246 NAکے انتخابات اور ایم کیو ایم کی پریشانی
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
قومی اسمبلی حلقہ 246کے الیکشن
کے حوالے سے ایم کیو ایم کو کوئی ایک پریشانی ہو تو بات بنائی جاسکتی تھی
یہاں تو الجھنوں اور پریشانیوں کا ایک سلسلہ ہے جس نے سب کی راتوں کی
نیندیں ہرام کی ہوئیں ہیں راتوں کو تقریر کے دوران رونا دھونا ،روٹھ جانا ،فون
بند کر دینا پھر دوبارہ واپس آجانا یہ سب دراصل ضمنی انتخاب کی مصیبتیں ہیں
،جماعت اسلامی کے راشد نسیم صاحب پر امید ہیں اس دفعہ دبے پاؤں ایک خاموش
انقلاب دستک دے رہا ہے جیسا کہ 1988کے بلدیاتی انتخاب میں جماعت اسلامی کے
خلاف آیا تھا کہ جماعت کے کیمپوں میں بے پناہ رش تھا ایم کیو ایم تو کئی
مقامات پر اپنے کیمپ بھی نہیں لگا سکی تھی کارکن بھی نئے اور انتخابی
باریکیوں سے نا آشنا ،نا تجربہ کار تھے ،اس لیے جماعت کے لوگ خوش تھے کہ وہ
یہ معرکہ جیت رہے ہیں لیکن رات کو جب انتخابی نتائج کا اعلان شروع ہوا تو
معلوم ہوا کہ ہمارے کیمپوں سے لوگ پرچیاں بنوا کر گئے اور ووٹ کاسٹ کسی اور
کو کیاپچھلے ستائیس برسوں سے کراچی کے عوام کو اتنے دکھ ملے ہیں کہ وہ ایک
دیانتدارانہ انتخاب کے انتظار میں ہیں کہ ہم بھی انتقام لے سکیں بالکل اسی
طرح کہ جیسے بے نظیر بھٹو صاحبہ کہا کرتی تھیں کہ آمریت کا بہترین انتقام
حقیقی جمہوریت کی بحالی ہے ۔اور یہ جو رونے دھونے والی بات آئی ہے تو اپنے
ایک ساتھی سے پوچھا کے قائد کی بات الگ ہے وہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل پر
بھی بہت روئے تھے لیکن یہ لوگ کیوں رو رہے تھے تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ
کسی کی محبت میں نہیں رورہے تھے بلکہ اپنے مفادات کو خطروں میں گھرا دیکھ
کر رو رہے تھے کہ نبیل گبول ایک انٹرویو میں کہہ رہے تھے اس تنظیم میں ایسے
لوگ بھی ہیں جنھیں کبھی سائیکل بھی نصیب نہیں تھی آج وہ پجارو استعمال کرتے
ہیں ۔بھٹو صاحب کے دور حکومت میں جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو کسی ایک موقع پر
مولانا مودودی نے کہا کہ جب یہ حکومت ختم ہو گی تو اسے کوئی رونے والا بھی
نہیں ملے گا ،بھٹو صاحب کی پھانسی کے کچھ دن بعدایک تصویر شائع ہوئی کہ کچھ
لوگ کہیں جمع ہیں اور رو رہے ہیں تو کسی نے مولانا کو وہ تصویر دکھا کر
پوچھا کہ آپ تو کہتے تھے کہ اس حکومت کو کوئی رونے والا نہیں ملے گا یہاں
تو دیکھیے لوگ رو رہے ہیں مولانا نے جواب دیا کہ یہ لوگ دراصل اپنے پیٹ کے
لیے رو رہے ہیں ۔
عمران اسماعیل راشد نسیم سے زیادہ پر امید ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک طویل
