میں ابھی بچی ھوں۔۔۔۔۔
(samreen khurshid, rawalpindi)
یہ ان دنوں کی بات ھے جب میں
چھٹی یا ساتویں کلاس کی طالبعلم تھی اور گھر میں اکیلا بچہ ھونے کے باعث
گھر سے باہر جانے کی بھی اجازت نہ تھی اکیلا کھیلنا پسند نہیں تھا تو
کتابیں پہلا اور آخری انتخاب ھوتیں تو ہر طرح کی کتاب پڑھ لینا عادت سی تھی
مجھے یاد ہے ایک بار مجھے ایک کتاب ملی دہشتگرد عمران سیریز تھی شائد عمران
سیریزسے تو اپ سب واقف ھی ھوں گیں دوپہر میں سب کے سو جانے کے بعد جب میں
پڑھنے بیٹھی تو اچانک میرے ابا جی آ گئے اور پو چھا
بیٹا جی کیا پڑھا جا رھا ھے ؟
جب میں نے کتاب دکھا دی تو کہتے ھیں بیٹا جی ابھی آپ چھوٹی ھوتو ابھی یہ
کتاب رھنے دو۔۔۔۔
کچھ دنوں بعد جب میرے ہاتھ عصمت چغتائی کے افسانے لگے تو میری ایک آپی نے
دیکھ لیا ان کی جو تھی فوراً سے ڈانٹنا شروع کر دیا رکھو یہ کتاب تمھارے
پڑھنے کی نہیں ھے تم ابھی بچی ھو۔۔۔
کیا گزری ھو گی اے دل ناداں
جب بار بار ستایا گیا ھو گا۔۔۔
پھر میں شائد میٹرک میں تھی تو میں نے راجہ گدھ پڑھ لی اس وقت میں بڑے شوق
سے پیسے جمع کرتی اور پھر اپنی مرضی کی کتابیں خریدتی تو بعد میں میں ایک
محترمہ سے ملی جو عمر ًٰمیں مجھ سے کافی بڑی تھیں وہ کافی حیران ھویں اور
کہا تمہاری عمر تو نہیں ھے ایسی کتابیں پڑھنے کی تم ابھی بچی ھو۔۔
ایسا ھوا بار بار ھوا اور اس سارے چکر میں میں منٹو کو پڑھنے سے محروم رہ
گئی
کیونکہ میں جب بھی کچھ خریدنے جاتی تو میرے بابا ھمیشہ میرے ساتھ ھوتے اور
جب بھی میں منٹو کے افسانوں کے ُپاس جا کر رکتی تہ ابا جی پوچھتے بیٹا آج
کیا لینے کا ارادہ ھے تو منٹو کے بارے میں جو سن رکھا تھا جلدی سے دوسری
کتابوں کے پاس جاتی اور کہتی بابا جی نسیم حجازی۔۔۔
اس چکر میں میں منٹو کو تو نہ پڑھ سکی البتہ نسیم حجازی کی کوئ چار پانچ
چھوڑ کے باقی سب پڑھ ڈالیں کیوں کہ میں ابھی بچی ھوں۔۔۔۔۔ |
|