آپ کے ووٹ کا صحیح حق دار ، بے لوث خدمت گار ، نڈر اور بے
باک ، بے داغ ماضی کے مالک ۔ یہ وہ نعرے اور دعوے ہوتے ہیں جو ہم ہر الیکشن
میں نہ صرف سیاستدانوں کے دہن سے سنتے آرہے ہیں بلکہ یہی دعوے اور نعرے
اخبارات کی زینت بھی بنے رہتے ہیں ،پوسٹرز او راشتہارات بھی ان ہی دعوؤں
اور نعروں سے مزین ہوتے ہیں ، الیکشن قومی اسمبلی کا ہو یا صوبائی اسمبلی
کا یاہو بلدیاتی دنگل، ہر الیکشن میں سیاستدان عوام کے غم خوار اور ہمدرد
بن جاتے ہیں ،غم اور خوشی میں پیش پیش آنا ان کی زیست کا محور بن جاتا ہے ،
علیک سلیک بھی ایسی کہ دونوں ہاتھ اٹھاتے ہلاتے اورلہراتے تھکتے نہیں ۔ وہ
سیاستدان جوخود کھبی غریب کے ساتھ مدد کرنا تو درکنار ، سلام کرنا بھی
گوارہ نہیں کرتے ،وہ ان کی دہلیز پر پہنچ کر نہ دستک دیتے ہیں بلکہ ایک ووٹ
کی خاطر وہ قدم بوسی تو نہیں لیکن یار صادق بننے کا اظہار ضرورکرتے ہیں ،بے
چاری عوام بھی تذبذ ب کا شکار ہوجاتی ہے اور در پر آنے والے ہر سیاستدان
اور اہر امیدوار کو تسلی اور تشفی دیکرہی رخصت کرتاہے ، ایک تو صاحب ووٹ
کسی کی خفگی نہیں دیکھنا چاہتا اور دوسری وجہ یہ بھی کہ وہ اپنے مستقبل کو
بھی سیاسی دائر ے میں تابناک اور تابندہ دیکھنا چاہتا ہے۔ چونکہ ہمارے ملک
میں عام انتخابات کوہوئے ابھی کوئی دو سال کا عرصہ بہت چکا ہے ، مرکز اور
صوبوں میں مختلف الخیال جماعتوں کی حکومتیں براجمان ہیں ، الیکشن مہم کے
دوران ان تمام جماعتوں نے سٹیج پر چڑھ کر ببانگ دہن ایسے وعدے اور دعوے کئے
،کہ ان دعوؤں کا یہاں پر مختصر سا ذکر کرنا گوش گذار کرنے کی سعی ضروری
کرنا چاہوں گا،کوئی توانائی بحران ، مہنگائی اور بے روز گاری ختم کرنے کے
دعوے کرتے رہے تو کسی نے تبدیلی ، مساوات اور عدل وانصاف کے راگ الاپے ۔ ان
دعوؤں اور وعدوں میں کتنے ایفا ہوچکے ہیں ؟عوام کو کتناریلیف ملا ؟یہ تو اس
ملک کا ہر ذی شعورباسی بخوبی جانتا ہے ،لیکن ہماری عوام بھی کتنی بھو لی
بھالی اور حافظے کی کمزور ہے سیاستدان تو ’’دروغ گوراحافظہ نبا شد ‘‘کے
مصداق کبھی یہ عار ہی محسوس نہیں کرتے لیکن مجھے عوام کے حافظے پر بھی حیرت
ہوتی ہے کہ کتنی سر عت سے وہ اپنی محرومیوں اور ڈھائے جانے والے مظالم کو
درگزر کرتے ہیں جیسے انہوں نے انسانیت کاٹھیکہ ہی لیا ہوتا ہے ،کہیں پر
جلسہ ہورہا ہو یا جلوس نکالا جاتا ہو یا انتخابی مہم کیلئے میدان سبح جاتا
ہو تو یہی لوگ اپنا کام کاج ترک کرکے مدعی سست اور گوا ہ چست کا کر دار
اداکر نے لگتے ہیں ، بسااوقات تو بھائی بھائی سے اور پڑوسی پڑوسی سے سیاسی
پرچم اور سیاسی کھلاڑی کی مخالفت پرایک دوسرے کیساتھ گھتم گھتا ہوجاتے ہیں
پھر وہی سیاستدان جو کل تک کارکن کارکن کا وظیفہ کرکے سجادہ نشین بنے رہتے
ہیں کارکنوں کوکی معرفت سے بھی منکر ہوجاتے ہیں اور ہو کیوں نا ؟کیوں کر
مسند اقتدارپربراجمان ہونے سے تو وہ ایک الگ آفریدہ بن جاتے ہیں ۔
قارین کرام !
اس وقت ہمارے صوبہ خیبرپختونخواہ میں ایک بار پھر بلدیاتی الیکشن کے لیے
گہما گہمی کا سلسلہ بام عروج پر ہے ، پرانے برجوں کے ساتھ ساتھ نئے نویلے
افراد بھی نفوس قدسیہ بن کر سیاست کے میدان میں نکل آئے ہیں 30مئی کو ہونے
والے بلدیاتی انتخابات کے لئے سیاسی جماعتیں متحرک ہوچکی ہیں کل کے حریف آج
کے حلیف بنے بیٹھے ہیں اتحاد وں میں کھینچا تانی بھی خوب ہوئی اور ہوبھی
رہی ہے 17اپریل کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ تھم گیا ہے لیکن ابھی
کاغذات کی واپسی میں کافی وقت باقی ہے اس لئے سیاسی جماعتوں میں اب بھی
اتحاد کیلئے رابطے ہورہے ہیں سوات میں67یونین کونسلوں کے لئے خواتین ،
اقلیت ، مزدور اور یوتھ کی نشستوں کیلئے میدان انتہائی گرم ہے ، اسی طرح
تحصیل کونسلز میں بھی خوب گہماگہمی ہوتی دکھائی دے رہی ہے چونکہ ضلع کونسل
اور تحصیل کونسلزکے انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہونے ہیں اسلئے ٹکٹوں کی
تقسیم میں بھی خوب پنجہ آزمائی ہوتی رہی ہے ،جن کارکنوں کو ٹکٹ نہیں ملا
انہوں نے آزاد حیثیت سے کاغذات جمع کرادیئے ہیں ،اسی طرح ویلج اور نیبر
کونسلوں کیلئے غیر سیاسی بنیادوں پر انتخاب ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں
نے تگڑ ے تگڑے سیاسی پہلوان میدان میں اتار دیئے ہیں لیکن یہاں پر میں اس
انسب کو افشاں کرنا ناگزیز سمجھتا ہوں کہ 11مئی 2013کو جوعام انتخابات ہوئے
سوات کی حد تک اگر میں اس پر لب کشائی کروں تواس روز سنجیدہ حلقوں نے اپنے
رائے دہی کا استعمال نہیں کیا تھا اور جنون یعنی نوجوانوں نے لمبی قطاروں
میں کئی کئی گھنٹے صرف کرکے ووٹ کا استعمال کیا تب ہی تو تحریک انصاف جوکہ
نوجوانوں کی جماعت تصور اور گردانی جاتی ہے نے سوات میں اکثریت حاصل کی،ان
میں بعض نمائندے تو ایسے ہیں جن کا ابھی تک کسی کو دیدار تک نصیب نہیں ہوا
اور ان میں ہمارے ایک ایسے ایم این اے بھی تخت اسلام آباد پر براجمان ہوئے
جنہوں نے 35منٹ میں 3پرچے پاس اور ڈگری بھی حاصل کی ان میں وہ نمائندے بھی
شامل ہیں جو عوامی اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے
مقاصد میں مکمل طور پر شاد نہیں ہورہے لیکن اب جبکہ ایک نیا مرحلہ شرو ع
ہونے کو ہے اور ہر کوئی مسند اقتدار تک پہنچنے کیلئے جستجومیں مگن ہیں اپنی
محرومیاں اور انکے مسائل کو پس پشت ڈال کر ایک بار پھر گاڑیاں سجانے ،زندہ
آباد کی صدائیں بلند کرنے سمیت اپنے خرچ سے پوسٹرز تیار کرنے میں آگے آگے
ہیں ،لیکن انسب یہ ہے کہ جب 30مئی کو ضمیر کے فیصلے کا دن آئے تو انہیں
ضرور یہ سوجھنا چاہئے کہ ٹھپہ کس امیدوار کے نام اور کس سیاسی جماعت کے
نشان پر لگائے تاہم یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اب کہ بار بھی سنجیدہ حلقوں
نے گوشہ نشینی اختیار کی تو اس بار بھی جنون کا فیصلہ سمجھ بوجھ سے عاری
ہوسکتا ہے ، یہ بھی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ الیکشن ملتوی ہونے کے بھی
واضح امکانات ہیں لیکن اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا لیکن بہر حال
سیاسی اکھاڑے میں ہزاروں کھلاڑی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں اور سبزباغات
،خدمات کی امیدوں اور نویدوں کا موسم خوب جوبن پر ہے ،لیکن اس موسم کو بہار
میں تبدیل کریں یا پت جھڑ میں پروئے یا اب جمہور کے ہاتھ میں ہے جس کے لیے
انتخابی دنگل تک کا انتظار رہے گا - |