خوف
(Shahid Shakeel, Germany)
خوف ہر ذ ی روح میں پایا جاتا ہے
انسان کبھی کبھی انجانی اور ان دیکھی چیز کے بارے میں سن کر بھی خوفزدہ ہو
جاتا ہے، مثلاً اگر کسی نے کبھی ہوائی سفر نہیں کیالیکن خوف ہوتا ہے کہ اگر
میں سفر کروں گا تو طیارہ گر جائے گا یا ایبولا وائرس کا نام اور اس کے
اثرات سن کر بھی خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کہیں مجھے یہ بیماری نہ
چُھوئے یا جنگ شروع ہوگئی تو کیا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ
دور میں ہر شخص ان چیزوں سے خوفزدہ ہے لیکن انسان یہ نہیں جانتا کہ کون سی
چیز واقعی خطرناک ہے کئی بار محض دوسروں کی باتوں پر یقین کرنے یا دیکھا
دیکھی خوفزدہ ہو کر اپنی زندگی کو وبالِ جاں بنالیتا ہے،انسان کی سوچ اور
اسکی ذہنی صلاحیت پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر نے تفصیل سے ایک جرمن میگزین
کو انٹرویو میں بتایا کہ اصل میں ہمارا دماغ خطرات کا اندازہ لگاتا ہے
کیونکہ سوچنے کا عمل اکثر آسان ہوتا ہے اور بیشتر افراد صرف منفی سوچ کے
ذریعے اپنے دماغ کو دباؤ میں لانے کے بعد ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتے
ہیں، انسان صرف روز مرہ زندگی میں رونما ہونے والے اَ ن گنت واقعات کو
دیکھنے اور سننے کے بعد محض اندازہ لگاتا ہے کہ وہ واقعی فلاں فلاں چیز سے
خوفزدہ ہے،مثلاً طیارہ کریش ہو گیا، ایبولا بیماری پھیل رہی ہے،دہشت گردی
یا دل کا دورہ پڑ گیا وغیرہ وغیرہ کئی افراد سے مختلف مقامات پر جب یہ سوال
کیا کہ آپ کس چیز سے خوفزدہ ہیں تو اکثریت کا جواب تھا کہ جنگ اور مہلک
بیماری ہمیں خوفزدہ کرتی ہے ۔
سٹٹ گارٹ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر نے تفصیلاً بتایا کہ ہمارا
دماغ سست ہے اور ہم اکثر غلط اندازے لگاتے اور ان چیزوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں
جنہیں میڈیا کے ذریعے ہمیں دکھایا جاتا ہے اور انہیں اپنے ذہن میں بٹھا
لیتے ہیں دماغ کی سست روی کی وجہ سے ہی اسے باآسانی متاثر کیا جاتا ہے اور
ہم محض غلط اندازے لگاتے اور خوف میں مبتلا رہتے ہیں دماغ کی سستی ایک اہم
وجہ ہے کہ ذہن کو قابو نہیں رکھ پاتے کیونکہ دماغ ٹرِک استعمال کرتا اور
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ضبط کرتا ہے کومپلیکس میں مبتلا ہو نے کے سبب ہم
اکثر بے ترتیبی میں زندگی گزارتے ہیں مثال کے طور پر ایبولا وائرس کے بارے
میں جب یہ سنا کہ اس بیماری کے پھیل جانے سے ستر فیصد افراد موت کا شکار ہو
چکے ہیں تو سب خوف میں مبتلا ہو گئے کہیں یہ بیماری ہم پر نہ اٹیک کرے
حالانکہ یہ محض ایک اندازہ ، شک ، وہم یا خوف سے زیادہ کچھ نہیں،روز مرہ کے
بے وقعت خطرات کا بھی ہم غلط اندازہ لگاتے ہیں کہ کسی بھی عمل کے ہم ذمہ
دار نہیں لیکن اگر یہ آفت ہم پر آن پڑی تو کیا ہوگا،محض منفی سوچ کے نتیجے
