دس روپے دس روپے قیمت صرف دس
روپے
ابھی لگائیں ۔۔۔۔۔ابھی آزمائیں ۔۔۔۔۔ابھی آرام آئے گا
گلی محلوں۔۔۔بازار مارکیٹوں،،مسافر بسوں اور ٹریفک سگنلز پر گونجتی یہ
آواز کسی کیلئے سنی ان سنی نہیں،کیونکہ جب تک دانتوں میں سفیدی نہ آجائے
۔۔پیٹ کے کیڑے ابدی موت نہ سوجائیں۔۔قبض یا گیس کی شکایت دور نہ ہو یا
کمزوری طاقت سے بھرپور نہ ہو۔۔۔ ایسے منجن فروشوں کی صدائیں تا قیامت
گونجتی رہیں گی۔
کچھ ایسی ہی صدائیں نیوز چینلز کی اسکرینوں پربھی چوبیسوں گھنٹے دکھائی
دیتی ہیں اور اگر منجن بیش قیمتی یا نایاب ہو تو رات آٹھ بجے سے گیارہ بجے
تک کے اوقات میں کچھ خاص منجن فروش اپنی دکان لگا کر بیٹھ جاتے ہیں
یہ منجن بقول انجمن منجن فروشان کہ
’’نہایت ہی مفید ،کار آمد اور فوری اثر کرنے والے ہو تے ہیں بر عکس اس کے
کہ اس کا فائدہ براہ راست یا نشرر مکر کی صورت کسی کو پہنچے یا نہ پہنچے
۔‘‘
ان منجن فروشوں کی آوازیں پہلے پہل تو اتنی نہیں گونجتی تھیں لیکن جب سے
دھرنوں اور دھرنیوں کی سیاست شروع ہوئی تو ان منجن فروشوں کی جیسے چاندی
ہوگئی ۔ایک ایک گھنٹہ جاری پروگرام گھنٹوں جاری رہنے لگے ،،اتنی بلند
صدائیں کہ اس شور و غل میں نہ کسی ٹوتھ پیسٹ میں چمکتے دانت نظر آتے،نہ
کسی ریفریجریٹر میں رکھی سبزیاں یا پھل دکتے کہ جنہیں دیکھ کسی غریب کی
بھوک بڑھے۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ بعض منجن فروشوں کو دیکھ کر کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ
وہ منجن بیچنے بیٹھے ہیں یا لڑنے،،بعض کی آوازیں ایسی ہیں جیسے کسی
میوزیکل کنسرٹ میں حصہ لینے آئے ہیں تو کچھ تو ایسے ہیں کہ بس اٹھ کر منہ
دھویا اور آگئے ،،،ابھی حال ہی میں ایک ایسے ہی منجن فروشی کا پروگرام
دیکھنے کا موقع ملا تو ایسا محسوس ہوا کہ منجن فروش جو منجن بیچنے بیٹھا اس
منجن کے بارے میں از خود اسے کچھ نہیں پتہ یعنی مان نہ مان میں تیرا مہمان
کبھی کبھار تو ان منجن فروشوں کی آوازیں سن سن کربعض لوگ ان اوقات میں یا
تو کہیں سیر و تفریح کو نکل جاتے ہیں تو کچھ کسی اورجگہ جی لگالیتے ہیں ۔
ان منجن فروشوں کو بقول انجمن منجن فروشان کہ ویسے تو پتہ سب کچھ ہوتا ہے
لیکن یہ صرف وہی منجن بیچتے ہیں جن کاعام آدمی کا واسطہ یا فائدہ کم ہی
پڑے۔
خیر منجن فروشوں کی خامیاں اور خصوصیات گنتے گنواتے میں تو اپنا منجن بیچ
چکا ۔۔ساتھ ساتھ ڈر بھی ہے کہ کوئی میرا ہی سفوف بناکر منجن فروشی کی دکان
نہ کھول لے۔اس لئے فی الوقت میں اپنی دکان بند کررہا ہوں- |