B.A سال اوُل اور یونیورسٹی میں
پہلی دفعہ جانا ہوا۔ یہ ہمارے پہلی کلاس تھی جب میں اور میرے کچھ دوست
polictical science کی کلاس میں داخل ہوئے۔ کلا س بہت ہی وسع تھی اور اسی
طرح وہاں طلباء کی بھی ایک کثر تعداد موجود تھی ۔ پہلے دن جب ہمیں
political science کے بارے میں ہمارے اُستاد نے بتایا تو ہمیں واقعی بہت
عجیب محسوس ہوا کے ہم سیاست کو کیا سمجھتے تھے اور سیاست ہے کیا چیز؟۔ پھر
آہستہ آہستہ علم سیاست کے بارے میں علم ہوتا رہا۔ علم سیاست کے مطالعہ
کیاتب ہمیں پتہ چلا کے سیاست ہے کیا ؟ اس کے ساتھ جب ہم نے اپنے ارد گرد کے
سیاست دانوں پر نظر ڈالے تو کوئی ایسا نظر نا آیا جو سیاست کا اہل ہو یا
بھر جس کو علم سیاست کا علم ہوں۔ ہمارے ملک کاحال ہی اﷲ ہی حافظ ہے۔
افلاطون کے ریاست کا مطالعہ کرے تو افلاطوں فلوسفر کو ملک کا حکمراں کہتا
ہے ۔ اس کے ساتھ افلاطون فلوسفر اُسکو کہتا ہے جس کو تما م شعباجات کا علم
ہوں ملک کے اُ س کو سیاست کے علم کے ساتھ ملک میں موجود تمام اداروں کا علم
ہوں جس کی وجہ سے وہ ملک کی حالات کو سمجھ کر حل کر سکے۔ اس کے برعکس جب ہم
اپنے وطنِ عزیز کو دیکھتے ہیں تو سب اُلٹ نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے
سیاست کے نام پر مذاق ہو رہا ہے۔ ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے میں کسے شخص کو
اُس کی اہلیت دیکھ کر نہیں رکھا جا تا۔ وزیر تعلم ایسا شخص ہوتو ہے جس کو
جس کو تعلیم کا علم ہی نہیں اور اس کے ساتھ وزراء کی تو ڈیگریا بھی جعلی
نکلی ۔ جس شخص نے ساری عمر کرکٹ کھلی ہو، وہ بھی سیاست کرنا شروع کر دے تو
اس ملک کے اندھے نگری کے لوگ اُن کے پھچے چلنے کو بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ایک
دوسرا مسئلہ جو اس ملک کی تنزلی کا سبب ہے۔ وہ اس ملک میں نسل و نسب کا ہے۔
اُس شخص کی اہلیت کو نہین دیکھا جا تا صرف یہ دیکھا جاتا ہے کے وہ اُس کے
قبیلہ سے ہے یہ نہیں ؟ اگر پٹھان ہیں سے پٹھان اُ س کے پھچے ،اگر وہ مہاجر
سے سب اُس کے بیچھے اس کے ساتھ اگر وہ سندھی تو سے سندھی اُس کے پیھچے
الغرض کے جس قوم قبیلہ کا شخص ہوگا وہ قوم قبیلہ بنا کچھ سمجھے اُس کی
تقلید کے لئے تیار۔بنا اس بات کو جانے کے وہ اس قابل بھی ہے یہ نپہیں ۔ ووٹ
بھی ایک امانت ہیں جس کے ارشاد ہے۔ـ ـــ’’ اﷲ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ
امانتیں (یعنی زمہ دارے کے مناسب) اہل امانت (یعنی امین لوگوں ) کے سُپرد
کرو‘‘۔ اس کے ساتھ اسلامی اصولوں کو دیکھا جائے تو ہمیں کئی چیزیں معلوم
ہوتی ہیں کہ ملک کا حکمراں کیسا ہو۔ مثال کے طور پر ۔ اسلام میں ہے کے ملک
کا حاکم کیسا ہو ۔ ’’متقی ہونا لازمی ہے‘‘۔ ’’ تم میں سب سے زیادہ معزز وہ
ہے جو تم سے زیادہ متقی ہے‘‘۔ اسلام میں انسان کی اہلیت کی کافی ہمیت ہے ۔
لیکن ہمارے ملک میں اہلیت کا علم رکھنا اور اہلیت کا جاننا یہ سب کوئی معنی
نہیں رکھتے۔اگر ہم اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک میں شمار کر وانا چاہتے
ہوں تو ملک کی سیات اور ملک کی ڈور ایسا لوگوں کے ہاتھ تک پہنچانے ہوگی جس
کو سیاست اس کے ساتھ دیکر معملات کا علم ہو۔ اگر میری نسل میرا قبیلہ کا
بندہ یہ سب اسی طر ح جا ری رہا تو پھر اس ملک کو ترقی دینا مشکل ہے۔ جب
میرا میرا کی صدا بلند ہو تو نا صر ف اُس ملک میں قانون پر عمل درامت ہوتا
ہے نا ہے وہ ملک ترقی کرتا ہے۔ |