خیبرپختونخوا:بارش متاثرین بے یارومددگار....مداوا کون کرے گا؟

ہمارے تمام محکموں اور صوبائی حکومتوں کا المیہ ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں سے ہمیشہ پہلو تہی برتتی ہیں۔ نہ تو کسی آفت کے آنے سے پہلے منصوبہ بندی کرتی ہیں اور نہ ہی بعد اپنی ذمہ داری ادا کرتی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں بارشوں سے ہونے والی تباہی اور بے یارومددگار مشکلات میں گھرے متاثرین کی حالت زار اس کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔ گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا میں طوفانی بارشوں نے زبردست تباہی مچائی، جس کے نتیجے میں 50 افراد جاں بحق ہوئے اور 210افرادز خمی بھی ہوئے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے پیشگی اطلاع دیے جانے کے باوجود حکومت اور ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی، جس سے زیادہ نقصانات کا باعث بننے والے اسباب کا سدباب کیا جاتا اور پیشگی منصوبہ بندی نہ کیے جانے کی وجہ سے متعدد بجلی کے کھمبوں اور 1500 سائن بورڈز، 5 سو درخت گر گئے، جبکہ ٹرانسفارمروں اور درختوں کے گرنے کے باعث 70 سے زاید گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے اور ایک ہزار سے زاید گھر مکمل طور پر تباہ بھی ہوئے ہیں۔ ژالہ باری اور بارش کے باعث خیبرپختونخوا کے متعدد علاقوں میں سبزیوں ، فروٹ کے باغات کے علاوہ گندم کی تیارفصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اگر پہلے سے سائن بورڈز وغیرہ کی نشاندہی کر کے منصوبہ بندی کی جاتی اور متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری ادا کرتے تو کافی حدتک نقصانات میں کمی لائی جاسکتی تھی۔ زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بارش میں بڑے پیمانے پر تباہی ہونے کے باوجود بھی صوبائی حکومت اور متعلقہ ادارے اپنی ذمے داری سے پہلو تہی برت رہے ہیں۔ بارش متاثرین تاحال امداد کے منتظر ہیں، لیکن انہیں ضرورت کے مطابق امداد فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ طوفانی بارشوں کے بعد خیبرپختونخوا کے متعدد علاقے تباہی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں طوفانی بارشوں اور ژالہ باری سے تباہ ہونے والے گھروں ، جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کے بارے میں ابتدائی رپورٹ کے مطابق اتوار کے روز ہونے والی تباہ کاریوں کے باعث جلوزئی کیمپ کے ڈھائی ہزار سے زاید خیمے مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں اور متاثرین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ خیبرپختوانخوا میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے بعد تاحال متاثرین بے یارومددگار کھلے آسمان تلے حکومتی امداد کے منتظر ہیں اور منہدم گھروں کے غریب متاثرہ مکین اپنی مدد آپ کے تحت ملبے تلے سے اپنا بچاکچا سامان اکٹھا کرتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے متاثرین کے لیے کیے گئے امداد کے دعوے ابھی تک صرف دعوے ہی نظر آتے ہیں۔ تاحال بجلی بحال نہیں ہو سکی اور بجلی نہ ہونے سے پانی کی بھی قلت پیدا ہو گئی ہے، جس سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے طوفانی بادوباراں کے پہلے روز کمبل، خیمے اور اشیاءخوردونوش متاثرین کو فراہم کیں، لیکن اس کے بعد سے حکومتی اہلکار کہیں نظر نہیں آئے۔ طوفانی بارشوں اور تیز ہواو ¿ں نے ان کا سب کچھ ختم کردیا ہے۔ بارشوں سے بجلی اور مواصلات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے، جس کے باعث لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے فصلوں اور مکانات کے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے ڈی جی پی ڈی ایم اے کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دی ہے، لیکن ابھی تک اس پر کام شروع نہیں کیا گیا۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اجڑے گھر پھر سے بسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت ہمارے ساتھ ایسا تعاون نہیں کر رہی جیسا کہ ہونا چاہیے۔

