مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کی
صدیوں پرانی مشترکہ اقدار،بھائی چارہ اورفطری تعلق کے باوجود دُشمنان اسلام
کی طرف سے ان اسلامی ممالک کے درمیان نفاق،بدامنی اورانتشار پیدا کرنے کی
سازشیں صدیوں سے کی جاتی رہی ہیں۔ ان سازشوں کا مقصد عظیم مذہب اسلام کو
کمزور اور بے اثر کرناہے۔ مملکت سعودی عریبیہ عالم اسلام کا مرکز ومحورہے۔
دُشمنان اسلام کا اسلامی ممالک میں بدامنی وانتشاراورآپس میں
برسروپیکارکرنے کی سازش کا بیج اب ایک تناور درخت بن چکاہے۔یہی وجہ ہے کہ
پوری اُمت ِ مسلمہ کشت وخون میں مبتلا ہوچکی ہے۔ تمام مسلمان ممالک ایک
دوسرے کے جانی دُشمن بن چکے ہیں اوران اسلامی ممالک میں لاکھوں بے گناہ
انسانوں کی قیمتی جانیں آپس کی خون ریزی کی نظر ہوچکی ہیں۔پاکستان خود عرصہ
دراز سے دہشت گردی ،قتل وغارت گری ، بدامنی اورعدم استحکام کا
شکارہے۔پاکستان کی فوج باقاعدہ حالت ِ جنگ میں ہے ۔ دہشت گردی کی اس جنگ
میں ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری، معصوم بچے،عورتیں،بزرگ اوردفاعی اداروں کے
افسران و جوان شہیدہوچکے ہیں۔
اس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ دشمنان اسلام کا اصل حدف مرکز اسلام
سعودی عرب ہے۔ ان کا مقصد مملکت سعودی عرب میں بدامنی پھیلانا، عدم استحکام
کا شکاراورکمزورکرناہے ۔تاکہ سعودی عرب کااثر ورسوخ دیگر اسلامی ممالک میں
بتدریج مکمل طور پر ختم ہو جائے ۔یمن کی شرعی اور قانونی حکومت کی درخواست
اور خواہش پر یمن میں موجودبدامنی اورانتشار کو مذید بڑھنے سے روکنے کے لئے،
اتحادی فوجوں نے یمن کے باغیوں کے خلاف اقدام کیا،اس کشیدہ صورت حال میں
سعودی عرب کا پاکستان سے تعاون کاتقاضا کرنافطری عمل تھا،مگرہماری طرف سے
ظاہر کئے جانے والے مبہم رد ِ عمل کی توقع ہمارے دوست سعودی عرب کوہرگزنہیں
تھی۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک امرہماری طرف سے کی جانے والی بیان بازی اور اظہار
خیال کالامتناہی سلسلہ ہے جوختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اس نازک صورت
حال میں خطہء عرب کے ساتھ اظہار یکجہتی کی بجائے، حکومتی وزراء،دیگر سیاسی
و مذہبی راہنماؤں اوربالخصوص الیکڑانک اور پرنٹ میڈیاکی جانب سے مسلکی
جنگ،پرائی جنگ،مفادات کی جنگ،لشکرکشی جیسی تکرارسمجھ سے بالاتر ہے۔جس کے
منہ اورذہن میں جو آیا کہے اورلکھے جارہاہے۔ہم لوگ جھگڑالودیہاتی عورتوں کی
طرح طعنہ زنی پراُترآئے ہیں۔جس سے اس بات میں تفریق کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ
ہم اُمت ِمسلمہ کے مرکزسعودی عرب کے ساتھ ہیں یا لاشعوری طورپراسلام دُشمن
قوتوں کاساتھ دے رہے ہیں۔ویسے توایک دوسرے کے خلاف نفرت و حقارت پیدا کرنے
میں ہمارا ثانی کوئی نہیں، مگرحقائق بیان کرنے کے نام پرخطہء عرب کو اس حد
تک منفی انداز میں پیش کیا جارہاہے کہ جس کاحقیقت سے کہیں دور تک کوئی تعلق
نہیں۔خطہء عرب کے خلاف حقیقت کے برعکس الزام تراشی اور طعنہ زنی کی جارہی
ہے۔اس حوالہ سے ہمارے لکھاری،اینکرز اور میڈیا سے وابستہ افراد ہمیشہ کی
طرح بہت جلدبازی میں ہیں۔
ہمارے ایک کالم نگار دوست لکھتے ہیں"یہی عرب تھے جوسال بھرحج کا انتظار
کرتے تھے اورحاجیوں کی بخشش کی اُمیدپرزندہ رہتے تھے۔ حاجی خربوزہ کھا
کرجوچھلکے زمین پرپھینک دیتے تھے وہ ان کے منتظرعرب فوراََ اُٹھا لیتے
تھے۔انہیں چوستے تھے یاگھرلے جاکرانہیں اُبال کرکھاتے تھے لیکن یہ تیل سے
پہلے کی بات ہے۔آج وہ حاجیوں کی بلاتامل بے عزتی کرتے ہیں "میں اپنے محترم
دوست اورکالم نویس کی اس بات کوسمجھنے کی قاصرہوں ۔کہ اس طرح یہ اپنی ایٹمی
بھکاری قوم کی غیرت جگاناچاہتے ہیں یا عربوں کواُن کاماضی یاد دلانا مقصود
ہے۔
راقم کا عرصہ درازسے سعودی عرب کے ساتھ واسطہ ہے ۔روزگار کے حوالہ سے مملکت
عرب کے صحرا،سرحدی دیہاتوں اورگنجان آبادشہروں میں جانے اوررہنے کااتفاق
ہوا۔اس کے علاوہ سیروسیاحت کے حوالہ سے ملک بھرمیں طویل سفربھی کئے (جن کے
متعلق فیچر،رپوٹس روزنامہ طاقت اور دیگرپاکستانی اخبارات میں شائع ہوچکی
ہیں)۔ اس ساری مدت کے دوران کسی عربی نے نہ تومجھے حقارت کی نظرسے دیکھا
اور نہ ہی نفرت آمیز سلوک کا تجربہ ہوا۔میں جہاں بھی گیاہمیشہ پاکستانیوں
کے لئے عزت واحترام دیکھنے کوملا۔ان کی مساجدمیں پاکستان کی سلامتی و
استحکام کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ یہاں پاکستانیوں کوبھائی کہہ کرپکاراجاتا
ہے۔انفرادی حیثیت سے کسی پاکستانی کے ساتھ معاملات میں کمی وبیشی یازیادتی
کاسرزد ہوناالگ بات ہے۔مگربحیثیت مجموعی سعودی عرب کے خاص وعام
کاپاکستانیوں کے ساتھ پیار ومحبت، عزت و احترام کا رشتہ اورتعلق ،دیکھنے
اورسننے میں آیا ہے۔
ایک عام سی بات ہے، کسی کے گھر میں کسی تقریب کے حوالہ سے چھوٹاسا اکھٹ (اجتماع)ہوتواس
تقریب کے منتظمین کا رویہ تلخ ہوجانا فطری امرکہاجاتا ہے۔مگروہ ملک اور شہر
جہاں دُنیا بھر سے مختلف ،زبان ، مزاج کے لاکھوں لوگ جمع ہوں تو اتنے بڑے
مجمع کوسمبھالنے کے دوران کسی خدمت گارکے انفرادی رویہ کوپورے ملک اورقوم
کے ساتھ منسلک کردینا ،سراسرناانصافی ہے "کہ یہ لوگ، اب حاجیوں کی بلاتامل
بے عزتی کرتے ہیں"۔یہاں قیام کے دوران اﷲ عزوجل نے بیت اﷲ اوراپنے پیارے
