اقوامِ عالم کی تاریخ میں یوں تو کی ملکوں نے آپس میں
خوشگوار اور دوستانہ تعلقات قائم کئے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے
تعلقات کبھی ایک جیسے نہیں رہے ، تغیّر و تبدّل ان کا مقدّر رہا مگر پاک
چین دوستی نہ صرف یہ کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے قائم و دائم ہے بلکہ وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ اس میں مزید پختگی اور استحکا م آتا رہا ہے دونوں ممالک کے
عوام اور حکمرانوں نے جس طرح محبت و اخوّت کا مظاہرہ کیا ہے اور جو تاریخ
رقم کی ہے وہ پوری دنیا کے لئے اپنی مثال آپ ہے ۔بلا شک و شبہ پاک چین
تعلقات کئی عشروں سے ایک مثالی نو عیّت اختیار کر چکے ہیں ۔اس دوستی کو نہ
تو بد لتے ہو ئے موسم متائثر کر سکے اور نہ ہی داخلی، علاقائی اور عا لمی
سطح پر ہونے والی تبد یلیاں اس مثالی دوستی پر اثر انداز ہو سکی ہیں۔
پاکستان 1947میں معرضِ وجود میں آیا جبکہ چین 1949میں ماوزے تنگ کی قیادت
میں آزاد ہوا۔ دونوں ممالک نوزائیدہ ہی تھے کہ دونوں کی دوستی کا لازوال
سفر شروع ہوا۔پاکستان نے فوری طور پر چین کو تسلیم کر لیا دونوں ممالک نے
مئی 1951میں ایک دوسرے کے ساتھ سفیروں کے تبادلہ کیا، سرد جنگ کے دوران
تعلقات کو استوار رکھنا ایک دشوار مگر اہم ترین امر تھا۔پاکستان کی فجائی
کمپنی وہ واحد ائیر لائن تھی جسے پیکینگ تک رسائی حاصل تھی۔پاکستان ان
معاہدوں کا حصہ رہا ہے جو جو امریکہ اور مغربی ممالک نے اشترا کیت کے خلاف
قائم کئے تھے چین ان معاہدوں کے خلاف تھا مگر وہ پاکستان کی مجبو ریوں سے
واقف تھا ۔پاکستان کی دفاعی مجبوریوں کو مدِ نظر رکھتے ہو ئے چین نے ان
معاہدوں کے شامل ہونے پر اعتراض نہ کیا اور یوں دونوں ممالک کے تعلقات بغیر
تعطل کے پروان چڑھتے رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعلیٰ سطحی دوروں کی
ایک شاندار روایت رہی ہے۔1956میں پاکستان کے وزیر اعظم حسین سہر وردی چین
کے دورے پر تشریف لے گئے اسی سال چین کے آنجہانی چو این لائی پاکستان کے
دورے پر آئے۔ اور یوں باہمی اعلیٰ سطحی دوروں کا آغاز ہو گیا جو تا دمِ
تحریع جاری ہے۔1958 میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے حکومت کی بھاگ ڈور
سنبھالی تو اس کے دورِ حکومت میں ایک اہم کارنامہ یہ سر انجام دیا گیا کہ
چین کے جغرافیائی نقشوں میں بعض شمالی علاقہ جات ،جو پاکستان کے کنٹرول میں
تھے، چینی علاقے ظاہر کئے گئے تھے یہ 1962کی بات ہے اس وقت کی قیادت کی
ذہانت اور دور اندیشی کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے اقوامِ متحدہ کیایک
نہایت اہم ادارے سلامتی کو نسل کی مستقل نشست کے لئے چین کی پر زور حمایت
کی ۔جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان انتہائی قلیل عرصہ میں باہمی
تعلقات اس قدر وسیع اور مستحکم ہو گئے کہ چین نے تمام متنازعہ نقشے واپس لے
لئے بڑے اہم علاقوں پر پاکستان کے قبضے کو تسلیم کر لیا ،یوں بغیر کسی
تنازعہ کے، افہام و تفہیم کے ذریعے ہمیشہ کے لئے دونوں ممالک
کے سرحدوں کا تعین ہو گیا۔جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مارچ 1963میں
باقاعدہ ایک معا ہدہ طے پا گیا ،درحقیقت یہ معاہدہ دونوں ممالک کے تعلقات
کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔یہ اس معا ہدے کا ثمر تھا کہ وہ تمام علاقے جو چین
کے صوبہ سنکیا نگ سے ملحق و متصل تھے اور پاکستان کے کنٹرول میں تھے، وہ
پاکستان کے پاس رہ گئے اس کے علاوہ چین نے 1926کلو میٹر پر محیط وہ علاقہ
بھی پاکستان کو دے دیا جو عملا چین کے قبضے میں تھا ۔
1962میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔دونوں ملکوں کی
فوجیں آمنے سامنے آگیئں، جھڑپیں شروع ہوئیں اس وقت چین عالمی برادری سے کٹا
ہوا تھا لیکن پاکستان نے اس مو قعہ پر چین کا بھر پور ساتھ دیا جس کی وجہ
سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بلند ہوا ، اور پاک چین تعلقات مزید
بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہو ئی۔1965میں بھارت نے اعلانِ جنگ کئے بغیر
پاکستان پر حملہ کر دیا ۔ پاکستان کے بہادر افواج نے بھارتی فوج کو منہ توڑ
جواب دیا۔ پاکستان پر اس آڑے وقت میں چین نے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا
اور اپنی سچی دوستی کا حق نبھایا،1971 کی پاک بھارت جنگ میں ایک دفعہ پھر
پاکستان کا بھر پور ساتھ دے کر دوستی کا ثبوت دیا۔ذوالفقار علی بھٹو(مرحوم)
نے پاک چین دوستی کو مضبوط تر بنانے میں اہم کردار ادا کیا، آج بھی اگر چین
کے دارالحکومت بیجنگ میں پاکستان کے سفارت خانے میں داخل ہوں تو دائیں جانب
پاکستان کے مختلف حکمرانوں کی چینی قیادت سے براہِ راست ملاقاتوں کی تصاویر
نظر آتی ہیں۔یہ پاک چین دوستی کی ایک تصویری تاریخ بھی ہے جس میں زوالفقار
علی بھٹو نمایاں نظر آتے ہیں۔چین نے ایٹم بنانے میں دنیا کے تمام تر مخا
لفتوں کے باوجود پاکستان کی مدد کی ہے اس کے علاوہ ٹینک سازی، طیارہ سازی
اور میزائل سازی میں بھی پاکستان کا مدد کرتا چلا آرہا ہے توانائی اور دیگر
بہت سے منصوبوں میں جن میں سینڈک کا منصوبہ، گوادر ائیر پورٹ ریلوے انجنوں
کی فراہمی اور دیگر بے شمار منصوبہ جات شامل ہیں، پاکستان کو چین کی مدد
حاصل رہی ہے۔
اب کچھ عرصہ پہلے پشاور میں دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کو
جب گو لیوں کا نشانہ بنایا تو چین نے بڑھ کر ہمارے زخمی اور افسردہ بچوں کے
ساتھ جس پیار و محبت کا نمونہ پیش کیا ، بچوں کو چین بلا کر جس طرح ہمدردی
اور پیار کا تحفہ دیا ،وہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ چینی بھائی پاکستانی
قوم کے ساتھ بے لوث محبت رکھتے ہیں۔پاک چین دوستی کے اس سفر میں بعض
پاکستانی نا عاقبت
اندیشوں کی وجہ سے دراڑ بھی پڑے مگر چین نے کبھی ان کو دوستی کی بندھن میں
حائل رکاوٹ نہ سمجھی اور ہمیشہ دریا دلی کا ثبوت دیا۔
اب پاک چین دوستی ایک نئے افق پرروشنی کی مینار کی طرح جگ مگ جگ مگ کرتی
نظر آرہی ہے۔چین کے صدر کا پاکستان کا دورہ پاک چین دوستی کی تاریخ میں ایک
نئے باب کا اضافہ کرنے کے لئے بے چین ہے، پاک چین اکنامک کاریڈور کا معاہدہ
دستخط ہونے والا ہے جو پاکستان کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم سنگِ میل ثابت
ہو گا ۔45ارب کا یہ منصوبہ پاکستان کی تقدیر بدل کے رکھ دے گا۔
چین اپنے شہر کاشغرسے گوادر بندر گاہ تک ایک ایسا کاریڈور تعمیر کرے گا جس
میں مو ٹر وے، ریلوے لائن، فائر آپٹیکس اور تیل پائپ لائن ہوگا، جس کے ارد
گرد صنعتی بستیاں تعمیر کی جا ئینگی۔لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔
الغرض بین الاقوامی، سیاسی اور سفارتی حلقوں میں اب اس حقیقت کو کسی بحث
اور دلیل کے بغیر تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی محا ورتا
نہیں بلکہ حقیقتا کوہِ ہمالیہ سے زیادہ بلند اور سمندر سے زیادہ گہری
ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان قریبی و دوستانہ تعلقات باہمی احترام اور تعاون
کی بنیاد پر قائم ہیں ۔چین پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکالنے کے لئے
قابلِ تحسین عملی اقدامات کر رہا ہے۔پاک چین دوستی اس اعتبار سے بھی منفرد
ہے کہ کہ حکومتوں کی تبدیلی سے اس دوستی پر کبھی کو ئی منفی اثر نہیں
پڑا۔بلکہ اس کی بجائے ہر تبدیلی کے بعد اس کی جہت اور دوستی کے نئے پہلو
اجاگر ہو ئے۔چینی صدر کی پاکستان آمد پر اخبارِ ہذا اور پوری پاکستانی قوم
چینی صدر کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہو ئے یقین دلاتی ہے کہ بے
شک پاک چین دوستی کوہِ ہمالیہ سے زیادہ بلند ہے کیو نکہ دونوں ممالک کی طرف
سے اس دوستی کو اس مقام تک پہنچانے میں جس سچائی، اخلاص اور محبت کا مظاہرہ
کیا گیا ہے شاید پوری دنیا میں اس کی کو ئی مثال موجود نہ ہو۔ اﷲ پاک چین
دوستی کو ہمیشہ اسی طرح قائم و دائم رکھے (آمین) |