ذرائع کے مطابق پاک فوج کی طرف سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق متاثرہ خاندانوں کو چیک پیش کیے ہیں اور پنجاب حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا میں بارشوں کے متاثرین کی امداد کے لیے بیس ٹرک امداد کے بیس ٹرک بھیج دیے گئے ہیں۔ امدادی سامان میں اشیائے خورد و نوش، ٹینٹس، مچھر دانیاں اور گفٹ ہیمپرز موجود ہیں۔ وفاقی حکومت کی طرف سے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ اور زخمیوں کو پچاس پچاس ہزار فی کس دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما و سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کےادورہ کیا۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خیبر پی کے میں حالیہ بارشوں اور جانی و مالی نقصان کے ازالے کے لیے متاثرین اور کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں اور دیگر صوبائی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ خیبر پی کے میں متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔ اگرچہ صوبائی حکومت بھی امدادی سرگرمیوں میں شامل ہوئی، لیکن خاصی تاخیر سے ہوئی۔ وزیر اعلی پرویز خٹک سے جب میڈیا کے ارکان نے تاخیر کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں، جو فوری پہنچ کر علاج معالجہ کرتا۔“ یہ درست ہے کہ صوبے کے وزیر اعلی کی بے حد مصروفیات ہوتی ہیں، تاہم جب ناگہانی صورتحال اور شہریوں کی ہلاکتوں کا معاملہ ہو تو تمام مصروفیات کو چھوڑ کر اسے ترجیح دینا لازمی ہوتا ہے۔ صوبے کی کلیدی شخصیت کے متحرک ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ ادارے بھی تیزی سے متحرک ہوتے ہیں اور متاثرہ شہریوں کی امداد میں آسانی ہوتی ہے۔ بیورو کریسی جب دیکھتی ہے کہ صوبے کا وزیر اعلی موقع پر موجود ہے تو نہ صرف اس کے تمام کل پرزے، بلکہ کابینہ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی فعال ہوجاتے ہیں۔ متاثرین نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کی بھرپور مالی امداد کی جائے، تاکہ وہ ایک بار پھر اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوسکےں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے متاثرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت خیبرپختونخوا ایک ہی دن میں تمام متاثرین کے مسائل حل نہیں کرسکتی ہے، لیکن کم از کم حکومت متاثرین پر توجہ تو دے۔ یہاں تو حکومت کی جانب سے کوئی توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے۔ متاثرین میں سے ایک کا کہنا تھا کہ بارشوں کے پہلے روز سے ہی ہم مشکلات کا شکار ہیں۔ نہ بجلی ہے اور نہ ہی پانی ہے۔ ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ایک نے بتایا کہ بارش کے روز جب میں اپنی زخمی بیٹی کو لے کر لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں پہنچا تو ابتدائی دوا دے کر ہمیں واپس کردیا گیا اور کہا گیا کہ ہسپتال میں تمام مریضوں کے لیے دوا نہیں ہے۔ حالانکہ ایسے حالات میں حکومت کی پوری ذمہ داری تھی کہ بارش کے فوری بعد ٹرانسپورٹ کا انتظام کر کے فوری طور پر زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا جاتا۔ متاثرین کے کھانے کا انتظام کیا جاتا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ متاثرین نے صوبائی حکومت، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سمیت متعلقہ اداروں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جلد ازجلد متاثرین کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
