سوچ کی تبدیلی ضروری ہے
(Mir Afsar Aman, Karachi)
پیر پنجال پہاڑاور کوہ سفید پہاڑ
کے رہنے والے لوگوں کی سوچ ایک جیسی ہے۔ وہ اس لیے کہ دونوں مسلمان ہیں۔ اﷲ
نے قرآن شریف میں قبیلوں کی جو پہچان بتائی ہے اس کے مطابق پیر پنجال کے
لوگ کشمیری ہیں اور کوہ سفید کے لو گ پٹھان ہیں۔ اگر ملکوں کے نام سے پکارے
جائیں تو کشمیری اورافغانی کہلاتے ہیں ۔پیر پنجال پہاڑ کے لوگ بھی سردیوں
کی تکلیف کے دوران بکر وال کی پہچان کے نام سے اپنی فیملیوں اور بھیڑ
بکریوں کے ساتھ نیچے میدانی علاقوں میں اُتر آتے ہیں اور سردی ختم ہوتے ہی
واپس پیر پنجال پہاڑ کے اپنے علاقوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح کوہ
سفید پہاڑ کے لوگ بھی سردیوں کی شدد کے دنوں میں پوئندے کی پہچان کے نام سے
اپنی فیملیوں اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ کوہ سفید سے اُتر کر میدانی علاقوں
میں آ جاتے ہیں اور سردی کی شدد کم ہونے پر واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے
ہیں۔پیر پنجا ل کے بکر وال لوگ مظفر آباد ، آزاد کشمیر اور اس کے ملحقہ
علاقوں میں اور کوہ سفید کے لوگ پشاور، کوہاٹ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں
صدیوں سے آتے رہے ہیں ۔ ان دونوں علاقوں کے لوگ معاشی ضرورتوں کے تحت
پاکستان میں بھی مستقل آباد ہوتے رہے ہیں۔ کشمیر کے بٹ، گجر اورڈار وغیرہ
اور افغانستان یوسف زئی،خاکوانی اور افغانی وغیرہ۔ایک مذہب اور ایک ہی ملت
ہونے کی وجہ سے یہ مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہے ہیں اور ان
کی سوچ بھی ایک جیسی ہے۔اسی لیے جب افغانستان میں روس نے قبضہ کیا تو خیبر
پختونخواہ کے لوگوں نے افغان بھائیوں کی جان و مال سے مدد کی تھی جس کی وجہ
سے دنیا کی سپر طاقت کو شکست ہوئی تھی سلطنت روس کے کئی ٹکڑے ہو گئے تھے جس
میں چھ اسلامی ریاستیں اور مشرقی یورپ کی کئی ریاستیں آزاد ہو گئی تھیں۔اُس
کے بعد افغانستان میں ایک اسلامی حکومت طالبان کے نام سے وجود میں آئی تھی۔
دنیا نے مانا تھا کی افغانستان میں امن قائم ہو گیا ہے۔ طالبان نے تمام
متحارب گروپوں سے اسلحہ واپس لے لیا تھا۔ پوسٹ کی کاشت ختم ہو گئی ہے۔ پورے
افغانستان میں امن و امان قائم ہو گیا تھا۔ مگرامریکا اور مغرب(صلیبیوں) کو
یہ اسلامی حکومت ہضم نہ ہوئی۔ انہوں نے اس حکومت کی کھل کے مخالفت کی اور
افغان جہاد کے دوران ہی اس ممکنہ طالبان حکومت کو ختم کرنے کی پلائنگ شروع
کر دی تھی۔ ہنری کیسنگر یہودی امریکی وزیر خارجہ اور دوسرے صلیبی دانشوروں
نے ان ہی دنوں میں مضمون لکھنے شروع کر دیے تھے کہ جن جہادیوں کی روس کی
دشمنی کی وجہ سے مدد کی جا رہی ہے اصل میں یہ روس اور امریکا دونوں کے دشمن
ہیں۔یہ سوچ پروان چڑھتی رہی اور اسی سوچ کے تحت ایک دن ۹؍۱۱ کا پلائنٹڈ
