چینی صدر کا تاریخی دورہ پاکستان

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

چینی صدر شی جن پنگ دو روزہ دورے پروفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ چینی خاتون اول ، سینئر وزراء ، کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ حکام اوربڑے سرمایہ کار اداروں کے سربراہان بھی ان کے ہمراہ ہیں ۔معزز مہمانوں کی آمد پر ان کا تاریخی استقبال کیا گیا۔جیسے ہی ان کا طیارہ پاکستانی حدود میں داخل ہوا جے ایف تھنڈر طیاروں کے دستہ نے اسے اپنے حصار میں لے لیااورچینی صدر کے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے پر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔اس موقع پر سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے گئے تھے۔ صدر ، وزیر اعظم اور مسلح افواج کے سربراہان کی جانب سے انہیں خوش آمدیدکہا گیا۔ چینی صدرشی جن پنگ کا دورہ کئی ماہ سے طے تھا لیکن افسوسناک امر ہے کہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر یہ بار بار ملتوی ہوتا رہاتاہم سوموار کو ان کی آمد پر پورے پاکستان میں زبردست خوشی کا اظہا رکیا گیا ہے۔ دشمنان اسلام کی پوری کوشش ہے کہ پاک چین دوستی جسے ہمالیہ سے زیادہ بلند اور شہدسے میٹھی قرار دیاجاتا ہے‘ میں دراڑیں ڈالی جائیں تاکہ پاکستان دفاعی لحاظ سے کمزور ہو اورانہیں اپنے مذموم ایجنڈے پورے کرنے کا موقع مل سکے ۔یہی وجہ ہے کہ آج جب چینی صدر دیگر ذمہ داران کے ہمراہ پاکستان پہنچے ہیں تو بھارت، امریکہ اور ان کے اتحادیوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں اوروہ اس دورہ کے دوران ہونے والے اہم معاہدوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ چینی صدر ایسے موقع پر پاکستان آئے ہیں جب یمن میں بغاوت اور سعودی سرحدات پر خطرات کھڑے ہونے کے باعث سعودی عرب پاکستان سے مددچاہتا ہے اور حکومت اس حوالہ سے اہم فیصلے کرنے جارہی ہے۔ سعودی حکومت کے مشیر برائے مذہبی امور ڈاکٹر عبدالعزیز العمار اور بعض دیگر ذمہ داران اس وقت پاکستان کے دورہ پر ہیں اور انہوں نے یمن میں بغاوت سے متعلق واضح اور ٹھوس موقف اختیار کیا ہے۔انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ یہ ایران اور سعودی عرب کی لڑائی نہیں اور نہ ہی یہ شیعہ سنی مسئلہ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حوثی باغی مکہ اور مدینہ پر قبضہ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ سعودی سرحد کے قریب مشقیں اور آئے دن سرحدوں پر تعینات سعودی فوجیوں پر حملے کئے جارہے ہیں جس سے کئی فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ اس لئے عالم اسلام کا دفاعی مرکز پاکستان سرزمین حرمین شریفین کے خلاف سازشوں کو کچلنے میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کا ساتھ دے۔ اگرچہ پارلیمنٹ کی طرف سے غیر جانبدار رہنے کی پھیکی قرارداد پاس ہونے کے بعد عرب ملکوں میں غلط فہمیاں پیداہوئیں جنہیں اب دور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایک وفدکے ہمراہ سعودی عرب کا دورہ کیا اور وہاں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اسی طرح مسلح افواج کے سربراہان اور وزیر اعظم نواز شریف کے مابین ملاقاتیں ہوئی ہیں اور وزیر اعظم نواز شریف نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کا سٹریٹیجک اتحادی ہے ۔ ہم حوثی باغیوں کی مذمت کرتے ہیں اور یمن میں منتخب حکومت کی بحالی چاہتے ہیں۔ ان کے یہ کہنے سے کافی حد تک کنفیوژن دور ہوئی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب جو کبھی بھی پاکستان کے کسی مسئلہ میں غیر جانبدار نہیں رہا اور ہر مشکل وقت میں کسی قسم کی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی مدد کا فریضہ سرانجام دیا ہے‘ہمیں بھی اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیے اور افواج سمیت جس چیز کی بھی اسے ضرورت ہو وہ مہیا کرنی چاہیے۔یہ بات بھی ذہنی نشین رکھنی چاہیے کہ یہ کوئی عام مسئلہ نہیں ہے بلکہ حرمین شریفین کے تحفظ اور حق و باطل کی لڑائی ہے جس میں غیر جانبدار رہنا ظالم کی مدد کے مترادف ہے اس لئے دوٹوک انداز میں سرزمین حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے برادر اسلامی ملک کی مدد کرکے اپنا دینی ، ملی و اخلاقی فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔ پورے ملک میں جاری تحفظ حرمین شریفین کانفرنسوں میں تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کی شرکت سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام حرمین شریفین کے تحفظ کے مسئلہ پر کس قدر جذباتی ہیں؟ اور اس کیلئے وہ ہر لمحہ اپنی جانیں نچھاور کرنے کیلئے تیار ہیں۔ پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں سے بھی اسی کردار کی توقع رکھتے ہیں۔ اس موقع پر کہ جب چینی صدر اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورہ پر ہیں پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ دشمنان اسلام کی جانب سے امت مسلمہ کے دفاعی مرکز سعودی عرب کے خلاف اور دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت پاکستان میں فسا د برپا کرنے کی سازشوں پرتفصیل سے مشاورت کر کے دنیا کے سامنے واضح لائحہ عمل پیش کریں۔پوری دنیا اس وقت پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یمن میں بغاوت صرف وہاں کاعلاقائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ سرزمین حرمین شریفین کیلئے خطرات کھڑے کئے جانے کی وجہ سے یہ پورے عالم اسلام کامتفقہ مسئلہ ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ بہرحال چینی صدر پاکستان پہنچ چکے ہیں اور یہ دورہ سٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ پاکستانی اور چینی حکام کے درمیان ملاقاتوں میں علاقائی سلامتی کے امور سمیت افغانستان میں قیامِ امن کیلئے ٹھوس اقدامات اور یمن میں بغاوت سے متعلق بھی تفصیل سے غوروخوض کیا گیا ہے۔2006کے بعد کسی بھی چینی سربراہ کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے جس میں گیس پائپ لائن، ہائی ویز ،ریل سمیت45ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں چین کے سفیر سن وائی ڈونگ نے چینی صدرشی جن پنگ کے دورہ پاکستان کو پاک چین روابط میں تاریخی سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اہم دورے سے پاکستان کو چین کی معاونت سے توانائی کی قلت پر قابو پانے، بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور صنعتی پارکس کے قیام کے سلسلے میں کوششوں کو بہت زیادہ تقویت حاصل ہو گی۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اب بتدریج عملدرآمد کے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔چینی صدر نے حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں ۔ اس دوران ہر طرف سے انہیں بے پناہ محبتوں کا اظہار دیکھنے میں ملا ہے۔یہ دورہ دفاعی اعتبار سے پاکستان کیلئے انتہائی سودمند ثابت ہو گا۔ چین نے ہمیشہ افغان قیادت میں اور افغان عوام کے اپنے مصالحتی عمل کی حمایت کی ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان سمیت مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان مصالحت کی حمایت کی جانی چاہئے تاکہ افغانستان کی اقتصادی اور سماجی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ افغانستان میں ہم آہنگی کے عمل میں مددکی جا سکے۔ افغانستان کے ایشو کو سلجھانے میں چونکہ پاکستان کا اہم کردار ہے اس لئے چین اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ ملکر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران آٹھ روایتی آبدوزوں کی فروخت کے نتیجہ خیز ہونے کابھی امکان ہے جس سے پاکستان بیڑے میں دگنا اضافہ ہو جائیگا ۔ ان آبدوزوں کی خریداری کا مقصد بحر ہند میں بھارتی بحریہ کے غلبے کا توڑ کرنا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی علاقے میں چینی بالادستی کو روکنے کے لئے بھارتی بحریہ کو مضبوط کر رہے ہیں۔ہندوستان نے دفاعی بجٹ میں گیارہ فی صد اضافہ کرکے 40 ارب ڈالر تک کردیا اور چھ ایٹمی آبدوزوں کی منظوری دی۔اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ پاکستان کیلئے بھی خطرناک ہے اس لئے آبدوزوں کی خریداری کا عمل خوش آئند اور وطن عزیزپاکستان کی سلامتی و استحکام کیلئے بہت ضروری ہے۔اگر یہ معاہدہ ہوتا ہے تو یہ چین کی طرف سے کسی بھی ملک کوآبدوزوں کی پہلی برآمد ہو گی۔ بیجنگ کے ایک تھنک ٹینک چینی نیول ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر لی جی کا کہنا ہے کہ یہ آبدوزیں چین کی جدید ترین ٹیکنالوجی ایس 20ماڈل کی طرز پر مبنی ہو ں گی جوٹارپیڈوز اور اینٹی شپ میزائل سے لیس ہیں۔چینی صدر کے دورہ پاکستان پرپاکستانی قوم کے ہر طبقہ نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ بین الاقوامی اور ملکی حالات میں خواہ کوئی بھی تغیر آئے پاک چین تعلقات ہمیشہ آگے بڑھتے رہے ہیں ۔دونوں ملکوں کی یہ لازوال دوستی ان شاء اﷲ آئندہ بھی پھلتی پھولتی رہے گی۔ضرورت اس امرکی ہے کہ حکمران بھارت، امریکہ سے دوستی کی بجائے چین اور مسلم ممالک سے تعلقات مضبوط کریں۔ ایسا کرنے سے ہی پاکستان معاشی و دفاعی لحاظ سے مضبوط ہو گا اور بیرونی سازشوں کا توڑ کرنے میں مددملے گی۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141453 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.