انگریزی کی ایک ضرب المثل کا
ترجمہ اردو میں یوں کیا جاتا ہے کہ خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہے۔ مجھے تو
یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ خالی دماغ سے مراد کیاہے؟ خالی سر تو سنا ہے کہ
جہاں دماغ کی بجائے بھوسہ بھرا ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ یعنی ایسی حالت
میں کہ کسی کو کوئی بات بار بار سمجھانے کے باجودسمجھ ہی نہ آئے، جب کوئی
عقل کی بات نہ کرے، کسی دلیل کو نہ سمجھے، بس اپنی ہی کہے جائے تو اسکے
بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اسکی کھوپڑی میں نرا بھوسہ بھرا ہوا ہے یا اسکا
سر عقل سے خالی ہے۔
اب دماغ خالی ہونا سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ کوئی بنا کسی سوچ کے، کسی
خیال کے بس خالی الذہن ہو کر بیٹھا ہے تو شاید ٹھیک ہو۔ لیکن ایسا دماغ
شیطان کا کارخانہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کیا ہمہ وقت یا زیادہ وقت خالی رہنے سے
شیطان وہاں آ کر عبادت شروع کر دیتا ہے؟ یا انسان ایسے کاموں میں ملوث ہو
جاتا ہے جو شیطان کو پسند ہیں یعنی جن کے کرنے پر خدا کی ناراضگی ہو سکتی
ہے اور شیطان کو خوشی۔ بظاہر تو یہ معنیٰ ہی نظر آتا ہے۔اس لحاظ سے جہاں تک
میرا ذہن کام کرتا ہے یہ ضرب المثل اس شخص کے لیے موزوں ہے جسکی پرورش منفی
ماحول میں ہوئی ہو یا اسکو گھر سے تو مثبت رجحان ملتا ہو لیکن گھر سے باہر
اسکی اٹھک بیٹھک منفی سوچ کے حامی لوگو ں میں ہو۔گھر میں اسکو اچھی باتیں
سکھائی تو گئی ہوں لیکن ان پر عمل درآمد کا عملی طریقے سے نہ بتایا گیا ہو۔
ایسا شخص آسانی سے دوسروں کے بہکاوے میں آ سکتا ہے۔ چاہے بہکانے والا جن
شیطان ہو یا انسان کے بھیس میں چھپا شیطان۔
خالی دماغ والا انسان بہت خطرناک حد تک ذہن ہوسکتا ہے۔ایسے ایسے منصوبے
بناتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا اس دنیا پر اپنی نبی پاک ﷺکے صدقے خاص نظر کرم نہ
ہوتو اس شخص کے بنائے ہوئے منصوبے ، اسکی سازشیں دنیا کا نظام ہی تہہ و
بالا کر دیں۔ اسکی ایک چھوٹی سی مثال 11 ستمبر 2001 کو ہونے والا دہشتگردی
کا واقعہ ہی لے لیں۔ اس پورے منصوبے کا خالق یا کم از کم آئیڈیا دینے والا
صرف ایک شخص تھا جو اس وقت جائے حادثہ سے ہزاروں میل دور بیٹھا تھا۔لیکن اس
کی آنکھوں میں ایک مسلمان ملک کی مومن حکومت کھٹکتی تھی۔ذرا شیطان کے
کارخانے میں بننے والے اس منصوبے کے نتائج پر غور کریں جو آج سب کے سامنے
ہیں۔
اصل میں انگریز اور پھر غیر مسلمو ں نے ہی اس ضرب المثل کو شیطان سے جوڑا
ہے۔ کیونکہ غیر مسلم کبھی بھی کم از کم مسلمانوں کے حق میں مثبت سوچ رکھ ہی
نہیں سکتے۔اسی لیے تو انکا خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہے۔لیکن کچھ لوگ
ایسے بھی تو ہوتے ہیں جیسا کہ وہ تھا۔ وہ بھی تو ایک انگریز ہی تھا۔ جو ایک
