چینی صدر ژی جن پنگ 20اپریل کو
اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان
تسنیم اسلم نے اس دورے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ چینی صدر اپنے دو روزہ
دورے کے دوران اہم معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ گزشتہ نو سال میں یہ چینی صدر
کا پہلا دورہ ہوگا۔ اس سے قبل گزشتہ سال انہوں نے یہ دورہ کرنا تھا لیکن
اسلام آباد میں سیاسی افراتفری اور انتشار کے باعث وہ اسے عملی جامہ نہ
پہنا سکے۔پاکستان کو اس خراب سیاسی صورت حال کے باعث معاشی طور پر کافی
نقصان بھی اٹھانا پڑا۔تاہم دونوں ملکوں کی دوستی کو مزید مستحکم کرنے کی
خواہش شدید تر تھی اس لیے چینی صدر ہر حال میں پاکستان آنا چاہتے تھے تاکہ
دنیاکو باور کروایا جاسکے کہ دونوں دوست ممالک کے تعلقات میں وقت کی عارضی
رکاوٹیں حائل نہیں ہوسکتیں ۔چین کے صد رکے اس دورے سے نہ صرف دو طرفہ
تعلقات کو وسعت ملے گی بلکہ پاکستان کی معیشت بھی پھلے پھولے گی اور ہمارے
ترقیاتی منصوبوں کو نئی جہت ملے گی۔
چینی صدر ژی جن پنگ کا دورہ پاکستان اس لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ
اس دورے کے دوران توقع کی جارہی ہے کہ اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوں
گے۔اس دورے سے پاکستان اور چین کے مابین تعلقات کو فروغ ملے گا اور یہ مزید
گہرے ہوں گے۔ چینی صدر اپنے دورے کے دوران صدر پاکستان ،وزیراعظم، چیف آف
آرمی سٹاف اور چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقاتیں کریں گے۔ وہ
پاکستان کی بڑی اور اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی گفت وشنید کریں گے۔
وہ مواصلات، توانائی اور نشریات سمیت مختلف شعبوں میں کئی سمجھوتوں پر
دستخط کریں گے۔ وہ گو اور بندرگاہ پاک چین اقتصادی راہداری ،ون بیلٹ ون
روڈاور مختلف دوسرے منصوبوں کا افتتاح بھی کریں گے۔وہ قید یوں کے تبادلے کے
معاہدہ پر بھی دستخط کریں گے جس کی بنا پر دونوں ممالک باہمی بنیادوں پر
ایک دوسرے کے ساتھ مجرموں کا تبادلہ کرسکیں گے۔ قیدیوں کے تبادلے کے مجوزہ
معاہدے کا مسودہ تیار کرنے والے حکام کے مطابق انہوں نے معاہدے کا حتمی
مسودہ امور خارجہ کی وزارت کو بھیج دیا ہے۔اس وقت 425سے450تک پاکستانی شہری
چین کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جس کی وجہ سے یہ معاہدہ بہت اہمیت اختیار
کرگیاہے۔ ان میں سے اکثر قیدیوں پر منشیات، انسانوں کی سمگلنگ اور ویزہ کی
مدت ختم ہونے کے بعد قیام کے الزامات عائد ہیں۔امور خارجہ و داخلہ کی
وزارتوں کے اعلی حکام کے مطابق سات چینی شہری بھی پاکستانی جیلوں میں مختلف
جرائم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔اس معاہدہ سے دونوں ملکوں کے قیدیوں کو فائدہ
پہنچے گا۔
پاکستانی اور چینی حکام مختلف سمجھوتوں کے مسودات کو حتمی شکل دینے میں
مصروف ہیں جن پر چینی صدر کے دورہ کے دوران دستخط کیے جائیں گے۔ پاکستان
اپنے معزز مہمان کے دورے کے بارے میں بہت حساس ہے اوراس سلسلے میں سیکورٹی
کے سخت حفاظتی انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں ۔ اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے
کہ اس مرتبہ کوئی بھی پاک چین دوستی اور ترقی و اقتصادی راہداری کے منصوبے
کو شروع کرنے میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ چینی صدر اس راہداری کا ایک خاص مقام
سے باقاعدہ افتتاح کریں گے جس کا سکیورٹی خدشات کے باعث نام نہیں بتایا گیا
ہے۔ دنیا بھر کے تجزیہ نگار اور عالمی مبصرین اس دورے کو اس لحاظ سے بھی
اہمیت دے رہے ہیں کہ یہ امریکی صدر اوبامہ کے گزشتہ ماہ کے دورہ بھارت کے
تناظر میں کیا جا رہا ہے۔
چینی صدر دو رہ پاکستان کے دوران پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ توانائی ،دفاع
اور دوسرے شعبوں میں تعاون کے امکانات پر مذاکرات اور چینی سرمایہ کاروں کے
ذریعے شروع کئے جانے والے بجلی پیداکرنے کے منصوبوں کا بھی افتتاح کریں گے۔
گزشتہ سال چین نے پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں42بلین ڈالر کی سرمایہ