حبیب محمد مصطفی ﷺ کے روضہ مقدس ومطہر کی بارہا زیارت عطاء فرمائی۔اﷲ رب
العزت کے لطف و کرم کی بدولت حج وعمرہ کی سعادت بھی ایک سے زیادہ بارنصیب
ہوئی اورالحمداﷲ حجاج کرام کی رضا کارانہ خدمت کا شرف بھی حاصل ہے۔حکومت
سعودیہ کی جانب سے حاجیوں کی خدمت اورانتظام وانصرام پر مامورافراد میں سے
کسی کو کسی غیر سعودی حاجی کی بے عزتی کرتے کم ازکم میں نے نہیں دیکھابلکہ
کسی فعل سے روکنا مقصود ہوتوہرسرکاری اہلکار کو نہایت ادب واحترام کے ساتھ
پیش آتے اور یاحاجی، یاحاجی مخاطب کرتے دیکھا۔
ایک عرب کے بیان میں "بھاری قیمت" کے تذکرہ پر اس قدر جذباتی اور بد لحاظ
ردعمل ہرگز زیب نہیں دیتا۔کیا یہ ان پڑھ دیہاتی عورتوں جیساطعنہ نہیں کہ تم
وہ لوگ ہوجو تیل سے پہلے سال بھرحج کاانتظارکرتے ،چھلکے اُٹھاکرگھر لے
جاتے،بھوک مٹانے کے لئے انہیں اُبال کرکھاتے تھے۔محترم تھوڑا مزید پیچھے
چلے جائیں تو معلوم ہوگا ،یہ عرب تواتنے بھوکے تھے کہ کئی چاندگزرجاتے ان
کے گھرآگ نہ جلتی، بھوک کی وجہ سے انہیں پیٹ پرپتھر باندھنے پڑتے، تنگ دست
ایسے کہ کفن تک ان کے پاس نہیں تھے سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے اورپاؤں
ڈھانپتے تو سرننگا ہوجاتا،جنہیںﷺآخری سانس تک اپنی اُمت کی فکرتھی ،یار ب
میری اُمت کے ایک ایک اُمتی کا کیا ہوگا،جنہیں ﷺخطہء ہند سے ٹھنڈی ہوا ئیں
آتی تھیں۔پاکستان اُسی خطہء ہندمیں واقع ہے ، دُنیائے اسلام کی واحدایٹمی
طاقت پاکستان اسلام اورکلمہ کی بنیاد پربنا،جواسلام کا مضبوط قلعہ کہلاتاہے۔
تمام عرب ریاستیں اپنی حدود میں مکمل طور پر آزاد اورخودمختارہیں۔اس کے
باوجودان کے درمیان رشتہ اورمضبوط تعلق کے کئی ظاہری اسباب موجود ہیں۔عرب
ممالک کی زبان،رسم ورواج اورایک جیسی روایات ہیں۔یہ لوگ صدیوں سے آپس میں
تہذیبی وتاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ مگر ہم سب پاکستانیوں کاسعودی
عرب کے ساتھ صرف ایک ہی رشتہ ہے۔وہ ہے کلمہ لاالہ الااﷲ۔یہ رشتہ سب رشتوں
اورسب قدروں سے مضبوط ترین ہے۔ ہمیں سوچنا اوراس رشتہ کی قدر کرنی چاہیے،جب
لفظ عرب استعمال کریں توسوچ لیں کہ اس لفظ کی نسبت وحرمت ،محمدعربیﷺکے ساتھ
جاملتی ہے ، مباداکہیں روزقیامت واقعی ہمیں بھاری قیمت نہ ادا کرنی پڑجائے۔
اﷲ رب العزت تمام اُمت ِمسلمہ میں محبت ویگانگت،ایک دوسرے کے درد کا احساس
اورآپس میں اتفاق و اتحادعطاء فرمائے۔کیونکہ اتحاد ویک جہتی ہی میں تمام
اُمت ِمسلمہ کی خوشحالی،طاقت اوربقائے باہمی کارازمضمرہے۔اس کے برعکس
افراتفری،جنگ و جدل،قتل وغارت گری توکمزوری ، بدحالی اوربربادی کے اسباب
ہیں۔ |