دن بنا کسی سوچ، کسی خیال کے بیٹھا ہوا تھا۔ پانی کی ابلتی ہوئی کیتلی یا
دیگچی پر نظر پڑی۔ بھاپ کو نکلتے ہوئے دیکھا۔ معلوم نہیں کیا ذہن میں آیا ،
اس برتن کے اوپر دو تین وزنی پتھر رکھ ڈالے کہ بھاپ کو نکلنے سے روک سکے۔
لیکن بھاپ اپنے دباؤ پر وقفے وقفے سے ان پتھروں کو بہت معمولی ہی سہی ،
اچھال کر باہر نکلتی رہی۔ وہ دماغ بھی اس وقت خالی تھا۔ لیکن شیطان کا
کارخانہ نہیں تھا۔بس یہ بھاپ ہی تو دباؤ کے زور پر نکلتے دیکھی تھی۔خیال
آیا اور جڑ پکڑتا گیا اور نتیجہ جڑواں میناروں کی تباہی نہیں تھا۔ بلکہ
ذرائع آمدورفت میں ایک بہترین ایجاد ریل گاڑی کا انجن تھا۔جس کا مؤجد جارج
سٹیفن سن تھا۔
خالی ذہن رکھنے والے تخلیق کار ہوتے ہیں۔ لیکن انکی تخلیق کیا ہوتی ہے اسکا
دارومدار ان کے ماحول پر ہوتا ہے۔ اس خالی دماغ میں جو تخلیق کا آئیڈیا آئے
گا اوہ اسکی تربیت پر منحصر ہو گا۔ اگر تو وہ ایک بزنس مین ہے تو اپنے بزنس
کو پھیلانے کے اور دن بد ن ترقی دینے کے بارے میں سوچے گا۔ اور اگر
ایماندار بھی ہے تو یہ بھی ذہن میں رکھے گا کہ عوام الناس کو بھی فائدہ
حاصل ہو اور اسکو بھی نقصان نہ ہو۔اگر کوئی سائنسدان ہے تو بھی دو ہی کام
ہوں گے۔ یا تو انسانیت کی فلاح کے لیے کچھ ایجاد کا سوچے گا یا پھر اسی
انسانیت کی تباہی کے لیے ایٹم بم کی ایجاد کا۔
اکثر اوقات اس طرح ہوتا ہے کہ کوئی بیٹھا ہوتا ہے اور دور پار خلا میں اسکی
نظریں ساکت ہوتی ہیں۔ کوئی اور اسے دیکھتا ہے تو یہی اسکے ذہن میں آتا ہے
کہ بہت گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن ہوتا اسکے برعکس ہے۔ گہری سوچ تو
دور کی بات، کوئی سوچ ہی نہیں ہوتی۔ بس کبھی کبھی بغیر کچھ سوچے ہی انسان
دور چلا جاتا ہے۔ کوئی اس کے قریب آکر بیٹھ جائے، کوئی اسکو آواز دے اسکو
پتہ نہیں چلتا۔ لیکن یہ خالی الذہن ہونا بھی ایک قسم کا فائدہ ہی دیتا ہے
کہ انسان کچھ دیر ہی سہی اپنی پریشانیوں سے جزوقتی نجات پا لیتا ہے۔ ایسی
حالت تو اکثر انجانے میں ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک ماہر نفسیات نے ہی کہا
ہے کہ کبھی کبھی انسان کو خود بھی خالی ذہن رکھناچاہئے۔ آپکو کسی قسم کی
بھی پریشانی ہے۔ کوئی مسلہ ہے جسکا حل سمجھ میں نہیں آتا۔یا پھر آپ بہت
تھکے ہوئے ہیں۔ زیادہ نہیں صرف دس منٹ کوشش کر کے دیکھیں۔ اپنے دماغ کو ہر
قسم کے خیالات سے صاف رکھیں۔ کچھ بھی نہ سوچیں۔ یہاں تک کہ ہوا کا گزر بھی
نہ ہو۔ جب اپنے ماحول میں واپس آئیں گے تو دماغ تر و تازہ ہو چکا ہو گا۔
تھوڑا سا سوچنے پر آپ کو اپنے مسٔلے کا حل مل جائے گا۔ یا کم ازکم اسکے حل
کی راہ سوجھائی دے جائے گی۔آپ کی ذہنی تھکاوٹ دور ہو جائے گی۔جسمانی تھکاوٹ
دور کرنے کے لیے نمک ملے نیم گرم سے نہانا ایک بہترین نسخہ ہے۔
اﷲ سب کوہر قسم کی پریشانیوں اور تکالیف سے نجات عطا فرمائے۔ اور ہمیں اپنی
صلاحیتیں مثبت طریقے سے استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |