے ۔لیاقت آباد کی ان آبادیوں کے
ساتھ فیڈرل بی ایریا کے بلاک 1سے 15تک کا علاقہ شامل ہے جو واٹرپمپ تک ہے
آسان طریقے سے یوں سمجھ لیں کہ لیاقت آباد نیرنگ سنیما سے لے کر فیڈرل بی
ایریا کے واٹر پمپ تک دونوں طرف کی آبادیوں پر مشتمل یہ حلقہ 246ہے۔
اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس نشست کی اہمیت کیا ہے سب سے اہم بات ہے
کہ ایم کیو ایم جو اس وقت انڈر آپریشن ہے اس کا مرکز نائن زیرو اس حلقے میں
ہے اور گیارہ مارچ کے رینجرز کے چھاپے کے بعد یہ خبروں کا مرکز بناہوا ہے
ایم کیو ایم اپنے قیام کے بعد ہر وہ الیکشن جس میں اس نے حصہ لیا وہ مسلسل
فتح حاصل کرتی رہی ہے یہ 90%اردو بولنے والوں کا علاقہ ہے لیکن یہاں سے دو
مرتبہ ایم کیو ایم نے غیر مہاجر لوگوں کو کامیاب کرایا پھر انھیں مستعفی
کرا کے ضمنی انتخابات کرائے گئے نبیل گبول کے بارے میں بھی ایم کیو ایم کا
دعوی ہے کہ ان سے استعفا لیا گیا ہے ۔اس نشست کی ایک اہمیت یہ بھی کہ ایم
کیو ایم کی داغ بیل ڈالنے والے نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق اسی حلقہ انتخاب
سے ہے جس میں خود الطاف حسین بھی ہیں نائن زیرو ان ہی کا گھر ہے ان کے
علاوہ طارق عظیم،ڈاکٹر عمران فاروق،ایس ایم طارق جو اب اس دنیا میں نہیں
ہیں کے نام نمایا ں ہیں یہ الگ بات ہے کہ ایم کیو ایم قائم کرنے والوں کی
اکثریت اب اس دنیا میں نہیں ہے اور یہ بھی اہم بات کے تقریباَ تمام لوگ غیر
طبعی موت سے ہمکنار ہوئے۔ اب ان کے اہل خانہ یہاں رہتے ہیں اسی حلقہ انتخاب
میں دو بار قومی اسمبلی کا انتخاب جیتنے والے پروفیسر غفور ساری زندگی اسی
حلقے میں رہے جماعت اسلامی کے سابق ممبر صوبائی اسمبلی جناب اخلاق صاحب بھی
یہاں رہتے ہیں اس طرح تو نمایاں ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔11مارچ کے
چھاپے سے پہلے نبیل گبول کا استعفابھی شاید کسی منصوبہ بندی کا حصہ ہو کہ
اس مرتبہ کے الیکشن میں حکومت ،الیکشن کمیشن اور ہماری اسٹبلشمنٹ اس نکتے
پر متفق اور سنجیدہ نظر آرہی ہے کہ اس ضمنی انتخاب کو دھونس ،دھاندلی ، خوف
اور غنڈہ گردی سے محفوظ بنا کر صاف اور شفاف بنایاے جائے تاکہ ووٹرز کو
پولنگ اسٹیشن تک جانے میں کوئی خوف محسوس نہ ہو اور یہ ضمنی انتخاب آئندہ
کے عام انتخاب کے لیے ایک ٹرینڈ سیٹ کردے گا ۔یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ ایم
کیو ایم کے امید وار بھی ہر جگہ جارہے ہیں اور سارے کارکن دن رات محنت
کررہے ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک اصل مسئلہ صرف انتخاب جیتنا نہیں ہے بلکہ
پچھلے عام انتخاب میں ایک لاکھ اڑتیس ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہے تاکہ
پوری دنیا میں یہ بات ثابت کی جاسکے کہ ایم کیو ایم کا گراف پہلے سے بڑھ
گیا ہے ۔
اس انتخاب کی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ گئی ہے کہ عمران خان نے اسے چیلنج
کردیا کہ ہم یہاں سے انتخاب لڑیں گے اور یہ کہ جناح گراؤنڈ میں جلسہ بھی
کریں گے اس اعلان سے سیاسی فضاء میں ایک ہلچل سی مچ گئی لیکن جب وہ جناح
گراؤنڈ کے دورے پر آئے تو اس سے قبل ہی ایم کیو ایم اپنا لہجہ اور ٹون بہت
دھیما اور نرم کرچکی تھی ۔جب دس اپریل کو شریف آباد میں جماعت اسلامی کی
ریلی پر ایم کیو ایم نے حملہ کیا اور اس سے کئی کارکن زخمی ہوگئے اس کے بعد
سے میڈیا کو یہ اندازہ ہوا کہ ایم کیو ایم کے لیے اصل چیلنج یہاں پر جماعت
اسلامی ہے پھر بارہ اپریل کے جلسے میں سراج الحق صاحب کے خطاب کو تمام
چیلنز نے براہ راست نشر کیاجسے کروڑوں افراد نے گھر بیٹھے دیکھا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سیٹ کی میڈیا میں اہمیت عمران خان کے اعلان کی
وجہ سے ملی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ اگر
11مارچ کی کارروائی نہ ہوتی تو کیا پھر بھی تحریک انصاف یہاں سے انتخاب میں
حصہ لیتی ایم کیو ایم کے خوف کی وجہ سے جماعت اسلامی کے سوا کوئی جماعت اس
انتخاب میں حصہ نہ لیتی ۔ خوف کی فضاء کم کرنے میں رینجرز کا بہت بڑا ہاتھ
ہے اب جب سے الیکشن کمیشن نے رینجرز کی زیر نگرانی انتخاب کرانے کا اعلان
کیا ہے اس سے اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے کہ اب رینجرز نے انتخابی عمل کو
شفاف بنانے کے لیے بائیو مایٹرک سسٹم اور سی سی تی وی کیمروں کا مطالبہ کیا
ہے اس کے علاوہ سخت انتظامات کی بھی اطلاعات ہیں
|
|