اپنے گھرمیں بھی آئینہ رکھنا

کسی بھی ملک ،ریاست یاسماج کےلئے نوجوان ایک بہت بڑاسرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیںاورنوجوانوں کے روشن وخوشنمامستقبل پر ہی ملک ،ریاست نیزسماج کی خوشحالی کاانحصارہوتاہے لیکن جائے افسوس ہے کہ ریاست جموں وکشمیرکی ماضی کی ابن الوقت اورنااہل حکومتوںنے نوجوانوں کے مستقبل کے تئیں غیرسنجیدہ پالیسیاں اپنائیں۔جس کانتیجہ یہ نکلاکہ نہ تونوجوانوں کے درخشاں وسنہرے مستقبل کے آثارنظرآئے اورنہ ہی ریاست کے شاندار مستقبل کی ضمانت تاحال مل سکی ہے۔درج بالاسطورریاست میں بے روزگاری کے مسئلے کی سنگین صورتحال کے تناظرمیں درج کی گئی ہیں۔بے روزگاری کامسئلہ جوموجودہ وقت ریاست جموں وکشمیر سنگین صورتحال اختیارکرچکاہے کے سبب تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان غیریقینی اورذہنی اضطراب کے شکارہیں۔سماج کی بے آسودگی کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری کوقراردیاجائے توبے جانہ ہوگا۔

اگرچہ 2011 کے سروے کے مطابق ریاست میں 6لاکھ بے روزگارنوجوان بتائی گئی تھی مگراس وقت یہ تعدادانداز اً 7لاکھ سے بھی تجاوزکرچکی ہے ۔ریاست میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں نوجوانوںکے اعدادوشمارکی طرف دیکھاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ ریاست جموں وکشمیرمیں گریجویٹ نوجوانوں کی کل تعداد29034 ہے جبکہ صوبہ کشمیرمیں بارہویں پاس طلباءکی تعداد46703 ہے اور صوبہ جموں کے بارہویں پاس طلباءکی تعداد27212 ہے۔ علاوہ ازیں وادی کشمیرمیں انجینئرنگ پوسٹ گریجویٹ ڈگری یافتہ نوجوانوں کی تعداد4500 ہے جبکہ انجینئرنگ ڈپلومہ ہولڈروں کی تعداد8500 ہے ۔6980 پی جی نوجوان (آرٹس) مضمون اور4094 پوسٹ گریجویٹ سائنس مضمون میں ڈگری یافتہ ہیں اورنوکریوں کے انتظارمیں ہیں۔مطلب صاف ہے کہ اب ریاست میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فوج تیارہوچکی ہے اورعام سی ملازمت کے لیے بھی ایم۔اے،بی۔ایڈ، نیٹ،ایم فل اورپی ایچ ڈی ،انجینئرنگ ،پی جی اورپی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ )جیسی بھاری بھرکم اسنادیافتہ نوجوان قطاروں میں کھڑے ہیں جوریاست میں بے روزگاری کی سنگین صورتحال کاواضح وکھلاثبوت ہے ۔

