طاقتور سوچ سب پر بھاری ہے
دھرنا ڈرامہ ختم ،،کراچی ڈرامہ شروع ہوگیا
تحریر: سید محبوب احمد چشتی
گو نواز گو ، گونواز گو سو دن سے زائد گزرنے کے بعد دھرنا ڈرامہ معصوم بچوں
کی لازوال قربانی کی وجہ سے ٹل گیا۔ نواز شریف امپائر کی انگلی فضا میں
کھڑی ہونے والی ہے استعفی لیکر جاؤنگا تبدیلی آئی نہیں تبدیلی آگئی ہے۔ ناچ
گانے سے مزین ڈرامے یہ سب کچھ کچھ عرصے پہلے ہماری ملکی سیاست میں قوم کو
بیوقوف بنانے کیلئے رچائے گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کیلئے پلیٹ میں رکھ کر
سیاسی بریانی پیش کی گئی کہ یہ تقسیم بھی کرو اور خود بھی کھاؤ۔ تحریک
انصاف جو کچھ عرصے پہلے بھی سیاسی نا بالغ اور آج بھی وہ سیاسی نابالغ ہونے
کا بھرپور مظاہرہ کررہی ہے۔ پاکستان سیاست میں یہ وطیرہ عام ہوچکا ہے کہ جو
سیاسی جماعت جمعہ جمعہ آٹھ دن کے مصداق سیاست میں آئی ہیں یا اپنا سیاسی قد
اونچا کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنے سیاسی قد سے اوپر جاکر کسی بھی جماعت کے
مقبول لیڈر کو ٹارگٹ بنا کر شہہ سرخیوں میں جگہ بنالیتی ہے۔ اپنی سیاسی
بصیرت جوکہ اس میں نہیں ہوتی صرف (سیاسی بصیرت کے دعویداری) ثابت کرنے
کیلئے جو انکو (طاقتور سوچ اسکرپٹ) دیتی ہے اسکو طوطے کی طرح صرف ٹیں ٹیں
کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل ملکی سیاست میں پاک صاف فرشتہ صفت ، دودھ سے
دھلے ہوئے ۔ میڈیا ٹرائل سے مبرا ، معصوم بچوں کی قربانی کی مرہون منت عزت
سے (دھرنا ڈرامہ) ختم کرنے کا موقعہ مل جانے کی وجہ سے آج تحریک انصاف ملکی
سیاست پر ہواؤں میں اڑرہی ہے ۔ تحریک انصاف کے سیاسی اکاؤنٹ میں کچھ خاص
چیزیں جمع ہونا شروع ہوگئی ہیں آج تحریک انصاف کو سیاست میں سب کچھ کہنے کی
اجازت ہے کیونکہ نئی نویلی سیاسی دلہن کے ناز نخرے اٹھائے جارہے ہیں طاقتور
سوچ نے اپنی سوچ اور اسکرپٹ تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان کے ذہن میں
بیٹھا دیاہے ۔ پاکستان میں مثبت سیاسی سوچ کے فقدان نے آج جمہوریت اور
آمریت کوایک ہی گراؤنڈ پر لاکھڑا کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں زور و شور سے
کسی سیاسی رہنماء کی آمد دوسرے لفظوں میں (لوٹا کریسی) جس کو کہتے ہیں کہ
شرمناک عمل نے سیاسی جماعتوں کا ناقابل تلافی نقصان پہنچا یاہے۔ سیاسی
جماعتوں میں اختلافات کو ایک فضول اورویژن سے عاری سطر (اختلافات جمہوریت
کا حسن) نے بہت نقصان پہنچایاہے۔ تحریک انصاف نے تمام سیاسی قائدین کا جس
طرح حشر خراب کیا ہے وہ ریکارڈ پر جمع ہونا جارہاہے۔ عمران خان ایک سماجی
رہنماء کے طور پر قوم کے سامنے آتے تو شاید مادام ٹریسا، عبدالستار ایدھی،
صارم برنی، ڈاکٹررتھ فاؤ کے ساتھ انکا نام آسمان کی بلندیوں پرہوتا۔ لیکن
ہمارے ملک کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کرنے والوں نے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب
کیا ۔ جس میں (انا خودسری) ان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ اور یہ اس وقت بھی تھا
جب ڈریسنگ روم کی جانب جارہے تھے تو ایک شہری کو آٹو گراف مانگنے پر بلا دے
مارا تھا ۔عدم برداشت سے عاری عمران خان نے اس وقت بھی یہ عادت نہیں بدلی
جب انہوں نے شوکت خانم میموریل اسپتال ک زمین کیلئے نواز شریف سے بھیگ
مانگی۔ اپنے مقاصد کیلئے ملک کے نامور ہیروز ، سنگرز کو استعمال کیا جو آج
بھی جاری ہے ۔ ایک اچھی بات ضرور ہوئی جس سے قوم کو آگاہی حاصل ہوئی کہ
پہلے یہ صرف محدود سطح پر ہی بات کی جاتی تھی کہ فلاں جماعت اسٹیبلشمنٹ کی
پیداوار ہے لیکن تحریک انصاف کی وجہ سے آج یہ بات پوری قوم کو اچھی طرح
سمجھ میں آگئی کہ پہلے صرف چوری چھپے یہ کام ہوتا اب یہ کام بغیر کسی حجت
اور بغیر کسی شرم کے ہوتاہے ۔ کھلے عام ہزاروں نفوس پر مشتمل نام نہاد
دھرنے پر اب یہ بات کہنے میں کسی اخلاقی قدروں کا خیال نہیں رکھا جاتاہے ۔
اور یہ کہہ دیا جاتاہے کہ (امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے ) اب یہ اعلان
کرنے والے تحریک انصاف کے جذباتی (لیڈر) عمران خان کو کون سمجھا ئے کہ یہ
بات کرکے انہوں نے اپنے اوپر مہر ثبت کروالی ہے کہ وہ بھی (طاقتور اسکرپٹ )کے
منشور پر عمل کرنے کی راہ پر چل پڑے ہیں ۔ آسان لفظوں میں یہ کہا جائے کہ
اب ان کے مہرے سیاسی بساط پر ان کی سوچ کے مطابق نہیں چل سکتے ۔ اس کا سب
سے پہلا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب تحریک انصاف میں جان ڈالنے کیلئے
برسوں پرانی روایت ( لوٹا کریسی) کو آزمایا گیا۔ اخلاقی شرم و حیا و قدریں
دم توڑ تی نظر آگئیں جب برسوں پرانے جاگیر دار ، وڈیرے ،موروثی سیاست کے
روح رواں ، غیر شرمندہ عناصر، مختلف وقتوں میں اپنے بے شمار قائد ، لیڈرز ،
تبدیل کرنے والے ذاتی مفاد یا کچھ اور ۔۔۔؟ کی ہدایت پر تحریک انصاف میں
شامل ہوگئے ۔ ان میں تو کچھ ایسے بھی رہنماء تھے ۔ جو اپنے آپ کو نظریاتی ،
اور اپنے سابقہ لیڈرز کی شان میں آسمان زمین ایک کردیتے تھے۔ جب ایسے مفاد
پرستوں کا ٹولہ حادثاتی طو ر پر اپنے ذاتی سیاسی مفادات کی خاطر عمران خان
جیسے غیر سیاسی اور وقت کی بساط پر استعمال ہونے والے شخص کواپنا ( قائد)
مان لیں تو سیاست کی پوری بساط پر داغ لگ جاتے ہیں ۔ اور اخلاقی قدریں یہ
کہتی نظر آتی ہیں کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ اور لگ جائیں ہم تو کرپشن کی
دولت سے صاف کرلیں گے ۔
تحریک انصاف میں شامل اہم مرکزی رہنماؤں کی لمبی فہرست کی بات کی جائے اس
میں نظریاتی بھٹو شہید کے چاہنے والے بھی ہے ۔ ن لیگ نواز شریف کے بھی ہیں
۔ ق لیگ کے بھی ہیں ۔ غرض ہرجماعت سے کچھ جاگیر دار ، کچھ وڈیرے ، کچھ
مخدوم تو کچھ لغاری ، کچھ ترین ، کچھ متوقع سردار ہم کو لوٹا کریسی کی مکمل
وارئٹی یہاں ملے گی۔ یہاں میں ایک جماعت کا ضرور ذکر کرنا چاہوں گا کہ جس
میں لوٹا کریسی طویل عرصے سے دیکھنے میں نہیں آئی وہ جماعت متحدہ قومی
موومنٹ ہے ۔ خیر اس حوالے سے پھر کبھی بات ہوگی ۔
جہاں تک NA246الیکشن کی بات ہے تو یہاں بھی تحریک انصاف نے اپنے سیاسی قد
سے بہت اوپر آکر بات کی ہے۔ اور ہمارے اس خیال کو تقویت دی ہے ۔ کہ پاکستان
میں عوامی نمائندگی کے بجائے ۔اور ان کے دل جیتنے کے بجائے آپ صرف طاقت ور
سوچ کے اسکرپٹ پر طوطے کی طرح رٹ لیں۔ اور کود پڑیں سیاست کے میدان میں
NA246الیکشن میں کراچی کی عوام سے یہ کہنے والے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے
یہ دعویٰ تو کردیا کہ کراچی ہمارا ہے ۔ لیکن الیکشن میں کراچی سے باہر کے
پرائیڈئزنگ آفیسر تعینات کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔ یہاں سے تحریک انصاف
کا کراچی کے عوام سے محبت کا ڈھونگ سامنے آگیاہے ۔
|