کاری کا وعدہ کیا تھا اور اس ضمن میں دونوں ملکوں نے توانائی سے
متعلقہ19سمجھوتوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔اس سرمایہ کاری
کا حجم 46بلین تک پہنچ جائے گا۔ نئے سمجھوتوں نے چین کی سرکاری کمپنیوں کی
طرف سے پاکستان میں کم ازکم چار نئے پاور سٹیشنوں کے قیام کی راہ ہموار
کردی ہے۔ یہ چینی کمپنیاں پاکستان میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے
کوئلہ کی کان کنی میں مدد دیں گی اور کوئلہ پاور پلانٹس کو سپلائی کریں گی۔
اس ضمن میں تمام سرمایہ کاری چین کرے گا ۔
پاکستان کئی دہائیوں سے چین کا انتہائی اہم اور تزویراتی اتحادی ہے ۔
پاکستان کا بڑا تجارتی شراکت دارہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی ٹیکنالوجی فراہم
کرنے والابڑا ملک ہے۔ پاکستان کی سرحد چین کے دور درازمغربی علاقے ژن ژیانگ
سے ملتی ہے جہاں گزشتہ سال شہریوں پر حملے اور تصادم کے کئی واقعات ہوئے
ہیں جن میں دوسو افراد مارے گئے۔چین ان حملوں کا مورد الزام ایک منظم دہشت
گردگروپ کوٹھہراتا ہے۔ بہرحال پاکستان کے عوام چینی صدر کے دورۂ کو یادگار
بنانے کے لیے مضطرب ہیں ۔ ان کے نزدیک چینی صدر کا دورہ نہ صرف دونوں ممالک
کے درمیان دوستی کی نئی منزلوں میں سنگ میل ثابت ہوگا بلکہ اقتصادی اور
معاشی ترقی کے بڑے منصوبوں کو واضح شکل اور سمت دینے جائے گی جو پاکستانی
معیشت کے لیے بہت ضروری ہیں ۔ان سمجھوتوں میں پاک چین اقتصادی راہداری
سپورٹ پر اجیکٹ میں34بلین ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری شامل ہے۔ اس کے
علاوہ توانائی ،انفراسٹرکچر،مینو فیکچرننگ ،ریلوے ،کمیونیکیشن، انفارمیشن
،میڈیا کلچروغیرہ کے سمجھوتے ومفاہمت کی یادداشتیں شامل ہیں، جو دستخطوں کے
لیے تیار ہیں۔
اقتصادی راہداری منصوبہ اس وقت سے بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے جب سے پاکستان
نے فروری 2013ء میں گوادر بندرگاہ کا کنٹرول چین کی سرکاری کمپنی چائنا
اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کے حوالے کیا ہے۔ یہ بندر گاہ چینی ماہرین و کارکنوں
نے تعمیر کی اور2007ء میں اس کا افتتاح کیا گیا۔ گوادر اس لحاظ سے ایک بڑا
منصوبہ ہے کہ اس نے وسطی ایشیائی ممالک جو سمندر سے محروم ہیں، ان کے لئے
اس نے بحری تجارت کے نئے راستے کھول دیے ہیں اور ان ملکوں کی بندرگاہ کی
ضرورتیں پوری ہونے لگی ہیں۔ پاکستان اور چین گو ادرمیں انٹرنیشنل ائر پورٹ
،چین اور اسلام آباد کو ملانے والی 1300کلومیٹر قراقرم ہائی وے کے ایک حصے
کی تعمیر اور چینی سرحد سے راولپنڈی تک فائبر اوپٹک کیبل بچھانے کے
سمجھوتوں پر بھی دستخط کرچکے ہیں ۔ 10400 میگاواٹ بجلی پیداکرنے کے
14منصوبوں پربھی دستخط کیے جائیں گے ۔ جن میں پانی، ہواور کوئلہ سے بجلی
پیدا کرنے کے منصوبے شامل ہیں جن پر 15.5بلین ڈالر کی مجموعی سرمایہ کاری
ہوگی۔علاوہ ازیں 6120میگاواٹ کے بجلی کے منصوبے شروع کرنے پر بھی غور ہورہا
ہے جن پر 18.3بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ ان منصوبوں میں جنوبی
ایشیا میں بہاولپور سولر پارک کا قیام اور 100میگاواٹ ونڈانرجی پر اجیکٹ ٹو
پہلے ہی زیر تعمیر ہیں۔بھاشاڈیم کی تعمیر کے لیے لاہور کراچی موٹروے اور
رائے کوٹ اسلا م آباد سیکشن کے منصوبے بہت ضروری ہیں جن پر صدر ژی جن پنگ
کے دورہ کے دوران دستخط کیے جائیں گے۔
ریلوے کی موجودہ لائن ایم ایل ون جس کی لمبائی 1736کلومیٹر ہے کی توسیع
وتعمیر اور حویلیاں ڈرائی پورٹ بھی چینی سرمایہ کاری کی مدد سے تعمیر کی
جائے گی جس پر3.7بلین ڈالر لاگت آئے گی۔ وزیراعظیم نوازشریف نے حال ہی میں
پاک چائنا موٹروے کا افتتاح کیا ہے ۔ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی
منصوبوں کوشروع کرنے اور ان کو اپ گریڈ کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس پس
منظر میں چینی صدر کادورہ پاکستان کو اقتصادی ترقی سے ہمکنار کرنے میں بہت
مددگار ثابت ہوگا اور پاکستان ترقی کی حقیقی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ |