خیبرپختونخوا:طوفانی بارشوں سے اموات.... صوبائی محکموں
کی ناقص کارکردگی!
خیبرپختونخوا میں موسلادھار بارشوں، ژالہ باری اور طوفان نے زبردست تباہی
مچائی ہے۔ اگرچہ اب خیبر پختونخوا میں طوفان دم توڑ چکا ہے، لیکن اپنے
پیچھے جانی و مالی نقصانات اور صوبائی حکومت و صوبائی محکموں کی نا اہلی کی
ایک داستان رقم کر گیا ہے۔ گزشتہ روز طوفانی بارشوں کے نتیجے میں بچوں اور
خواتین سمیت لگ بھگ 45 افراد جاں بحق ہوگئے اور تقریباً دو سو افراد زخمی
ہوئے ہیں۔ جانی نقصان کے علاوہ خیبرپختوانخوا کے متعدد علاقوں میں دسیوں
عمارتیں زمین بوس ہوئی ہیں اور بہت سے سائن بورڈ، بجلی کے کھمبے اور درخت
بھی گرے ہیں، جن کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
صوبائی حکومت کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بارشوں اور
طوفان کے نقصانات کو کنٹرول کرنے کے لیے پیشگی انتظامات تو رہے ایک طرف،
یہاں تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک اتنی بڑی تعداد میں اموات ہونے
کے 21 گھنٹے بعد ریڈنگ ہسپتال میں پہنچے، صرف یہی نہیں، بلکہ جب ان سے
تاخیر کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ میں کوئی ڈاکٹر نہیں جو
ہسپتال جاکر مریضوں کا علاج کروں، میرا اپنا پروگرام ہوتا ہے، میں کسی کے
کہنے سے نہیں آتا۔ ذرائع کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا میں بارشوں کے نتیجے
میں ہونے والے نقصانات کی بڑی وجہ صوبائی حکومت اور صوبائی محکموں کی نا
اہلی ہے، کیونکہ صوبائی حکومت نے بارشوں اور طوفان کے نقصانات سے بچنے کے
لیے پیشگی انتظامات کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں دی۔ اگرچہ محکمہ موسمیات نے
پہلے سے ہی صوبائی حکومت کو بارشوں، آندھی اور ملکی تاریخ کے تیسرے بڑے
ہوائی بگولے سے آگاہ کر دیا تھا، لیکن کے پی کے حکومت محکمہ موسمیات کی
جانب سے آگاہی ملنے کے بعد بھی کوئی انتظامات نہ کر سکی۔ نا اہلی دکھانے پر
اپوزیشن نے خیبرپختونخوا حکومت پر سخت تنقید کی ہے، جبکہ ملک بھر میں عوامی
سطح پر بھی کے پی کے حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ واضح رہے اسی
طرح کی صورتحال گزشتہ ماہ بھی پیش آئی تھی، اس وقت خیبرپختونخوا میں بارشوں
کے نتیجے میں بیسیوں افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، جبکہ ایک بار
پھر بارشوں میں ناقص انتظامات کے باعث 45 افراد کی اموات اور 200 افراد کے
زخمی ہونے سے کے پی کے حکومت کی نا اہلی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ قابل افسوس
بات یہ ہے کہ پاکستان میں بار بار ناقص کارکردگی کے باوجود نہ تو کوئی وزیر
خود سے استعفیٰ دیتا ہے اور نہ ہی تحقیق کر کے ناقص کارکردگی دکھانے والے
ذمے داران سے استعفیٰ لینے کا کوئی انتظام موجود ہے، جس کی وجہ سے تمام
اداروں میں موجود افسران کو ناقص کارکردگی پر کسی قسم کا کوئی خوف نہیں
ہوتا، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جتنی بھی ناقص کارکردگی دکھائیں، کچھ
بھی مواخذہ نہیں ہوگا۔ یہ معاملہ صرف خیبرپختونخوا حکومت کا ہی نہیں ہے،
بلکہ بارش، طوفان، آندھی اور زلزلہ سمیت تمام قدرتی آفات کے وقت وفاق سمیت
تمام صوبائی حکومتوں کا یہی طریقہ کار ہے۔ ہر حکومت کسی دوسرے محکمے پر ڈال
کر اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہونا چاہتی ہے۔
خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارشوں، ژالہ باری اور طوفان
کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں چھتیں گرنے اور دیگر حادثات میں45 افراد جاں
بحق، جب کہ 200 سے زاید افراد زخمی ہوئے ہیں۔ طوفانی بارشوں سمیت ژالہ باری
اور طوفانی بگولوں سے پشاور سمیت نواحی علاقوں واحد گڑھی، لیاقت آباد،
چارسدہ روڈ، چمکنی، پخہ غلام، بدھوثمرباغ، نوشہرہ، مردان اور دیگر علاقوں
میں چھتیں گرگئیں اور متعدد افراد ملبے تلے دب گئے۔ شدید بارشوں کے باعث
امدادی سرگرمیوں میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ متعدد علاقوں میں
بجلی کے دیو قامت کھمبے اور ٹرانسفارمر گر گئے، درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، کچے
مکانوں کی دیواریں اور چھتیں منہدم ہو گئیں اور سائن بورڈز اور بڑے بڑے
اشتہاری بورڈ گر گئے، جبکہ بعض مقامات پر کھمبے اور ٹرانسفارمر گرنے سے
گاڑیاں تباہ ہو گئیں اور موٹر وے ٹول پلازہ کے بوتھ تیز ہواؤں سے تنکے کی
مانند اڑ گئے۔ بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبے گرنے سے پشاور شہر اندھیرے میں
ڈوب گیا اور مواصلات کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق
پشاور میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 59 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی،
رسالپور میں 39، بالاکوٹ میں 22، سیدو شریف میں 11 ملی میٹر، چراٹ میں 19،
کالام 17، دیر 15 اور مالم جبہ میں 9 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ محکمہ
موسمیات کے ڈائریکٹر محمد حنیف نے پشاور میں آنے والے طوفان کو ملکی تاریخ
کا تیسرا بڑا ہوائی بگولہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ قوم کو اس طرح مزید
صورتحال کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اس طرح کا بگولہ دو سال قبل سیالکوٹ اور نو
سال پہلے سرگوھا میں آیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طوفان کے دوران چلنے
والی ہوا کی رفتار ایک سو دس سے ایک سوبیس کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔ صوبہ
خیبرپختونخوا میں طوفان کے امکانات موجود تھے، لیکن اس کی شدت اس قدر ہوگی،
اس بارے میں اندازہ نہیں تھا۔ محمد حنیف کے مطابق ہوائی بگولوں کو دیکھتے
ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں آب و ہوا تبدیل ہو چکی ہے اور اس کی سب
سے بڑی وجہ جنگلات کا کٹاؤ اور تیزی سے بڑھتی فضائی آلودگی ہے اور آنے والے
دنوں میں اس طرح کی مزید صورتحال دیکھنے میں آ سکتی ہے، جس کے لیے ہمیں
تیار رہنا ہو گا۔ جبکہ دوسری جانب پشاور بشمول خیبر پختونخوا کے مختلف
اضلاع میں تباہی مچانے والے طوفان اور موسلادھار بارشوں سمیت شدید ژالہ
باری کے امکانات سے صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کا
ادارہ یکسر بے خبر رہا۔ اتوار اور پیر کے روز پی ڈی ایم اے کی جانب سے اپنی
ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی تفصیلات کے مطابق تاریخی سائیکلون کا نام و نشان
بھی نہیں تھا۔ جبکہ اس ادارے کو ہر سال قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کروڑوں
روپے کا فنڈ دیا جاتا ہے، تاہم پی ڈی ایم اے قدرتی آفات کی نشاندہی اور روک
تھام میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ روز آنے والی بارشوں کی وجہ سے
