چوہدری سیانا تھا
(Shah Faisal Naeem, Lahore)
گاؤں میں عام طور پر گھر کچے ہوا
کرتے تھے ، دیواریں مٹی کی بنائی جاتی تھیں، گھر میں اگر کوئی مٹی کی ہنڈیا
پڑی ہوتی تو وہ بھی دیوار میں لگا دی جاتی ، اس سے دیوار کی خوبصورتی میں
اضافہ ہوتا ہے یہ اُس وقت کے لوگوں کا خیال تھااور جب یہ ہنڈیا ٹوٹ جاتی تو
دیوار میں پڑا سوراخ گھر سے باہر ہونے والے واقعات کو دیکھنے میں اہم کردار
ادا کرتا مگر آج وہاں بھی جدت اپنا آپ ظاہر کر چکی ہے۔ اب گاؤں میں ایسے
مناظر کم ہی ملتے ہیں ۔
یہ بھلے زمانے کی بات ہےکہ ایک گاؤں میں کسی شخص نے بکرا پال رکھا تھا اس
نیت سے کے عیدپر اسے قربان کرے گا۔ ایک دن وہ شخص بکرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ
کر رہا تھا کہ بکرا بھاگتا ہوا اُس کے طرف آیا وہ شخص سامنے سے ہٹ گیا ،
بکرا سامنے دیوار میں لگی مٹی کی ہنڈیا سے ٹکرایا اور اُس کی گردن ہنڈیا
میں پھنس گئی۔
اب غریب بندے کو پریشانی نے آ لیا کہ بکرا کس طرح بچائے، وہ اپنی کوشش کرتا
رہا مگر اُ س کی سب تگ و دو اکارت گئی ۔۔۔۔ اتنے میں لوگ اکھٹے ہوگئے اور
مشورے دینے لگے ۔۔۔۔لوگوں میں سے ایک سیانے نےمشورہ دیا کہ دیوارگرا دو
۔۔۔۔۔اس طرح بکرےکی گردن باہر نکل سکتی ہے۔۔۔۔اُس کے کہنے پر دیوار گرا دی
گئی ۔۔۔۔مگر ہنڈیا ابھی بھی بکرے کی گردن پر تھی ۔۔۔۔مسئلہ تو وہیں کا وہیں
رہا۔۔۔۔۔لوگوں نے سوچ سمجھ کر غریب آدمی کو کہا کہ بکرے کو گاؤں کے چوہدری
کے پاس لے جاؤ ۔۔۔ اب وہی ہے جو تمہاری مشکل کا حل نکال سکتا ہے۔ غریب آدمی
بکرا لے کر چوہدری کی حویلی چلا گیا۔اب وہاں بھی لوگوں کا رش ۔۔۔۔جو یہ
دیکھنےکےلیے جمع ہے کہ چوہدری کس تکنیک کا استعمال کرے گا ؟ جب معاملہ
چوہدری کو بتا یا گیا تو چوہدری نےایک چُھری منگوائی اور بکرے کو ذبح کر
دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِدھر بکرا ذبح ہوا اور اُدھر غریب آدمی کے دل پر چُھری چل
گئی۔۔۔۔مگر کیا کرتا بیچارہ ۔۔۔۔۔لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: "چوہدری
صاحب! بکرا تو آپ نے ذبح کر دیا ہے مگر گردن ابھی تک ہنڈیا میں"؟
چوہدری گویا ہوا: "ابھی کام ختم نہیں ہوا"۔
چوہدری نے اپنے نوکر کو آواز دی :"خیرے! جاؤ اندر سے ہتھوڑا لے کر آؤ "۔
خیرا جلدی جلدی گیا اور ہتھوڑا لے آیا ۔ چوہدری صاحب نے ہتھوڑے سے ہنڈیا پر
ٹھوکر لگائی اور ہنڈیا ٹوٹ گئی۔ ہنڈیا ٹوٹتے ہی گردن باہر آگئی ۔چوہدری نے
غریب آدمی کو پاس بلایا اور لوگوں کی توجہ حاصل کرتے ہوئے کہنےلگا:"دیکھو
بھائی ! یہ میرا ہی کمال ہے کہ میں نے ہنڈیا میں سے آپ کی گرد ن نکال دی
کسی اور کے پاس جاتے تو گردن ہنڈیا سے باہر نا آتی"۔
یہ بات سن کر کچھ لوگوں نے چوہدری زندہ باد کے نعرے لگائے اور کچھ چوہدری
کو بُرا کہتے ہوئے واپس لوٹ آئے مگر مارا گیا بیچارہ غریب اور جان سے گیا
اُس کا بکرا۔
پہلے تین چار تک تو اُسے سوچنے کا موقع ہی نا ملا کچھ کرنا تو دور کی
