نواز شریف کا دورہ گلگت اور عوامی توقعات

محترم نوازشریف اسلامی جمہوری پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے چودہ اپریل کو گلگت بلتستان کا ہنگامی دورہ کیا۔ حیرت ہوئی کہ اٹھائیس ہزار مربع میل پر پھیلے اس علاقے کو نوازشریف صاحب اٹھائیس گھنٹے بھی نہ دے سکے۔ مبصرین کے مطابق گلگت بلتستان کی آبادی کم وبیش بیس لاکھ بتائی جاتی ہے۔ نوازشریف صاحب تو اس بیس لاکھ کی آباد کو بیس گھنٹے بھی نہ دے سکے۔یا اسفا علی ذالک۔شاید ان کی ترجیحات میں گلگت بلتستان کا خوبصورت مستقبل شامل ہی نہ ہو۔پی ایم صاحب کی آمد سے پہلے ن لیگ گلگت بلتستان کے تمام لیڈران و کارکنان بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے کیا کرتے تھے ۔اب بھیگی بلی بن کر وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں۔ اگرعمیق جائزہ لیا جائے تو وزیراعظم صاحب نے مکمل طور پر گلگت بلتستان کی عوام اور ن لیگ کی قیادت کو ٹوپیاںپہنائی ہے۔ اس کے جواب میں لیگی قیادت ٹوپی پہنانے لگی تو شریف صاحب نے انکار کردیا۔غور سے دیکھا جائے تو یہ صرف لیگی قیادت کی توہین نہیں بلکہ اٹھائیس ہزار مربع میل میں پھیلے ان تمام انسانوں کی توہین ہے جن کی روایتی ٹوپی ان کے وزیراعظم نے دو منٹ سر پر رکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ حالانکہ گلگت بلتستان کی روایت میں ''ٹوپی بدلی ''ہوجائے تو اس ٹوپی کی خاطر جان تک کا نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔ ہماری روایت میں ٹوپی کا تبادلہ دوستی و محبت کی آخری دلیل سمجھا جاتا ہے۔ یہاں دوستی و محبت ہی نہیں تو آخری دلیل کا سوال ہی فضول ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا نوازشریف صاحب سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی روایات و روایتی چغوں، ٹوپیوں، شالوں اور پگڑیوں کا یوں مزاق بناتے ہیں؟آخر یہ درگت ہماری ہی کیوں؟۔

نوازشریف صاحب کے اعلانات میں ایک بھی نیا نہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کا تو باقاعدہ آغاز سابق صدر مشرف نے کیا تھا اور ن لیگ کی حکومت سے پہلے بہت سارا فنڈ بھی ریلیز ہوا تھا۔ کے آئی کا بلتستان کیمپس گزشتہ کئی سالوں سے کام کررہا ہے۔ہنرہ نگر اور کھرمنگ اور شگر کو الگ الگ ضلع بنانے کا کافی کام گزشتہ حکومت کرچکی تھی۔ اعلانات کے دوران ایک حیران کن بات سامنے آئی کہ محترم وزیراعظم صاحب نے کہا کہ'' میرے دوست راجہ غضنفر نے کہا ہے اس لیے میں ہنزہ کو الگ ضلع بنارہا ہوں''۔ کمال کردیا آپ نے تو پرائمنسٹر صاحب۔ آپ کو عوام کی فکر ہی نہیں ایک آدمی کو خوش کرنے کے لیے ضلع بنادیا۔ اگر آپ یہ کہتے تو کتنا اچھا ہوتاکہ'' ہنزہ نگر کے عوام کی درینہ چاہت پر الگ الگ ضلع کا اعلان کرتا ہوں''۔ بہر صورت شیر کی مرضی ہے انڈہ دے یا بچہ ۔ ہم کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔

نوازشریف صاحب نے تین اضلاع کو مکمل نظرانداز کیا۔ ضلع دیامر، استور اور غذر کے عوام کی تمام تر توقعات دریا برد ہوچکی ہیں۔ ردعمل کے طور پر ضلع استور کی پوری لیگی قیادت اور آفس بیریئر زنے اجتماعی استعفیٰ دیا۔ کیا اس سے واضح نہیں ہوتا کہ نوازشریف کا دورہ گلگت مکمل طور پر ناکام اور مایوس کن تھا؟ ان کی آمد سے پہلے ن لیگ کے لیے ایک ماحول بنا تھا، قیادت کے ساتھ کارکنان بھی بھنگڑے ڈال رہے تھے۔اور ''شیر'' کے گن گارہے تھے۔ اب سب کے چہروں پر پژمردگی چھائی ہوئی ہے۔ اخبارات میں وضاحتیں دیے پھرتے ہیں۔عوامی خیالات، اخباری بیانات اور ن لیگ قیادت کی دفاعی وضاحتوں سے تجزیہ یہ بنتا ہے کہ پی ایم کے حالیہ دورے سے ن لیگ کو سخت دھچکا لگا ہے۔پی پی حکومت کے اعلان کردہ اعلان کو مکرر دہرا کر نوازشریف نے کوئی نیا اعلان یا احسان نہیں کیا۔میری لیگی قیادت سے گزارش ہے کہ واقعی آپ گلگت بلتستان کے ساتھ مخلص ہیں تو فوری طور پر یہ اقدامات کریں تاکہ آپ کا بگڑا ہوا امیج بحال ہوسکے۔ورنہ آپ کے لیے حالات سازگار نہیں آنے والے الیکشن میں۔مجھے لگتا ہے عوام آپ سے خوب بدلہ لے گی۔

ن لیگ حکومت کو چاہیے کہ داریل تانگیر کو الگ ضلع بنانے، یاسین اورگوپس کو الگ ضلع بنانے ،تھک نیاٹ اور گوہرآباد کو الگ سب ڈویژون بنانے اور حلقہ نمبر 1 گلگت کو الگ سب ڈویژون بنانے کا نوٹیفیکیشن جاری کریں۔گلگت شہر کی تمام ضروریات بالخصوص بجلی، پانی اور سیوریج سسٹم کو فوری درست کرنے کا بندوبست فرمادے۔ضلع استور کی تمام جائز مطالبات منظور کیے جائیں۔اگر بلتستان یونیورسٹی سے بابت اعلان ایک الگ یونیورسٹی کا قیام ہے تو خوش آئند ہے اگر قراقرم یونیورسٹی کا کیمپس مراد ہے تو یہ بلتیوں کو ٹوپی پہنانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔کیا بلتی ایسی ٹوپی پہننے کے لیے تیار ہیں؟ اگر واقعی بلتستان یونیورسٹی بنانا ہے تو پھر عوامی توقعات کے مطابق ''بلتستان وومن یونیورسٹی '' کا قیام عمل میں لایا جائے۔اور یہ ایک آزاد اور مکمل یونیورسٹی ہو۔بلتستان کے لوگ مخلوط تعلیم کے عادی بھی نہیں اور نہ ہی پسند کرتے ہیں۔ وومن یونیورسٹی ان کی آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اورساتھ ساتھ اکنامکس کوریڈور میں گلگت بلتستان کی حیثیت کو باقاعدہ واضح کرکے گلگت بلتستان کو بھی دیگر صوبوں کے برابرا مراعات دی جائے۔عوام و خواص اور سرزمین بے آئین گلگت بلتستان کو ''ٹشو پیپر '' بنانے کا کلچر اب مزید نہیں چل سکتا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 434021 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More