ہونے والے نقصانات کی بڑی وجہ جنگلات کے کٹاﺅ کو قرار دیا جا رہا ہے، جس کا
ذمہ دار یقینا محکمہ جنگلات ہے، کیونکہ جنگلات کے کٹاﺅ کو روکنا ان کی ذمہ
داری ہے، لیکن باقی اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی اپنی ذمے داری ادا نہیں کر
رہا ہے۔
گزشتہ روز صوبہ خیبرپختونخوا میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات جہاں ایک
طرف ملک بھر کے عوام کے لیے صدمے کا باعث ہےں، وہیں ان نقصانات کی وجہ سے
ہمارے ملک کی انتظامیہ، متعلقہ اداروں اور ہماری صوبائی حکومت کی کارکردگی
کی قلعی کھل گئی ہے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں، جو قدرتی آفات کے بعد
اپنی خامیوں کی اصلاح کرتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بار بار بارشوں
میں ہونے والی اموات بھی ہماری حکومتوں کی آنکھیں نہیں کھول پاتیں۔ پاکستان
میں وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں بارش کے حوالے سے حفاظتی انتظامات کرنے
میں انتہائی سستی سے کام لیتی ہیں۔ پاکستان میں بارشوں، سیلابوں اور قدرتی
آفات کے حوالے سے حفاظتی انتظامات کرنے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا
ادارہ موجود ہے۔ جس کا سالانہ بھاری بھرکم خرچہ بھی ہے، لیکن اس کے باوجود
نہ تو بارشوں و سیلابوں کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات میں کمی
آتی ہے اور نہ ہی یہ ادارہ کوئی بہتر منصوبہ بندی کرتا ہے۔ پاکستان میں
بارشوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور تمام
صوبائی حکومتوں کی نا اہلی کا نتیجہ ہے۔ ہر سال بارشوں میں بہت سے لوگ اور
شہری و دیہی علاقے تباہی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بارشوں کے بعد
سیلابی ریلوں میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جانے والے اقدامات و انتظامات اور
اس سے پیدا شدہ مکمل انتظامی ناکامی سے متعلقہ حکومتی محکموں، ریاستی
اداروں، فلڈ ریلیف کمیشن، ماحولیاتی ایجنسی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کرتا
دھرتاو ¿ں کے ضمیر میں کوئی خلش تک پیدا نہیں ہوتی۔ حکومت کو چاہیے کہ
ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو فعال کرے تاکہ بہتر سے بہتر منصوبہ بندی کرکے قدرتی
آفات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جاسکے۔ دوسری جانب نیپال اور
بھارت کے بعد پاکستان میں بھی زلزلے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ محکمہ
موسمیات اور جیالوجیکل سروے آف پاکستان ( جی ایس پی) کے مطابق پاکستان میں
کئی سرگرم ارضیاتی فالٹس ہیں، جہاں زلزلے بن رہے ہیں اور ان میں سے دونوں
بلوچستان کے علاقے مکران اور کوئٹہ شہر ہیں جہاں زلزلوں کا امکان ہے۔ جبکہ
ملک کی انتظامیہ، حکومت اور متعلقہ اداروں نے اس حوالے سے بھی کوئی
انتظامات نہیں کیے ہیں، اگرچہ قدرتی آفات کا مقابلہ کرنا انسان کے بس کی
بات نہیں ہے، لیکن پیشگی انتظامات کر کے ان آفات سے ہونے والے نقصانات کو
کم کیا جا سکتا ہے۔ ہماری حکومتوں کی حالت تو یہ ہے کہ ناقص انتظامات کی
وجہ سے بارشوں کے باعث ہی45 افراد جان سے دھو بیٹھے ہیں، خدانخواستہ اگر
جیالوجیکل سروے آف پاکستان کی پیشین گوئی پوری ہوتی ہے تو اس حوالے سے بھی
حکومت نے کچھ انتظامات نہیں کیے ہیں۔ |