بات،ابھی کوئی دو سال باقی تھے کے کسی خیر خواہ نے اُسے بتا یا کے ہمارے
پاس زیادہ وقت نہیں بچا اگر اب بھی کچھ نا کیا گیا تو تمہارا اگلا ٹھکانہ
جلا وطنی سے بھی بدتر ہوسکتا ہے جو ایوانِ اقتدارسےدوری اور عوام کی نفر ت
کی صورت میں ظہور پذیر ہو گا۔ پھرایک وقت آیا جب اُس کے بارے میں یہ الفاظ
زبانِ زدِعام ہونے لگے :
"وہ کام پہلے شروع کر دیتا ہے اور سوچتا بعد میں ہے"۔
اُس نے بغیر سوچے سمجھے ایسے ایسے منصوبوں کا سنگِ بنیادرکھا جن کے باعث وہ
عوام کی آنکھ کا تارا بن گیا اور بعد کی تنقید کا نشانہ بھی۔جیسے جیسے
الیکشن کا وقت قریب آتا گیا اُس کے شروع کردہ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچتے
گئے۔عوام کی بدقسمتی یہ کے اُنہوں نے ظاہری چیزوں پہ یقین کر کےاُسے پھر سے
اپنا حکمران چن لیا۔
اب کچھ حقائق کی طرف آتے ہیں پہلےسڑکوں کو وسیع کرنےپر اربوں روپے خرچ کئے
گئے ، انڈرپاس اور فلائی اورز کو بھی وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے اس ضرورت کو
بے تحاشا پورا کیا گیا۔الیکشن کے بعد حکمرانوں کو یاد آیا کے جہاں سڑکوں کا
جال بچھایا گیا ہے وہاں زیرِ زمین پائپ ڈالنا تو ہم بھول ہی گئے ہیں لہذا
سڑکوں کو پھر اکھاڑا جائے اور پائپ ڈال کر پھر سے ازسرِ نو تعمیر کیا
جائے۔۔۔۔۔۔۔ بعد جگہ سڑکوں کی وسعت ٹریفک کے سمندر کو اپنے دامن میں سمونے
میں ناکام ثابت ہوئی تو وہاں پر بھی سڑکوں کو اکھاڑدیا گیا اور فلائی اورز
بنانے کا حکم نامہ جاری ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں پر ٹریفک کا ہجوم نہیں بھی تھا
وہاں پر بھی مقروض عوام کے دکھ کم کرنے کے لیے بھیک میں ملنے والی اربوں
ڈالر کی خیرت سےتعمیر کردہ سڑکوں کو اکھاڑ کر میٹرو بس کا ٹریک بچھا دیا
گیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی ٹریفک کا ہجوم
ویسے کا ویسے ہی ہے ۔آج بھی آپ کو اپنی منزل پر پہنچے کے لیے گھنٹوں ٹریفک
میں ذلیل ہونا پڑتا ہے ۔
مگر اس پر کسی نے کبھی کوئی آواز نہیں اُٹھائی ۔۔۔۔۔۔۔کبھی کسی نے نہیں
پوچھا کے غریب عوام کے پیسے کو اس طرح کیوں بربادکیا جارہا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ اگر کچھ کرنے سے پہلے سوچ لیا جائے تو اُس کے اچھے
نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مجھے وہ گاؤں کا چوہدر ی ان حکمرانوں سے زیادہ
اچھا لگتا ہے جس نےاگرچہ اچھا نہیں کیا تھا لیکن اُس نے درمیانی راہ اختیار
نہیں کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔حکمران چوہدری سے بھی بُرے ہیں جو نا تو عوام کو مرنے
دیتے ہیں اور ناہی جینے ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عوام کو اس حال میں رکھتے ہیں کہ یہ لوگ
زندہ آنکھوں سےروز اپنی موت کا تماشہ دیکھیں اور یونہی مر مر کر
جیئے۔۔۔۔۔۔!
وقت گزر چکا ہے مگر ماضی میں ہوئی باتیں آج بھی حال کو سمجھنے میں کارگر
ثابت ہو رہی ہیں۔
|
|