عرصے سے جماعت اسلامی ہتھوڑی سے دیوار گرانے کی کوشش کررہی تھی اب ہم
بلڈوزر لے کر آئے ہیں تو ہمیں کہا جارہا ہے کہ اپنا بلڈوزر ہمیں دے کر آپ
واپس چلے جائیں یہ الگ بات ہے کے یہ اتنا بڑا بلڈوزر ہے کہ جو صرف بڑی
شاہراہوں پر گشت کررہا ہے آبادی کے اندر نہیں جا پا رہا ۔ عمران اسماعیل
صاحب کچھ ضرورت سے زیادہ مطمئن ہیں کہ وہ یہاں سے سیٹ جیت کر ہی جائیں گے ۔ایم
کیو ایم کی ایک اہم پریشانی جو خود ان کی اپنی پیدا کردہ ہے کہ پچھلے تین
چار انتخابات سے یہ اتنی خوف کی فضا بنا دیتے کہ عام لوگ پولنگ اسٹیشن جانے
سے گھبراتے اور پھر جب ان کے کانوں میں یہ بات پڑتی کہ آپ کو آنے کی ضرورت
نہیں ہے آپ کا ووٹ پڑجائے گا تو لوگ اسی میں عافیت سمجھتے کہ گھر پر آرام
کیا جائے اب عوام کو اتنا سہل پسند بنادینے کے بعد ان کو گھروں سے نکالنا
بہت محنت طلب کام ہو گا اور پھر یہ کہ اپنی جیت کو عظیم الشان جیت بنانے
اور یہ دکھانے کے لیے کہ عوام کی محبت ایم کیو ایم کے ساتھ اور زیادہ بڑھ
گئی ہے لاکھ ڈیڑھ لاکھ اور دولاکھ تک تعداد میں اپنے ووٹوں کا حصول اب ان
کے لیے ایک عذاب بن گیا ہے ۔
ایک چینل پہ معروف صحافی امتیاز احمد نے کنور نوید سے ایک بہت خوبصورت سوال
کیا اس سوال پر حاضرین نے بھی تالیاں بجائیں یہ سوال جتنا اچھا تھا اتنا ہی
خراب اس کا جواب تھا انھوں نے پوچھا کہ آپ کے پاس ایسی کیا چیز ہے کہ ووٹرز
تو پولنگ اسٹیشن آتے نہیں اور آپ کے ڈبے سے ڈیرھ لاکھ ووٹ نکل آتے ہیں اس
پر کنور نوید نے جو جواب دیا وہ یہ کہ ہم نے نبیل گبول کو ایم این اے بنایا
وہ ایک دن بھی اپنے حلقے میں نہیں آئے اس لیے ہم نے ان سے استعفا لے لیا اس
کو کہتے ہیں مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ سوال کچھ جواب کچھ یہ تو ٹھیک ہے کہ یہ
سوال نبیل گبول کے اس اعترافی بیان کے پس منظر میں کیا گیا تھا کہ ہم سے
کہا گیا کہ آپ آرام سے گھر جا کر بیٹھیں آپ کو ایک تیس سے ایک چالیس کے
درمیان ووٹ مل جائیں گے چنانچہ اتنے مل گئے اب یہی فیگرایم کیو ایم کے لیے
آزمائش بن گئی جو آرام سے سونے بھی نہیں دیتی ۔
راشد نسیم صاحب اگر ہار گئے تو ان کا یا جماعت اسلامی کا کچھ نہیں جائے گا
عمران سماعیل ہار گئے تو ان کا بھی کوئی سیاسی نقصان نہیں ہو گا ۔اصل اسٹیک
ہولڈر تو ایم کیو ایم ہے جو اگر ہار گئی تو اس کا بہت بڑا سیاسی نقصان ہو
گا ۔اس دفعہ جو آثار نظر آرہے ہیں وہ یہ کہ شاید کچھ صاف ستھرے اور کسی حد
تک دیانتدارانہ انتخاب ہو جائے ویسے انتظامیہ کا کوئی بھروسہ نہیں ہمارا
تجربہ تو یہ رہا ہے کہ ہر دفعہ انتخاب سے پہلے انتظامیہ کے ساتھ جو میٹنگ
ہوتی ہے اس میں بڑے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ،باہر بھی سپاہی ہوں گے اندر
بھی پولنگ بوتھ پر سپاہی ہوں گے کوئی پرندہ پر نہیں مار سکے گا، 2013کے
انتخابات میں یہی وعدہ کیا گیا تھا کہ بہت زبردست انتظام ہو گا رینجرز ہوگی
لیکن انتخاب والے دن یہ سب تھے تو سہی لیکن صرف دکھاوے کے لیے۔ لیاقت آباد
کے تمام پولنگ اسٹیشنوں میں دن کے گیارہ بجے کے بعد صورتحال یہ تھی کہ مصلح
افراد بڑی آزادی اور بے فکری سے پولنگ اسٹیشن کے اندر گھوم رہے تھے ایک
دوسرے کو ریوالور اور پستولیں اچھال اچھال کر دے رہے تھے اس سے ایک خوف کی
فضاء دن سے ہی بن چکی تھی ۔جب رینجر زوالوں سے شکایت کی گئی تو انھوں نے
کہا کہ ہمیں اوپر سے کوئی آرڈر نہیں ہے کہ ان کو روکا جائے ۔اس طرح کی
کیفیت ہم ہر انتخاب کے موقع پر دیکھتے چلے آئیں ہیں ،لیکن چونکہ اس مرتبہ
رینجرز آپریشن کررہی ہے اور الیکشن کمیشن نے بھی وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ
کراچی میں ضمنی انتخاب کے لیے رینجرز کی خدمات حاصل کی جائیں اس لیے اس
دفعہ رینجر نے اپنا ایک انتخابی نقشہ بنایا ہے اس لیے انھوں نے بایو میٹرک
مشین اور سی سی ٹی وی کیمروں کا مطالبہ کیا تھا جو حکومت سندھ اور الیکشن
کمیشن نے منظور نہیں کیا لیکن کل ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں جو وزیر اعلیٰ
سندھ کی قیادت میں ہوا اس میں گورنر ڈاکٹر عشرت العباد بھی تھے ڈی جی
رینجرزپھر ان دونوں چیزوں کا مطالبہ کیا تو اس پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم
ایک دن میں سی سی ٹی وی کیمرے سپلائی کر سکتے ہیں بشرطیکہ الیکشن کمیشن ہم
سے کہے انھوں نے گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ڈال دی ،بہر حال امید یہی
کی جارہی ہے کہ رینجرز کی مانگ پوری کردی جائے گی ۔
اس کے علاوہ پولنگ والے دن انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے ضروری ہے کہ
جس اسکول میں پولنگ اسٹیشنز قائم ہوں اس کے گیٹ پر رش نہ ہوتا کہ ووٹرزکو
آنے جانے میں کوئی دقت نہ ہو بلکہ اس سے کچھ دور سے ہی رکاوٹیں کھڑی کر دی
جائیں تاکہ اسکول کا صدر دروازہ بالکل صاف اور کشادہ رہے اسی طرح پولنگ
بوتھ کے اندر ووٹرز کے علاوہ کوئی اور فرد نہ ہو مہر لگانے کی جگہ پر پردے
کا انتظام ایسا ہو کہ ووٹر کو کوئی خوف نہ ہو کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے
خواتین پولنگ ایجنٹس کا خصوصی خیال رکھا جائے ۔پچھلے 2013کے الیکشن بعض
خواتین پولنگ ایجنٹس کے ساتھ مخالف کارکنان کی طرف سے بدتمیزی کی شکایات
بھی آئیں تھیں ۔اگر اس طرح کے انتظامات ہو گئے تو یہ ایک ایسا تاریخی
انتخاب ہو گا جو آئندہ اس ملک میں ہونے والے انتخابات کا رخ متعین کردے گا۔ |
|