پاکستان سعودی عرب کی مدد کیوں کرے؟

 تحریر:(ابومحمدالمدنی)

گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان بین الاقوامی شہ سرخیوں کی زینت بناہواہے،بالخصوص عرب ملکوں میں تو پاکستان اور پاکستانی ہی زیربحث ہیں۔یمن کے مسئلے پر پاکستان نے فوج نہ بھیجنے کی قرارداد منظور کرکے دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے۔اگر اس فیصلے پر پاکستان برقرار رہتاہے،تواس سے بہت سے فوائد حاصل ہوں گے،جو یقینا پاکستان اور خود عرب ممالک کے لیے باعث راحت ہوں گے،اگرچہ وقتی طور پرکچھ پریشانیاں بھی ہوں گی۔

مثلاًسب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا،کہ پاکستان اس خارجی جنگ میں عدم شمولیت کی وجہ سے داخلی وخارجی دوستوں کی ناراضگی سے محفوظ ہوجائے گا۔چنانچہ ایران،روس کے علاوہ اندرونی شیعہ برادری کےممکنہ پروپیگنڈوں سے پاکستان محفوظ رہے گا۔دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان دنیا بھر میں موجود اخوان المسلمین کے کارکن یا ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کے غیض وغضب کا شکار نہیں ہوگا۔کیوں کہ صدر مرسی کی جائز حکومت کا تختہ الٹنے میں عرب ملکوں میں یہی سعودی عرب پیش پیش تھا،جس نے ڈکٹیٹر سیسی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیےاربوں ریا ل دیے،جس کی وجہ سے اس ظالم نے ہزاروں معصوم مسلمانوں کا خون بہایاتھااورسعودی عرب کے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے ہزاروں سعودی علماء کو پابند سلاسل کردیاگیا تھا۔میں توکہتا ہوں کہ یہ حوثی باغی اللہ کی طرف سے ان پر ایک عذاب کی صورت مسلط کیے گئے ہیں،جیسے تاتاری مسلمانوں کی غفلت اور حکمرانوں کی بے اعتدالی اور ظلم کی وجہ سے بغداد پر مسلط کیے گئے تھے۔حقیت یہی ہے کہ مظلوم کی آہ اللہ کے عرش کو ہلادیتی ہے،تو ظالموں کے معاون بننے والے آج یہ خلیجی ممالک انہیں مظلوموں کی آہوں کا شکار بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان کا اس جنگ میں شمولیت نہ کرنے سے تیسرا فائدہ یہ ہوگا،کہ ان خلیجی ممالک کو اپنی سابقہ غلطیوں پر ندامت اور محاسبے کا شاید موقع مل جائے۔تیل کے کنویں نکلنے کے بعدسے یہ ممالک عیش وعشرت میں اس قدر منہمک ہوگئےکہ دفاعی طاقت،علمی ترقی،عدل وانصا ف اورمساوات تک کو بھول گئے۔یہی وجہ ہےکہ گزشتہ چارعشروں سے خلیجی عوام دفاع پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی قابل ذکر فوج تیارکرسکی ہے،نہ اتنی وافر دولت ہونے کے باوجودکوئی دفاعی یا علمی ایجاد کرسکی ہے۔ہونا تو یہ چاہییے تھا،کہ جس قدر دولت ان کے پاس ہے اس سے یہ لوگ جدید طرز کی یونیورسٹیاں،لیبارٹریاں بناتے تاکہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل کا برمحل استعمال ہوتا،اورعالم اسلام عالم کفر کے شانہ بشانہ کھڑا ہوکر نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ پوری انسانیت کی خدمت کرسکتا،لیکن افسوس کہ یہ لوگ اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کی ناقدری کی،اور بس اونچے اونچے محلات،نت نئی گاڑیوں،عیش وعشرت اورمفادات کی خاطر اپنے مخالفین کو کچلنے اور معصوم مسلمانوں کے خون بہانے کے لیے اللہ کے دیے ہوئے اس مال کو استعمال کرتے رہے۔عربوں کے ان تعیشات میں منہمک ہونے کا سب سے بڑا فائدہ عالم کفر کو ہوا،جو ان کی حفاظت کے نام پر انہی سے وصول کیا ہوا پیسہ نہتے مسلمانوں کے خون بہانے پر صرف کرتارہا۔دنیا کی حفاظت کا ٹھیکدار امریکہ انہی ملکوں کے تیل سے دولت کماکر عراق،افغانستان،شام،لیبیا وغیرہ اسلامی ممالک میں مسلمانوں کاخون بہاتاہے۔انہی ملکوں سے نکلے ہوئے تیل کا سرمایہ غاصب یہودی اسرائیل کی وسعت اور معصوم فلسطینیوں کے چیتھڑے اڑانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ان عربوں کے بے حمیتی،مفاد پرستی اور منافقت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایاجاسکتاہے،کہ فلسطین باوجود عربی ملک ہونے کے ان عربوں میں نہیں رہ سکتا۔مصر سے لے کر،کویت تک ان عربوں نے فلسطینوں کو پناہ دینے پر پابندی لگارکھی ہے۔فلسطین کے علاقے رفاح سے ملنے والےواحد زمینی راستے پر آج بھی حسنی مبارک کی طرح موجودہ مصری ڈکٹیٹر سیسی نے پابندی لگارکھی ہے۔گزشتہ سال غزہ پر بم برسا کر قیامت برپاکردی گئی،یہ مظلوم لوگ جان بچانے کے لیے اس سرحد سے نکلنے کو ترستے رہے لیکن اس ظالم نے ان مظلوموں کے حال پر بالکل رحم نہ کھایا۔کماتدین تدان والا عربی محاورہ آج ان ظالموں اور ان کے معاونین پر بالکل صادق آرہاہےکہ جیسا انہوں نے مظلوموں کے ساتھ کیا آج اللہ ویسے ہی ان کے ساتھ کررہاہے۔

یمن میں جاری جنگ کو مذاکرات ہی کے ذریعے سے روکا جاسکتاہے۔ورنہ جتنی چاہے طاقت لگالیں یہ عرب اتحاد حوثی باغیوں کو ختم نہیں کرسکتے۔اگرچہ بظاہر عارضی طور پر یہ فتنہ دب جائے گا،لیکن وقتا فوقتا ان کے لیے درد سربنتارہے گا۔اس لیے پاکستان کو سفارتی سطح پر اس جنگ کو رکوانے میں بھر پورکوشش کرنی چاہییے۔روس اور ترکی کے ساتھ مل کر ایران سے بات کرنی چاہییے کہ وہ اپنے پروردہ حوثیوں کو جنگ روکنے پر آمادہ کرے اور صدر ھادی کی جائز حکومت کو بحال کردے۔اسی طرح سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک کو اپنی سابقہ غلطیوں کا محاسبہ کرنا چاہییے اور اس جنگ کو انا کا مسئلہ نہیں بناناچاہییے،کیوں کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں،اس سے ملک تباہ ہوجاتے ہیں حاصل کچھ نہیں ہوتا،پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم اس کی واضح مثالیں ہیں کہ کس طرح ملک تباہ ہوئے۔اس کے ساتھ ساتھ ان خلیجی ممالک کو مستقبل کی منصوبہ بندی کے تحت،جدید طرز کی بین الاقوامی یونیورسٹیاں اور لیبارٹریز بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہییے،دنیا کے تمام ذہین دماغوں کی خدمات حاصل کرکے اپنے لیے اور عالم اسلام کے لیے ان تمام چیزوں میں خود کفیل ہونے کی کوشش کرنی چاہییے جن کے لیے آج پوراعالم اسلام عالم کفر بالخصوص امریکہ کا محتاج بناہواہے۔خلیجی ممالک کی گزشتہ غلطیوں کا ازالہ بس اسی صورت ممکن ہے کہ وہ اس طرح عالم اسلام کی خدمت کرکے مساوات اور عدل وانصاف کا بول بالا کرے،ورنہ یکے بعد دیگرے سوڈان،لیبیا،تونس،عراق،شام اوریمن کی طرح پورا عالم اسلام عالم کفر کی مکروہ چالوں کی وجہ سے خانہ جنگی کا شکارہوکر عالم کفرکی آماجگاہ بنتا جائے گا۔
Abu Muhammad Almadni
About the Author: Abu Muhammad Almadni Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.