ڈرامہ رچا کر اور اُسی اُسامہ بن لادن، جس کی تعریفیں کی جاتی تھیں کا
بہانہ بنا کر افغانستان پر امریکا نے ۴۸؍ ملکوں کی نیٹو فوجوں کے ساتھ حملہ
کر دیا گیا۔ افغانستان پرحملہ کرنے سے قبل جب امریکی کانگریس میں اس جنگ پر
بحث مباحثہ ہوا ۔ تو کانگریس نے بش انتظامیہ کو خبردار کیا تھا کہ اُسے
معلوم ہونا چاہیے کہ افغانستان سے ملحقہ پاکستان کی پٹھان آبادی جو روسی
حملے کے وقت افغانوں کی مدد کے لیے چڑھ دوڑی تھی ۔ پہلے کی طرح افغانستان
کی مدد کو پھر چڑھ دوڑے گی۔ توبش انتظامیہ نے کہا تھاکہ اس کا ہم نے انتظام
کیا ہوا ہے۔ وہ انتظام کیا تھا کہ اس میں علاقے میں امریکا اورانڈیا نے قوم
پرستوں کے ذریعے جاسوسی کا نٹ ورک کافی پہلے سے قائم کیا ہوا تھا۔ پاکستان
بننے کے وقت سے ہی انڈیا نے روس سے مل کرافغانستان میں قوم پرستوں کو
پختونستان کے مسئلے میں الجھا رکھا تھا جو روس کی شکست اورطالبان کی اسلامی
حکومت نے دفنا دیا تھا اب پھر اُن پاکستان مخالفوں کواکٹھا کیا گیا۔ صوبہ
خیبر پختونخواہ میں انڈین نواز نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت بھی ا س ہی
سلسلے کی کڑی تھی۔ اسفند یار ولی قوم پرست نے امریکا کے ساتھ طالبان کے
خلاف معاہدہ کیا تھا جس کی سرگذشت اعظم خا ن ہوتی(مرحوم) فرید طوفان اور
بیگم نسیم ولی خان وغیرہ نے بعد میں اپنی اپنی پریس کانفرسوں میں بیان کی
تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے ایران کی مدد سے شمالی اتحاد سے طالبان کے
خلاف محاذ بنایا تھا۔ انڈیا کے جاسوسی کے نٹ ورک کا حوالہ(ر) جنرل شاہد
عزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کب تک‘‘ میں کیا ہے بقول (ر) جنرل شاہد عزیز
اس کی اطلاع ڈکٹیٹر مشرف کو دی گئی تھی مگر اُس نے اس پر کان نہیں دھرا تھا۔
صاحبو!دنیاجانتی ہے کہ جنگیں پہلے سے پلائنگ کے تحت شروع کی جاتی ہیں۔ یہی
پلائنگ تھی جو بش انتظامیہ نے اپنی کانگریس کو بتائی تھی۔ لیکن بقول ایک
پنجابی کے شاعر کے’’ ڈریے رب قادرکولوں جیڑا چڑیا توں باز مراندا ہے‘‘ یعنی
امریکا اور۴۸؍ ناٹو ملکوں کی فوجوں کے سامنے فاقہ مست افغانی بہ مثل باز کے
سامنے چڑیا کی ماند تھے۔ اور اﷲ نے اس کمزورچڑیا سے باز کو مروا دیا۔ اپنی
شکست کی خفت مٹانے کے لیے امریکا سو بہانے بنائے اﷲ نے اُسے شکست فاش دے دی
ہے۔ ناٹو کے جھنڈے کی جگہ افغانستان کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔اب امریکا نے
اپنی شکست کا بدلہ پاکستان سے لینے کی پلائنگ کی ہوئی ہے۔ سازش کے تحت
پاکستانی قوم پرستوں کے کچھ لوگوں کوپاکستانی فو ج کے خلاف کیا ہے ۔ جیسے
ایم کیو ایم کے الطاف حسین کابرطا نیہ کو خط کہ وہ آئی ایس آئی کو ختم کرنے
کے لیے برطانیہ کی مدد کرنے کو تیار ہے۔پاکستان کے کچھ نا پختہ ذہن لو گوں
جو پاکستانی فوج میں بھی شامل ہیں پاکستان کی فوج کے خلاف کر دیا ہے۔ جیسے
جرنل ہیڈ کواٹر پر حملہ کرنے والے ماسٹر ماینڈ ڈاکٹر رعثمان وغیرہ اورا ب
اخباری اطلاع کے مطابق’’ پاکستان نیوی کے کچھ لوگ جو عین وقت پر گرفتار کر
لیے گئے ہیں۔ڈاکیارڈ پر حملوں کی منصوبہ بندی القاعدہ کے عاصم نے کی تھی۔۶؍
ستمبر کو الذ والفقار فریگیٹ پر قبضے کی کوشش کرنے والے تمام حملہ آور پاک
بحریہ ہی کے افسران تھے۔پہلی بار تمام مجرم زندہ گرفتار کیے گئے۔اہم
معلومات کی بنیاد پر مزید گرفتاریاں کی گئیں۔ ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے
بچا لیا گیا۔حملہ کرنے والوں کا ہدف یمن میں القاعدہ سے جا کر ملنا تھا۔ پی
این ایس ذوالفقار پر قبضہ کرنے والے امریکی جہاز اور فریگیٹ اور دیگر
جہازوں کو نشانہ بناتے۔ اگر منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو بھارت اور امریکا
پاکستان پرچڑھ دوڑتے اور پاکستانی ایٹم بم اقوام متحدہ کے کنٹرول میں چلا
جاتا۔۱۷؍ کے قریب لوگ اس جرم میں پکڑے گئے ہیں یہ سب پاکستان کی پڑھی لکھی
مڈل کلاس کے لوگ ہیں۔ان کے والدین میں سندھ کے ایڈیشنل آئی جی، ڈپٹی اٹارنی
جنرل اور پاک فضائیہ کے گروپ کیپٹن جیسے افراد شامل ہیں‘‘ اِن سب لوگوں کی
سوچ بدلی گئی ۔ اِن کو اِن کے کیے کی سزا ضرور ملنا چاہے اور یہ سزا عبرت
ناک ہو تاکہ آیندہ کو ئی بھی پاک فوج کا ملازم ایسی غداری نہ کرے۔ مگر ساتھ
ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان پاک فوج کے لوگوں کی اپنے ملک کے خلاف
غداری کرنے کی سوچ کیسے پیدا ہوئی۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں جو تجزیہ نگاروں
کے مطابق جب ڈکٹیٹر مشرف نے ایک کال پر پاکستان کی بحری، بری اور فضائی
حدود امریکا کے حوالے کر دی اور لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ امریکا اور۴۸؍ ناٹو
فوجوں نے مسلمان پڑوسی ملک ا فغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور
طالبان کی قانونی حکومت کو ختم کر دیا تھا۔اس پر افغان طالبان نے پاکستان
کو بھی امریکا کی طرح اپنا دشمن قرار دے دیا تھا۔ اور ہمارے ملک کے کچھ لوگ
جو ان کے حمایتی ہیں ان لوگوں کی برین واشنگ کی گئی جس کی وجہ یہ اور اس
جیسے حملے ہو ئے ہیں۔ ورنہ روس کے حملے کے وقت تو ان جیسے لوگ روس کے خلاف
جنگ میں شریک تھے۔ متعلقہ حلقوں کو سوچ بچار کر کے اپنی پالیسیاں ایسے
ترتیب دینی چاہیے کہ ان جیسے باغی لوگوں کی سوچ بدلے۔ کیونکہ سوچ کی تبدیلی
ضروری ہے۔ جو پاکستان کے اندر رہتا ہے اس کو پاکستان کاوفادار ہونا چاہیے۔
کم ذہن اور کم سمجھ مذہبی عناصر سے دور رہنا چاہیے جو غلط مشورے دیتے ہیں۔
سب پاکستانیوں کے لیے پاکستان کی وفاداری اول ہے ۔ اﷲ پاکستان کا حامی و
ناصر ہو آمین۔ |
|