دنیا میں تیزی سے ابھرتی عالمی
طاقت، اور پاکستان کے برادر دوست ملک چین کے صدرژی جن پنگ پاکستان کے دو
روزہ دورے پرآج 20 اپریل کو پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ پوری پاکستانی قوم
شاندار الفاظ میں ان کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ بلاشبہ آج کا دن پاکستان کی
ترقی کے لیے ایک شاندار آغاز ہے۔ آج کے دن محترم مہمان پارلیمنٹ کے مشترکہ
اجلاس سے خطاب کرینگے۔ چین کے صدر کے ہمراہ ان کی اہلیہ اور اور مختلف وفود
بھی پاکستان آ رہے ہیں۔ معزز چینی صدر کو نشان پاکستان بھی دیا جائے گا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چین کا 60رکنی وفد بھی شرکت کریگا۔ چاروں
صوبوں کے گورنر، وزرائے اعلیٰ، مسلح افواج کے سربراہ، سفارتکار اور دیگر
مہمان بھی شرکت کرینگے۔ اس موقع پر سیکورٹی کے سخت ترین اقدامات کیے گئے
ہیں، جبکہ پارلیمنٹ ہاؤس کی سکیورٹی ٹرپل ون بریگیڈ کے حوالے ہو گی۔ توقع
کی جارہی ہے کہ چینی صدر ژی جن پنگ کے دورے کے موقع پر دونوں ملکوں کے
درمیان اہم اقتصادی اور تجارتی معاہدوں پر دستخط کئے جائینگے۔حکومت پاکستان
کے ترجمان نے بتایاہے کہ چینی صدر کی موجودگی میں 60 معاہدات پر دستخط کے
ساتھ ہی پاک چین اقتصادی راہداری، انرجی کوریڈور اور میری ٹائم سلک روڈ کے
قیام کا آغاز ہوجائیگا۔ وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا 46 بلین ڈالر کی
سرمایہ کاری کے حامل سمجھوتوں میں کافی معاہدات ایسے ہیں جن کا فنانشنل
کلوز کر دیا گیا ہے۔ چینی صدر توانائی سیکٹر کے پانچ منصوبوں اور
انفراسٹرکچر کے متعدد منصوبوں کا سافٹ سنگ بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھیں گے،
اس سلسلے میں 21 اپریل کو تقریب ہو گی۔ چینی صدر کے پاکستان کے کامیاب دورے
کی صورت میں جہاں انرجی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘ وہیں ترقی و
خوشحالی کے نئے راستے بھی کھلیں گے۔ پاک چین اقتصادی راہداری میں پیش رفت
اور میری ٹائم سلک روڈ کے قیام کا آغاز پاکستان کی ترقی میں کمال کا سنگ
میل ثابت ہوگا اور انکی تکمیل سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ چین
پاکستان میں ریکارڈ سرمایہ کاری پر تیار ہے۔ کئی معاہدوں پر پیشرفت ہورہی
ہے، کئی نئے معاہدے بھی ہونگے۔نئے اورجاری منصوبوں کی پرامن تکمیل کے لیے
چین کو امن و امان کے حوالے سے یقین دلانا ہوگا۔ ملکی معاشی اور اقتصادی
ترقی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاست کے بڑے نام اپنا سرمایہ اور
سرمایہ کاری پاکستان لے کر آئیں۔
چینی صدر کا دورہ یقینا پاکستان کے لیے اقتصادی نکتہ نظر سے انتہائی اہمیت
کا حامل ہے جو پاکستان کیلئے تبھی ثمرآور ثابت ہوگا جب بغیر وزیر خارجہ کے
وزارت خارجہ کی آنکھیں کھلی ہونگی۔ چین کے ساتھ انرجی تعاون کے معاہدے ڈیڑھ
پونے دو سال سے ہو رہے ہیں، نندی پور پاور پراجیکٹ بھی اسی کا حصہ ہے مگر
لوڈشیڈنگ میں تاحال کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ بات معاہدوں پر ہی محدود نہیں، ان
پر تیز رفتاری سے عمل بھی ہونا چاہیے۔ اقتصادی راہداری میں سیاسی بنیاد پر
تبدیلیاں کرکے اسے متنازعہ بنالیا گیاہے۔ چین پھر بھی اسکی تکمیل پر تیار
ہے۔ مولانا فضل الرحمان راہداری میں تبدیلی کیلئے یا تبدیلی رکوانے کیلئے
چین چلے گئے تھے۔ اس سے چین میں پاکستان کے بارے میں یقینا منفی تاثر پیدا
ہوا ہوگا۔
دوسری جانب گذشتہ دنوں جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر کے امیر عبدالرشید
ترابی نے چین کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے موقع پر انہیں مقبوضہ کشمیر میں
بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور تازہ ترین حالات سے
آگاہ کیا۔ چین کے وزیر خارجہ نے کشمیر میں ہونیوالے انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین اقوام متحدہ کی قرارداوں کے
مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بھر پور حمایت جاری رکھے گا۔ کشمیر کے
حوالے سے چین کا بعض حوالوں سے پاکستان سے بھی زیادہ سخت موقف ہے۔ کشمیریوں
کو چین کیلئے سادہ کاغذ پر ویزہ دیا جاتا ہے، کشمیریوں کیلئے بھارتی ویزہ
چین قبول نہیں کرتا۔ جبکہ پاکستان جس کا یہ مسئلہ ہے، اسکے حکمران بھارت کے
ساتھ تعلقات استوار کرنے میں فخر سمجھتے ہیں۔ اسکے ساتھ تجارت ہوتی ہے اور
دوستی کی پینگیں بڑھانے کی بے پایاں خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بھارت کے
ساتھ پاکستان اور چین کے یکساں تنازعات ہیں۔ پاکستان اور چین یکجہت ہو کر
مسئلہ کشمیر سمیت تنازعات حل کرانا چاہیں تو حل ہونے کا امکان موجود ہے۔ اس
کیلئے پاکستان کو زیادہ کمٹمنٹ دکھانا ہو گی۔ بھارت کی علاقائی تھانیداری
کا خواب پاک چین دوستی کو مزید گہرا کرکے ہی توڑا جا سکتا ہے۔
دیر آید درست آید چینی صدر کا دورہ قابل تحسین ہے۔ چین کی طرف پاکستان کی
نہ صرف کڑے وقت میں بلکہ عام حالات میں بھی مدد کی جاتی رہی ہے مگر ہماری
ناقص خارجہ پالیسیوں اور جاری منصوبوں میں سست روی کی وجہ سے چین پاکستان
سے مایوس ہو سکتا ہے۔ چین کے بھاری حجم کے بھارت کے ساتھ دفاعی و تجارتی
تعاون کے معاہدے ہوئے۔ ایران بھی دفاعی حوالے سے بھارت کے قریب ہوا اور ہم
اپنی احمقانہ خارجہ پالیسیوں اور بے روح سفارتکاری کے باعث ترقی کی دوڑ میں
کافی پیچھے رہ چکے ہیں۔ پوری پاکستانی قوم کو گزشتہ ایک برس سے جناب چینی
صدر صاحب کا شدت سے انتظار تھا ، اب انتظار کی یہ کھڑیاں ختم ہوئیں۔امید ہے
کہ چینی صدر ژی جن پنگ کا یہ دورہ پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے نہایت
سود مند ثابت اور اس کے ثمرات جلد پاکستانی عوام تک پہنچنا شروع ہوں
گے۔بلاشبہ چینی صدر کی پاکستان آمد سے پاک چین دوستی اور گہری اور مضبوط
ہوگی، اور اس دورے کے بعد دونوں ملکوں عوام میں بھی محبت بڑھے گی۔ |