عمرعبداللہ کی قیادت والی سابقہ مخلوط حکومت نے بیوروکریٹوں،سیاستدانوں،ممبران قانون سازیہ کے اخراجات کوکم کرنے کے بجائے نوجوانوں کے مخالف نئی ریکروٹمنٹ پالیسی تشکیل دی جس کے تحت نئی بھرتی پالیسی کے نفاذکے بعدتعینات ہوئے ملازمین کوعارضی طورپرنہایت ہی قلیل تنخواہ پردس سال تک کام کرناتھا۔عمرعبداللہ کی تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوانوں کے ارمانوں کوچکناچورکرنے والی مذکورہ پالیسی کے خلاف عرصہ ڈیڑھ ماہ تک جموں یونیورسٹی کے طلباءاورریاست کے دیگرحصوں کے تعلیمی اداروں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوںنے احتجاجی مہم چلائی لیکن عمرعبداللہ سرکارکی طاقت کے سامنے معصوم نوجوانوں کابس نہ چلا۔عمرعبداللہ نے سرکارکے قیام کے وقت نوجوانوں کونئی ریکروٹمنٹ پالیسی کاتحفہ اپنے،بیوروکریٹوں،ممبران قانون سازیہ کے مفادات کومدنظررکھ کردیاتھا،اتناہی نہیں عمرعبداللہ سرکارنے اپنے ساتھیوں کوفائدہ پہنچانے کےلئے ممبران قانون سازیہ کی تنخواہوں کوایک ہی آن میں ایک لاکھ روپے فی ماہ تک پہنچادیاتھا۔اسے عمرعبداللہ کی ناعاقبت اندیشی اورمفادپرستی کی بھدی مثال نہ کہاجائے توکیاکہاجائے کیونکہ عمرعبداللہ کے دورحکومت میں عام آدمی کی پریشانیاں عروج پررہیں،ملازمین سڑکوںپررہے اورتعلیم یافتہ بے روزگارنوجوان ذہنی اضطراب کاشکارہوکرریہڑی تک لگانے پرمجبورہوئے۔سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ صاحب نے جہاںنوجوانوں کواپنی سرکارکے ابتدائی دِنوں میں نوجوانوں کی جذبات کومجروح کرنے والا ”نئی ریکروٹمنٹ پالیسی“کاجوتحفہ دیاتھاوہیںاس سے بھی بڑھ کربھدامذاق عمرعبداللہ نے اپنی سرکارکے آخری دِنوں میں اپنی پارٹی کوسیاسی فائدہ پہنچانے کی غرض سے نوجوانوں کوایک اورتحفہ ملازمین کی ریٹائرمنٹ عمرمیںدوسال کی توسیع یعنی 58سے 60سال کرکے دیا۔پارلیمانی انتخابات میں جب نیشنل کانفرنس اوراس کی اتحادی جماعت کانگریس کے تینوں اُمیدوارشکست سے دوچارہوئے توعمرعبداللہ صاحب نے آناًفاناً میں کچھ ہی عرصہ بعدمنعقدہونے والے اسمبلی انتخابات میں ملازمین سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی خاطران کے حق میں ریٹائرمنٹ کی عمرمیں توسیع کافیصلہ صادرکردیا،یہی نہیں سابقہ وزیراعلیٰ صاحب کوسیاسی مفادعزیزتھااس لیے انہوںنے ایک تیرسے دوشکار(ملازمین اوربے روزگارنوجوان )کرنے کی نہ صرف مشق کی بلکہ عملی طورپرکارنامہ بھی انجام دیا۔ہوایوں کہ پارلیمانی انتخابات کے بعدجیسے ہی الیکشن کمیشن آف انڈیاکے نفاذشدہ مثالی ضابطہ اخلاق کاخاتمہ ہوا،تواس وقت کے وزیراعلیٰ موصوف نے کابینہ میٹنگ طلب کی جس میں انہوں نے ایک طرف اپنی ہی سرکارکی جانب سے تشکیل شدہ ’نئی بھرتی پالیسی ‘کوکالعدم کیااوردوسری طرف ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں دوسال کی توسیع کافیصلہ کیا،جوکہ ایک تیردوشکارکے مترادف ہی کہاجاسکتاہے کیونکہ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں دوسال کی توسیع کافیصلہ کرکے جہاں عمرعبداللہ نے ملازمین کوخوش کیاوہیں،اس فیصلے کے ذریعے انہوں(عمرعبداللہ)نے ملازمین دوست فیصلے کے ذریعے میٹھی چھری سے تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوانوں کوہلال کرتے ہوئے ان کاگلہ بھی کاٹنے سے گریزنہ کیا۔صاف ظاہرہے کہ سیاسی فائدہ اُٹھانے کی خاطر عمرعبداللہ نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ عمرمیں دوسال کااضافہ کرکے بے روزگاری کومزیدپروان چڑھایاکیونکہ آئندہ دوسالوں میں جوسرکاری محکموں میں اسامیاں خالی ہونی تھیں وہ بھی خالی نہیں ہوسکیں گی ،یہ بات سمجھ سے بالاترہے کہ سابقہ حکومت نے نوجوان طبقہ جسے ریاست کی ریڑھ کی ہڈی تصورکیاجاتاہے اسے کمزورکیوں کیا؟۔ان ہی دِنوں سرکاری محکمہ جی اے ڈی (جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ )کی جانب سے اخبارات میں یہ خبرشائع کی گئی تھی کہ بے روزگاری کے خاتمہ کےلئے سروس سلیکشن بورڈ ودیگربھرتی اداروں کواگلے دوسال میں 1لاکھ اسامیاں پرکرنے کےلئے ریفرکی گئی ہیں جوکہ ریاست کے بے روزگارنوجوانوں کی ملازمت کےلئے راہ ہموارکریں گی۔یہ سرکاری بیان محض اخبارات کی شہ سرخی بن کرہی رہ گیا۔سرکاری محکموں میں عملہ کی سخت قلت ہے جس سے سرکاری کام کاج شدیدمتاثرہورہاہے مگراس کے باوجودعملے کی تعیناتی کاعمل کچھوے کی چال یااس سے بھی سست رفتاری سے چلتارہا۔کبھی کبھی توایسالگتاہے کہ بھرتی عمل چل ہی نہیں رہاہے۔محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی شدیدقلت ہے مگراساتذہ کی تعیناتی کے مجاذسروس سلیکشن بورڈکی سستی رفتاری سے ایساظاہرہوتاہے کہ یہ ادارہ نہایت ہی نااہل ہے کیونکہ ایک سال سے جموں ودیگرکچھ اضلاع کےلئے اساتذہ کی اسامیوں کےلئے لیے گئے انٹرویوزکی سلیکشن فہرستیں جاری نہ کی جارہی ہیں۔یہی نہیں چندروزقبل رمن شرمانامی آرٹی آئی کارکن کی جانب سے حق اطلاعات قانون کے تحت دائرکردہ عرضی کے جواب میں یہ بات منظرعام پرآئی ہے کہ اس بھرتی بورڈکے پاس ملازمین کی تعیناتی کےلئے واضح لائحہ عمل ہی نہیں اوریہ پالیسی ہی نہیں کہ کسی اسامی کےلئے نوٹیفکیشن کے جاری ہونے کے بعدکتنی مدت کے اندرانٹرویومنعقدکیاجاناضروری ہے اورانٹرویوکے بعدکتنے عرصے کے اندرسلیکشن فہرست کرناضروری ہوگا۔