میں ہم لوگ خوف میں گھرے رہتے ہیں ،جیسے کہ ورزش نہ کی تو موٹے ہو جائیں
گے،سموکنگ کرنے سے کینسر ہو سکتا ہے ،اور یہ بھی ہمارے سست ذہن میں کئی بار
گردش کرتا ہے کہ ایک نوے سالہ عمر رسیدہ انسان تمام زندگی سموکنگ کرتا رہا
لیکن اسے کینسر نہیں ہوا ،فٹنس نہ کرنے سے دوچار کلو وزن بڑھ جانے سے صحت
پر کوئی اثر نہیں پڑے گا وغیرہ ،اصل میں ہمیں ان چیزوں سے خطرہ یا خوف لاحق
ہونا چاہئے نہ کہ ایبولا وائرس اٹیک سے یا پلین کریش سے ،دماغ کی سست روی
ہمیں انہیں ان دیکھی چیزوں کی طرف مائل کرتی ہے اور ہم سوچے سمجھے بغیر ہر
اس بات پر یقین کرتے ہیں جن سے شاید زندگی میں کبھی واسطہ ہی نہ پڑے۔
مثال کے طور پر اگر آپ حفاظتی انجیکشن نہیں لگوائیں گے تو یہ خطرے کی گھنٹی
ہے نہ کہ اس بات پر آنکھیں موند کر یقین کر لینا کہ فلاں فلاں نے ساری
زندگی ٹیکہ نہیں لگوایا اسے کچھ نہیں ہو ا تو مجھے کیا ہو گا،پروفیسر کا
کہنا ہے سو دو سو سال قبل ایسی بیماریاں نہیں تھیں جتنی آج ہیں اور انسانی
زندگی کو بچانے یا طویل عمر تک زندہ رہنے کیلئے چند مفید عوامل کا سہارا
لینا اشد ضروری ہے جیسے کہ پولیو کے قطرے یا خسرہ سے بچاؤ کے لئے ویکسین یا
انجیکشن کا استعمال،دوسری مثال نفسیاتی میکانزم کے بارے میں کہ سوائین فلو
یا برڈ فلو کے پھیلاؤ سے خوفزدہ ہو کر کئی ممالک میں ویکسین اتنی زیادہ
استعمال کی گئی کہ مینو فیکچرنگ کمپنیز کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس
بیماری میں سوائے چند افراد کے کوئی انسان مبتلا نہیں ہوا لیکن ساری دنیا
اس خوف میں مبتلا ہو گئی کہ اگر میں اس بیماری کی زد میں آ گیا توکیا ہو گا،
اسی طرح ہوائی سفر بھی انسانی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے،اگر میں کسی طیارے
میں سفر کروں اور وہ گر جائے تو میں مر جاؤنگا اور یہ خوف انسانوں کو ہوائی
سفر کرنے سے روکتا ہے حالانکہ دنیا بھر میں ہزاروں طیارے فضا میں محو پرواز
اور لاکھوں انسان اس لوہے کے بھوت میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں لیکن انسان کی
نفسیات ہے کہ اگر ایک بار منفی چیز کے بارے سن لیا یا دیکھ لیا تو ہمیشہ
کیلئے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو ہر انسان کی زندگی ہر پل ہر لمحے خطرات اور خوف میں گھری ہے
اور خطرات مول لئے بغیر جیت ناممکن ہے اگر ہر انسان یہ سوچنے لگے کہ خطرہ
ہے خوف ہے تو کوئی ہوائی سفر نہ کرے گا نہ کار ڈرائیو کرے ، نہ بذریعہ لفٹ
دسویں منزل پر جائے ، نہ ٹرین میں سفر کرے ، تو دنیا کا کاروبار ٹھپ ہو
جائے گا اور ویسے بھی موت تو ایک ہی بار آنی ہے وہ طیارے کے کریش سے ہو،
ایبولا سے ہو، دہشت گردی سے ہو ،سیڑھیاں چڑھتے اترتے ہو ، گھر بیٹھے بٹھائے
، کسی ناگہانی آفت سے حتیٰ کہ کسی بیماری میں مبتلا ہوئے بغیر موت کہیں بھی
اور کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔
|
|