مبصرین کا کہنا تھا کہ صوبائی قیادت کی ذمہ داری تھی کہ طوفانی بارشوں میں عوام کے ساتھ فوری طور پر ہر قسم کا تعاون کرتی اورانہیں ہر مشکل سے بچانے کے لیے بھرپور کوشش کی جاتی، لیکن قیادت متاثرہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے فوری طور پر ان تک پہنچنے میں بری طرح ناکام رہی ہے، جس سے لوگوں کے غم میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ کسی بھی صوبے میں رہنے والے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے، جبکہ مصیبت کی گھڑی میں تو انسانی بنیادوں پر درد دل رکھنے والا ہر انسان بڑھ چڑھ کر خدمت کرتا ہے، لیکن افسوس کہ خیبرپختونخوا حکومت نے مصیبت کی گھڑی میں اپنی ذمے داری بھی ادا نہ کی اور متاثرین کو تنہا چھوڑ دیا۔ حق تو یہ بنتا تھا کہ خیبرپختونخوا میں برسراقتدار جماعت تحریک انصاف کے سربراہ بارشوں کی وجہ سے بھاری جانی ومالی نقصانات کے فوری بعد اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے خیبرپختونخوا عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے اور اپنی نگرانی میں کے پی کے حکومت کے وزرا اور افسران کو عوام کی خدمت میں لگادیتے، لیکن خان صاحب پیر کی صبح پشاور کے متاثرہ لوگوں کا پوچھنے کی بجائے عمران خان نے کرکٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے اسے حکومت کی نا اہلی قرار دیتے ہوئے تنقید کرتے رہے، جبکہ اس وقت ان کو پشاور کے متاثرہ لوگوں کے لیے دکھ کا اظہار کرنا چاہیے تھا اور حکومت کو امدادی کاموں میں تیزی لانے اور وزیراعلیٰ کو متاثرین تک پہنچنے کی ہدایت دینی چاہیے تھی، جو نہیں دی گئی، جب سوشل میڈیا پر لوگوں نے ان پر شدید تنقید کی تو پھر انھیں پشاور کے لوگوں کا کچھ خیال آیا۔ مصیبت کی اس گھڑی میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا تو 21گھنٹے بعد ہسپتال پہنچے تھے، جبکہ سربراہ پی ٹی آئی ان سے بھی دیر میں آئے۔ اسی وجہ سے ان پر تمام سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔ بلکہ ان کی اپنی پارٹی والے بھی ان پر تنقید کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے پارٹی کے افراد نے بھی پشاور میں بارشوں سے نقصان پر فوری طور پر عمران خان کے پشاور نہ پہنچنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو پہلے دن ہی پشاور میں پہنچ کر اپنا کیمپ آفس قائم کردینا چاہیے تھا۔ اگر عمران خان پیر کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ایک دن کے لیے نہ جاتے اور پشاور چلے جاتے تو اس میں کیا برائی تھی؟ دوسری جانب محکمہ موسمیات پشاور کے ریجنل ڈائریکٹر مشتاق علی شاہ کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں 30اپریل اور 3سے 5 مئی کے دوران ایک مرتبہ پھر بارش اور طوفان کا امکان ہے، اس لیے الرٹ رہنا ہوگا۔ ترجمان این ڈی اے احمد کمال نے کہا ہے کہ ”پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں تیز آندھی و طوفان کی پیشن گوئی ہے، جبکہ مون سون میں ابھی بھی شدید بارشوں کا امکان ہے۔“ محکمہ موسمیات کی جانب سے کے پی کے میں بارشوں کے حوالے سے کی جانے والی پیشن گوئی کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ صوبائی حکومت اور تمام متعلقہ اداروں کو ابھی سے منصوبہ بندی اور حفاظتی انتظامات مکمل کر لینے چاہیے، تاکہ بارشوں کی وجہ سے زیادہ نقصانات سے بچا جاسکے۔ پیشگی اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے کے پی کے میں صرف ایک دن کی بارش سے 50افراد جاں بحق اوردو سو سے زاید زخمی ہوگئے تھے، خدانخواستہ اگر متعلقہ اداروں اور حکومت نے ابھی بھی پیشگی منصوبہ بندی نہ کی تو آیندہ دنوں ہونے والی بارشیں بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700894 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.