یہ لمحہ فکریہ نہیں توکیاہے؟۔سابقہ مخلوط سرکارکی نااہلی کی واضح مثال جیل وارڈن کی اسامیوں کےلئے منتخب 1200کے قریب نوجوان ہیں جن کے انٹرویو2009 میں ہوئے تھے اورآج تک عرصہ چھ سال گذرنے کے باوجودوہ عرصہ ڈیڑھ سال سے سڑکوں پہ احتجاج کررہے ہیں۔عمرعبداللہ صاحب ! آپ نے بے روزگارنوجوانوں کوسڑکوں پہ احتجاج پہ مجبورکرکے نہ صرف ان معصوموں کی زندگیوں کیساتھ کھلواڑکیابلکہ ریاست کی خوشحالی میں بھی روڑے اٹکائے اورحماقت کاکھلم کھلاثبوت پیش کیا۔یہ الگ بات ہے کہ عمرعبداللہ سرکارنے اپنے دورحکومت میں کئی تاریخی فیصلے بھی لیے مگریہ بھی اندوہ ناک اورتلخ حقیقت وناعاقبت اندیشی ہے کہ انہوں(عمرعبداللہ) نے نوجوانوں کے مفادات کوزک پہنچانے کے سواکچھ نہ کیاگیا اورایک فیصلہ اگرنئی ریکروٹمنٹ پالیسی کوواپس لینے کاکیابھی تووہ جو،ان ہی کی حکومت کی دین تھااوراپنے ہی سیاسی مفادکی خاطرواپس لیاگیا۔عمرعبداللہ صاحب یہ بھی جانتے تھے کہ اگروہ نئی ریکروٹمنٹ پالیسی کوکالعدم نہ کرتے تونئے آنے والی وزیراعلیٰ جس کااندازہ انہوں نے قبل ازوقت ہی لگالیاتھاکہ مفتی محمدسعیدسعیدہوں گے اپنی حکومت کے قائم ہوتے ہی اس پالیسی کودفع کرکے اس کاساراکریڈٹ لے لیں گے اس کے خوف سے اورخودکریڈٹ لیکرسیاسی فائدہ بٹورنے کےلئے انہوں نے اس پالیسی کومجبوری میں کالعدم کرناپڑا ۔

