حرمین شریفین کو کیا خطرہ تھا؟
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
سعودی عرب کارقبے کے لحاظ سے
عالم اسلام کے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے،اس کا دار الحکومت ‘‘ریاض’’ اور
مکہ مدینہ میں تقربیاً اتنا فاصلہ ہے جو گلگت اورکراچی میں ہے،ریاض شمال
مشرق میں ہے ،تو جدہ اور حرمین شریفین جنوب مغرب میں،ریاض کے قریب دوحہ،
منامہ،کویت،دبئی ،ابو ظبی اور مسقط ہیں،توجدہ اورحرمین کے قریب یمن کا صنعا
اور عدن ہیں،گویا سعودی اور دیگر خلیجی ریاستوں کے مراکز ِحکومت اگر جزیرۃ
العرب کے ایک کنارے پر ہیں، تو حرمین شریفین دوسرے کنارے پر ،نیزاگر ریاض
خلیجِ عرب پر ہے،تو حرمین کا محل وقوع بحرِ احمر پر ہے، ریاض مملکت سعودی
عرب کا سیاسی مرکز ہے،تو حرمین شریفین روحانی مراکز ہیں،ریاض اور حرمین کے
درمیان دور دراز تک ریت کا شہرۂ آفاق سینکڑوں کلومیٹر پر پھیلا ہوا بے
آب وگیاہ ریگستان ( الصحرا ءالکبریٰ ) ایک خلیج کی طرح حائل ہے،ایسی صورتِ
حال میں ظاہر ہے حرمین شریفین خلیجی ریاستوں بشمول سعودی عرب سے الگ تھلگ
ہمارے کراچی کے مانند ایک کونے میں واقع ہیں،یمن خلیجی ریاست نہیں ہے،وہ
اور اس کے بڑے شہر دیارِ مقدسہ کے قریب تر ہیں،بحرِ احمر کواگر ایک وسیع
دریا تصور کیا جائے،جس کے لبوں پر جدہ اور حرمین شریفین ہیں،تو اس کے اُس
پار جو ریاستیں واقع ہیں،وہ خود ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں،غربت،خانہ جنگیوں اور
بیرونی مداخلتوں نے وہاں تباہی مچائی ہوئی ہے،مثلاًصومالیہ میں خانہ
جنگی،جیبوتی میں غربت،ایتھوپیا میں عیسائیت،اریٹیریا میں کٹّر عیسائی
آمریت،سوڈان میں خانہ جنگی اور ملک کی دولختگی،مصر میں شورش،خلیجِ عقبہ
پرسعودی سرحد کے ساتھ مصری صحرائے سینا یا وادی سینا اور کوہِ طور میں داعش
،اب آپ مصر سے غزہ کی طرف آئیں،یہاں ‘‘فتح وحماس’’ رسہ کشی جوبن پر،
اوپرسے اسرائیل کا عفریت اس پر مستزاد،پڑوسی لبنان میں حزب اللہ کی
یلغار،خون ریزی اور دنگا وفساد، مملکت سعودی عرب سے سینکڑوں میل متصل سرحد
والا اردن 3 میں نہ13 میں،یہ وہ تمام علاقے ہیں جو بحری،یابری یا فضائی
حرمین تک قریب ترین رسائی رکھتے ہیں،یمن اور جدہ بحرِ احمر اور باب المندب
کے بھی نزدیک ترین ہیں،جو بین الاقوامی سمندری راستے ہیں، یمن کے پڑوس میں
سلطنتِ عُمان ہے،جو مذہباً خوارج ہیں،ایران سے ان کے قریبی تعلقات ہیں، یمن
کے معاملے میں وہ لا تعلق ہے،خلیج تعاون کونسل کو ایک مستقل اور فعّال
اتحاد بن جانےکے راستے میں وہ خاموش رکاؤٹ ہے۔
دوسری طرف عراق میں سعودی اور خلیجی ممالک نے استحکام بخشنے کے لئے صدام
حسین کی دامے ،درمے اور سخنے ہر طرح مددکی، مگر وہ پلٹ کر کویت پر حملہ
آور ہوا،سعودیہ کو بھی دھمکانے لگا،پھر اپنے آپ کو سنبھال سکا نہ اپنے
ملک کو، اس کے زوال کے ساتھ ہی ایران نےنجف وکربلا کی حفاظت کےنام پر وہاں
قدم جمالئے، فرقہ واریت پھیلائی،دیرینہ انتقامات لینے شروع کردیئے، صدام کو
ایک آمر کے بجائے ایک سُنّی ظالم حکمراں کے طور پر پیش کیا، اس سے مسائل
پیدا ہوئے، متحدہ عراق کو نوری مالکی نے شیعہ ،سنی اور کُرد میں تقسیم
کردیا،یہاں کچھ پیر جم جانے کے بعد ایران نے بحرین کا رُخ کیا ، وہاں کی
بادشاہت تبدیل کرنے کے درپئے ہوگیا،یہاں تک کہ بحرین کو اپنا ایرانی ایک
صوبہ قرار دے دیا، اس دوران شام میں بشار الاسد کے خلاف انقلاب شروع ہوگیا،
توایران نے اسے بھی اپنا صوبہ قرار دیا، وہاں اپنی فوجیں بھیجیں، حزب اللہ
کو بھی بلالیا، پاکستان اور افغانستان کے شیعوں کو بھی اسی راہ پر
