ان سے جان کب چھوٹے گی

مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش)کا مغربی پاکستان (پاکستان) کی کرکٹ ٹیم کے خلاف کلین سویپ ۔یہ خبر اگر دسمبر 1971 سے قبل ملتی تو دکھ ہوتا نہ رنج ۔کھیل اور جنگ میں ہارجیت ہوتی ہے لیکن اگر ورلڈ چیمپئن کو گلی کے لڑکے پچھاڑ دیں تو سمجھو ’’شہر کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے‘‘

اب تو پاکستانی کھیلوں کے معتبر اور معزز مدبر بھی صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں اور تکلف برطرف چار و ناچار اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بلبلا اٹھے ہیں ،کوئی عذر تلاش نہیں کر پاتے بس یہ کہہ کر رہ گئے کہ وہ ہارنے کے لیے کھیلتے ہیں اور پوری قوم کو رسوا کرتے ہیں اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں مناسب سزا کے بعد ان تمام کھلاڑیوں کو کھیل سے ہمیشہ کے لیے بین کر دیتا اور نہ صرف کھیل کے میدان ان کے لیے ممنوع کر دیتا ان کو ان کے کیے کی یہ سزا بھی دیتا کہ ان سے وہ تمام شاہانہ اخراجات واپس وصول کرتا جو قومی خزانے سے شکریے کے ساتھ ان پر خرچ کیے گئے ہیں۔

ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے مگر معلوم ہوتا ہے ہمارے کھلاڑیوں کی کوئی حد نہیں ہے اور قوم و ملک کی رسوائی کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور جا بھی چکے ہیں۔ ان کا رویہ بالکل ہی ناقابل فہم ہے اور معلوم نہیں وہ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس میں نہ تو کوئی شرم و حیا کی رگ موجود ہے اور نہ ہی بے حیائی کی کوئی حد ہے۔ ہمیں ایسا کرکٹ نہیں چاہیے جو کھیل کی جگہ قوم سے کسی انتقام کا ذریعہ بن جائے۔
جب کبھی کوئی کرکٹ کو سمجھنے والا اچھا مینجر ملے گا اور وہ مناسب ٹیم تیار کر سکے گا تو پھر باقاعدہ کرکٹ بھی کھیل لیں گے تب تک یہ گلی کوچوں والا کرکٹ ہی بہت ہے۔ لکھتے لکھتے خیال آیا ہے کہ ان کھلاڑیوں کا نفسیاتی معائنہ بھی کرانا چاہیے کہ ان کے اندر اس قدر لاپروائی کا عنصر کیوں اور کیسے پیدا ہو گیا تھا۔ یہ یوں بھی ضروری ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی نفسیات کیا بن رہی ہے اور کیوں بن رہی ہے۔ کئی بے معنی اور فضول قسم کی وزارتوں میں ایک با مقصد یعنی وزارت نفسیات اور ذہنی و باطنی کیفیات بھی بنا دینی چاہیے۔

71ء میں بنگلہ دیش کسی افریقی ریاست کا منظر پیش کرتا تھا ۔مفلسی بیچارگی کا نمونہ۔آج 45سال بعد بنگلہ دیش ہر میدان میں ہم سے آگے ہے۔صنعت میں بھی حتیٰ کے پاکستانی صنعت کار اور سرمایہ کار بھی وہاں منتقل ہو رہے ہیں۔

لوڈشیڈنگ کا عفریت وہاں بھی ہے لیکن دورانیہ 4 سے 8 گھنٹے تک مشتمل ہے۔بجلی چوری کا وہاں تصور نہیں۔ ٹیکس چوری بھی ہوتی ہے مگر ٹیکس چوروں کو محفوظ اور باعزت راستہ دینے کے لیے قواعد میں سقم نہیں رکھے جاتے۔با اثر شخصیات قرضے لے کر معاف نہیں کراتی۔قوانین پر بلا امتیاز عمل درآمد ہوتا ہے۔اگرچہ مخالفین کے خلاف قانون کا اندھا دھند استعمال بھی ہوتا ہے، سیاسی لیڈر قتل بھی ہوتے ہیں ۔
ایسا نہیں کہ وہاں اسٹیبلشمنٹ کا وجود عنقا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ قومی مفاد کو سامنے رکھتی ہے۔سیاسی انتقام بھی ہے مگر ملکی مفاد کی قیمت پر نہیں۔ وہاں صحت وتعلیم کا نہ صرف بجٹ ہم سے زیادہ ہے بلکہ معیار بھی بلند ہے۔

آج پاکستان میں ڈالر سو روپے سے مہنگا جب کہ بنگلہ دیش میں78.24ٹکے کا ہے۔ٹکا کی قدر ہمارے روپے سے زیادہ ہے۔ان کے77.15ٹکے پاکستانی سو روپے کے برابر ہے۔اشیاء صرف کے نرخ پاکستان کی نسبت دو تہائی کم ہیں۔صنعت کاروں ،سرمایہ کاروں،منافع خوروں،ذخیرہ اندوزوں یہاں تک کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھی من مانی کی اجازت نہیں۔جو بجلی ہم پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز سے 30روپے یونٹ حاصل کر کے انھیں سبسڈی بھی دے رہے ہیں۔

ڈھاکا کے میدان میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا اس پر دانتوں میں انگلیاں دبانا خود فریبی ہو گا۔ضرورت روش بدلنے،سوچ تبدیل کرنے اور ترجیحات میں انقلاب لانے کی ہے۔ذات،سیاست،حکومت ،مفادات سے قطع نظر قومی منصوبے بنانے کی ہے۔فرقہ وملک،زبان وصوبے،پارٹی اور حکومت کی سیاست کو دفن کر کے ملک اور قوم کو فوقیت اور ترجیح دینے کی ہے۔
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 257170 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More