سابقہ حکومت کی ناعاقبت اندیشی اورغیرسنجیدہ لائحہ عمل کے سبب آج اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اوراعلیٰ درجہ کی ڈگریاں (اسناد)رکھنے کے باوجود ریاست کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کےلئے سرکاری نوکریاں حاصل کرناجوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیاہے ۔ سیاسی لیڈران اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کوعام سی ملازمت کےلئے قطاروں میںکھڑادیکھ کربے روزگاری کے مسئلے پرتشویش توجتاتے ہیں مگرعملی طورپربیشترسیاستدان نوجوانوں کے مستقبل کے تئیں مخلص نظرنہیں آتے جوکہ سیاست جوکبھی عوامی خدمت کابہترین شعبہ ہوتاتھاکے تنزل کی علامت ہے۔ریاست میں بے روزگاری عروج پہ پہنچنے کے سبب سماج بے آسودگی کاشکارہے ،سماجی معیشت کاگراف نہایت ہی نیچے چلا گیاہے۔نوجوان کنبہ کاپیٹ پالنے ،والدین کے ارمانوں کوپوراکرنے کےلئے سماجی برائیوں جن میں منیشات،نشہ خوری،ڈاکہ زنی، اوردیگرقسم کی برائیوں وجرائم پیشوں کواپنانے سے بھی گریزنہ کررہے ہیں۔

مقابلہ جاتی اورتیزرفتاردورمیں بھی بعض نوجوان صرف ڈگریاں حاصل کرنے میں مصروف ہیں اورہنرسیکھنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔ایسے نوجوانوں سے راقم یہ کہہ دیناچاہتاہے کہ موجودہ دور میں ہنر کے بغیر انسان کا زندگی کاگذارہ کرنا نا ممکن ہے۔ہنر چاہے جیسابھی ہو! انسان کو بھوکا نہیں مرنے دیتا۔ ہنر سے انسان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ہنر سے انسان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔اور وہ معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل بنتا ہے۔کم ہمت ، کاہل اورمحنت سے دوربھاگنے والے بزدل کہلاتے ہیں اورجومحنت سے کام لیتے ہیں ہنرکواپنے اندرسمولیتے ہیں اُن میں بردباری ، خوداعتمادی اُن لوگوں کے برعکس زیادہ ہوتی ہے جومحنت سے دوربھاگتے ہیں۔ایسے بے شمارنوجوان ہیں جنھوں نے نہ صرف اپنے کنبوں کوہنرسیکھ کراپنے کنبوں کوخودکفیل بنایابلکہ اپنے مستقبل کوبھی روشن بناکرترقی کے زینوں کوسرکیا۔

ریاست کے تعلیم یافتہ بے روزگاراگرخودکوباہنربنالیں تووہ نہ صرف خوشحال ہوجائیں گے بلکہ ریاستی سرکارکوبے روزگاری کے سنگین مسئلے سے نمٹنے میںمددگارثابت ہوں گے۔