لگادیا،دونوں طرف لاکھوں شامی مارے گئے، اور دسیوں لاکھ پناہ گزین
ہوگئے،بربادی بھی بہت بے تحاشاہوئی،تحریک پھر بھی چلتی رہی،تو عراقی میلشیا
کو بھی میدان میں اتاردیاگیا،وقفے وقفے سے ایران یہ اعلانات بھی کرتا
رہا،کہ اب عالمِ عربی کے اتنے اور اتنے دارالخلافے ہمارے کنٹرول میں
ہیں،بغداد ہمارے ‘‘پرشین امپائر’’ کا مرکز ہے،عراق اور یمن میں فارسی بھی
نافذ کی گئی،حرمین شریفین میں عنقریب جمعے پڑھانے کے بھی اعلانات ہوتے
رہے،پاکستان میں طاہر القادری کے توسط سے بہت کچھ ہونے کا تھا،اتنا سمجھنا
کافی ہوگا کہ قادری پاکستان کا حوثی تھا،القاعدہ رہنماؤں کی ڈوریاں بھی
ایران سے ہلائی جارہی تھیں،سوڈان اور اریٹیریا میں بھی بڑے بڑے مراکز قائم
ہوگئے تھے، نائجیریا تک اس بلا کےلپیٹ میں آنے کو تھا۔
سُنی اسلام کو طالبان،داعش اور بوکو حرام کے ذریعے بدنام کرکے انہیں مارنے
اور تباہ کرنے کے منصوبوں میں افغان جہاد کےزخم خوردہ روس جیسےممالک بھی
شامل تھے،عرب اسپرنگ سے وہاں کے نوجوانوں میں خوشی کی لہریں دوڑیں،مگر عرب
اسپرنگ کے مرکز مصر میں حکومت اخوان کی بنی،جنہوں نے ایرانی انقلاب کو ماڈل
تسلیم کرنا شروع کیا،احمدی نژاد کو ازہر کا دورہ کرایاگیا،ایرانیوں کے ساتھ
ویزوں میں نرمی ‘‘فری انٹری ’’ تک کردی گئی، اُدہر عربوں اور مسلمانوں پر
صدیوں خلافت کےنام سے ناکام حکومت کرنے والے عثمانی ترکوں کے پوتے جناب طیب
اردگان کو لیڈر ماننے لگے،امارات اور سعودی میں اخوان کو منظم کرنے
لگے،مرسی ایران کے دوروں پر جانے لگا،اِدہر سعودی اور خلیجی فورسز کوشام
وعراق کے دواعش کے خلاف باقاعدہ محاذ میں الجھایا گیا،اس تمام تر
‘‘سیناریو’’ میں علی عبد اللہ صالح نے ایران کے تعاون سے اپنے ہم مسلک زیدی
شیعوں کو خوب مستحکم کیا، تاکہ نجران اور جازان کے قریب تر راستوں سے حرمین
شریفین کا محاصرہ کیا جائے، بحر احمر کے اُس پار بھی پیش بندی کی گئی
تھی،سوڈان ،صومالیہ ،جیبوتی،اریٹیریااور حبشہ(ایتھوپیا) میں ماحول سازگار
تھا،لبنان،فلسطین،اردن اور مصر میں بھی حالات یا تو مخدوش تھے،یا محاصرے کے
حق میں تھے،ایران خلیج ِ عُمان اور بحرِ عرب کے راستے بہت قریب تھا،حوثیوں
کی ہر قسم کی مدد جنرل سلیمانی کے ذریعے ممکن ہو گئی تھی،امریکہ بھی صرف
تماشا دیکھ رہاتھا۔
یہ وہ جیو سیاسی خطرات تھے ، جو حرمین شریفین کے آس پاس منڈلارہے تھے،اس
لئے سب سے پہلے خلیج والوں کی جانب سےمصر میں ان فوجیوں کی حمایت کی گئی جو
ایران و ترکی کے تسلط کے خلاف ہیں،مرسی سے کوئی دشمنی خلیجیوں کی نہیں تھی،
مصر کو خانہ جنگی اور گرنے سےبچانا بھی مقصود تھا،وہاں جب کافی حد تک
استقرار آیا،اور یمن میں بے استقراری کی انتہا ہونے لگی، تو اب وقت آگیا
تھا کہ پاکستان سے مشاورت کرکے اور اپنے قریبی ملکوں کو ملاکر یمن کو گرنے
سے بچایاجائےاور اندر جو لاوا پک رہاہے اسے بجھا دیا جائے،تو ایک ‘‘ فیصلہ
کن طوفان’’ کے نام سے وہاں کی قانونی حکومت بحال کرنے اور عاقبت نااندیش
باغیوں کو راہِ راست پر لانے کا اعلان کیاگیا،اس جنگ میں پاکستان نے
خلیجیوں کی مدد کی یا نہ کی ،یہ ان کی ذمہ داری تھی یا نہ تھی،یہ سب باتیں
مستقبل میں ملک وقوم کے حوالے سے تاریخ بتائی گی،البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ
شاہ سلمان بن عبد العزیز نے اس دو ٹوک عملی پیغام کے ذریعے اپنے خلیجی
دوستوں کے ساتھ ملکر نہ صرف حرمین شریفین و مملکت سعودی عرب،بلکہ مصر ،شام،
سوڈان ،لبنان،فلسطین،اردن اور عراق سمیت پاکستان کو بھی حوثی نما باغیوں
سےبچالیا۔ |
|