قابل اوردوراندیش وزیراعلیٰ مفتی محمدسعیدکی قیادت والی نئی ریاستی سرکارکے سامنے بہت سے چیلنجزہیں جن میں سے ایک اہم اورسنگین چیلنج بے روزگاری کامسئلہ ہے جس سے نمٹنے میں ریاست کی خوشحال کارازبھی مضمرہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی حکومت حقیقی معنوں میںنوجوانوں کوملازمت فراہم کرنے کے عمل میں تیزی لائے تاکہ خدادادصلاحیتوں سے مالامال نوجوان سماج اور ریاست کی تعمیروترقی میں اپنے کردارکوخوشی خوشی انجام دینے میں مصروف ہوجائیں ۔ایساہونے کی صورت میں جہاں ریاست کی معیشت میں بہتری آئے گی وہیںہرگھربھی خوشحالی کی نعمت سے مالامال ہوجائے گا۔وزیراعلیٰ مفتی محمدسعیدکوچاہیئے کہ وہ نوجوانوں کوروزگارفراہم کرنے کےلئے خودروزگارسکیموں کے زمینی سطح پرنفاذکویقینی بنائیں،بے روزگاروں کوہنرسکھانے کے اداروں کومتحرک کرکے انہیں باروزگاربنانے کی سمت اقدام اُٹھائیں،کرپشن سے مبرا بھرتی عمل کویقینی بناناچائیں،سروس سلیکشن بورڈکے پاس موجوداسامیوں کوجلدازجلدپُرکریں ،اورسرکارکوتعاون نہ دینے والے آفیسران کیخلاف ٹھوس کاروائی عمل میں لائیں،ترقیاتی پراجیکٹوں میں بیرونی ریاستوں کے نوجوانوں کے بجائے مقامی نوجوانوںکوروزگارکی فراہمی کویقینی بنایاجائے۔

مفتی محمدسعیدکی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے مستقبل کے تئیں سنجیدہ پالیسی نہ صرف ان کے شانداروسنہرے مستقبل بلکہ ریاستی کی خوشحالی کا بھی ضامن ثابت ہوگی ۔اگرنئی حکومت نے بھی نوجوانوں ،نیزسماج وریاست کے مستقبل کوخوشحال وخوشنمابنانے کی کوشش نہ کی تومستقبل کاتاریخ دان وزیراعلیٰ مفتی محمدسعیدکوبھی نوجوان، سماج اور ریاست کے خوشحال مستقبل کے دشمنوں میں شامل کرے گا۔مجھے اُمیدکامل ہے کہ مفتی محمدسعیدصاحب اپنی قائدانہ صلاحیتوں کوبروئے کارلاکردیگر مسائل کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کے سنگین مسئلہ کاتدارک کرکے تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوانوں کوذہنی وقلبی سکون عطاکریں گے۔

پی ڈی پی اوربی جے پی جب عمرعبداللہ کی قیادت والی حکومت میں حزب اختلاف کاکردارنبھارہی تھیں تب یہ دونوں جماعتیں عمرعبداللہ سرکارکی عوام مخالف پالیسیوں کوہدف تنقیدبنانے کےلئے حزب اقتدارنیشنل کانفرنس ۔کانگریس کے عیب ڈھونڈے میں ہمہ تن مصروف رہتی تھیں اورسرکارکوہدف تنقیدبنانے کاکوئی موقعہ نہ گنواتی تھیں۔ پی ڈی پی اوربی جے پی آج حزب اقتدارجماعتیںہیں تواس لیے دونوں جماعتوں کے قائدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بے روزگاری کے مسئلہ ودیگرچیلنجزسے نمٹنے کےلئے ٹھوس حکمت عملی اپنائیں تاکہ انہیں حزب اختلاف کی تنقیدکاشکارنہ ہوناپڑے ۔نئی حکومت کوچاہیئے کہ وہ اپنی پالیسیوں کاخودمحاسبہ کریں ۔اس لیے نئی حکومت کی نذریہ شعرکرکے اپنی بات کوسمیٹتاہوں۔
عیب اوروں میں ڈھونڈنے والو
اپنے گھرمیں بھی آئینہ رکھنا(بیتاب )

Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 58087 views Ehsan na jitlana............. View More