ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانیؔ
22اپریل کو گجیندر سنگھ نے دلی کے جنتر منتر پر عام آدمی پارٹی کی ایک ریلی
میں پیڑ پر چڑھ کر خود کشی کرلی اور سب کو حیران کردیا۔ میڈیا کو مصالحہ
فراہم کردیا اور عام آدمی پارٹی کی ریلی کو مقبولیت،کانگریس ، بی جے پی کو
تنقید کے لئے مواد مل گیا۔ مگر حکومت کے کانو ں پر جوں بھی رینگتی محسوس
نہیں ہوئی۔
گجیندر سنگھ کے حالات زندگی سامنے آنے پر محسوس ہورہاہے کہ وہ معاشی طور پر
اتنا کمزور نہیں تھا کہ فصل خراب ہونے سے خود کشی پر مجبور ہوجاتا۔ خود کشی
سے ایک رات قبل ہی کسی شادی میں ڈھول بجانے کا ٹھیکہ بھی اسے ملا تھاجس کے
21ہزار روپے پیشگی بھی اس نے وصول کئے تھے۔
گجیندر کی خودکشی کسانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے علاوہ بھی کئی سوالات
کھڑے کرتی ہے ۔ عام طور پر اس قسم کی ریلیوں میں توجہ مبذول کرنے کے لئے
لوگ مختلف قسم کی حرکتیں کرتے ہیں ۔ کوئی رنگ برنگے لباس پہنتا ہے ،کوئی
علاقائی سنگیت بجاتا ہے ، تو کوئی مختلف قسم کے بہرروپ اختیار کرتا ہے تاکہ
میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کراسکے۔ اس قسم کی حرکتوں کو ریلی کے
منتظمین بھی روکنے کے بجائے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ موضوع کتنا بھی سنجیدہ
کیوں نہ ہو لوگ اس قسم کی غیر سنجیدہ حرکتوں سے باز نہیں آتے اور میڈ یا
پبلسٹی کو بہت اہم سمجھنے والی تنظیمیں بھی اسی لئے ان حرکتوں کی حوصلہ
افزائی کرتی ہیں کہ اس سے ان کے پروگرام کو میڈیا میں اہمیت مل جائے گی ۔
مجھے یاد ہے کہ 85میں بابری مسجد کی بازیابی کے لئے جو ریلی منعقد ہوئی تھی
اس میں بھی تقریباً 40لوگوں کا ایک جتھا فیض آباد سے کفن بردوش آیا تھا
ظاہر ہے کہ یہ سب علامتی چیزیں ہیں و گرنہ کون نہیں جانتا کہ ان 40لوگوں
میں سے کسی نے بھی بابری مسجد کی شہادت کے بعد کفن نہیں پہنا۔سنجیدہ
موضوعات پر اس قسم کی علامتی اور غیر سنجید ہ حرکتیں چند لوگوں کو کیمروں
کے رخ پر تو کر سکتی ہیں مگر مقصد براری میں کوئی رول ادا نہیں کرتیں۔
گجیندر کا معاملہ بھی بادی النظری میں میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے
کی ابتدائی کوشش محسوس ہوتا ہے۔ اسی لئے اس سنگین حرکت کو وقوع پذیر ہوتے
ہوئے بھی ہزاروں کا مجمع کھڑے کھڑے بس دیکھتا رہا۔ پولس بھی خاموش تماشائی
بنی رہی ۔منتظمین بھی جلسہ اور تقریر جاری رکھے رہے گویا کوئی اہم واقعہ
نہیں ہو رہاہو۔ کیا ایک انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں۔ گویا یہ سب کچھ محض
ایک ڈرامہ ہو۔ حتیٰ کہ جب معلوم ہوگیا کہ گجیندر نے واقعی خود کشی کرلی اور
وہ مر گیا ہے تب بھی جلسہ اور تقریر یں نہ رکیں۔ہزاروں لوگوں کی موجودگی
میں خود کشی کا یہ معاملہ سماجی بے پرواہی کا بدترین مظہر ہے ۔ اور سیاسی
لالچ کا بدترین نمونہ بھی ہے ۔ یقینا گجیندر کو خودکشی سے روکا جاسکتا تھا
اگر لوگوں کی بھیڑ اسے روکنے کی کوئی سنجید ہ کوشش کرتی۔ اور پولس جو
سینکڑوں کی تعداد میں وہاں موجود تھی بروقت اقدام کرتی۔ یا خود منتظیمین
اسٹیج سے اعلان کر کے اسے روکنے کی کوشش کرتے ۔ مگر کسی نے کچھ نہیں کیا۔
بھیڑ میں خود کشی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ اس سے قبل منڈل کمیشن کی
مخالفت میں دلی میں نوجوانوں کے جو مظاہرے ہوئے تھے اس میں بھی صفدر جنگ
چوراہے پر دیش بندھو گپتا کالج کے ایک طالب علم راجیو گوسوامی نے خود کو آگ
لگا کر خود کشی کرلی تھی ۔ اس وقت بھی ہزاروں نوجوانوں کا مجمع راجیو
گوسوامی کو روکنے کی کوشش کرنے کے بجائے اسے ایسا کرنے پر اکسارہا تھا۔ اس
زمانے میں خود کشی کرنا ایک قابل تعزیرجرم تھا اس کے باوجود پولس نے بھی
راجیو گوسوامی کو یہ غیر قانونی حرکت کرنے سے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی
تھی۔ ظاہر ہے کہ راجیو گوسوامی کی خود سوزی منڈل مخالف تحریک کو مہمیزدینے
کے لئے بہت مفید ثابت ہونے والی تھی اس لئے اپنے موقف کو شدت کے ساتھ ثابت
کرنے اور اپنی تحریک کو مضبوطی عطاء کرنے کے لئے ایک نوجوان کی خود سوزی کو
استعمال کیا تھا۔ اب گجیندر سنگھ کی خود کشی بھی اسی ذہنیت کا شاخسانہ ہے
جو اپنے موقف اور اپنی تحریک کو کامیابی کے آگے انسانی جان کو بھی کوئی
اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے۔ گندی سیاست کی بد ترین ذہنیت کی عکاس ہیں یہ
خود سوزیاں اور خودکشیاں ۔ انسانی جان کے اتلاف کے بعد لمبی چوڑی تعزیتی
تقرریں کرنے والوں ، پارلیمنٹ میں اس کی مذمت کرنے والوں ، معافی مانگنے
والوں اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے بیٹھ کر رونے والوں سے یہ گزارش ہے کہ
وہ اپنی تحریک کی مضبوطی کے لئے سینکڑوں دوسرے طریقے استعمال کرسکتے ہیں ۔
اور اپنے کارکنوں عہدہ داروں اور رضا کاروں کو اس قسم کے انتہائی اقدامات
کرنے سے روکیں۔اگر ایسا نہ ہو تو مرکزی سرکار کو چاہئے کہ وہ ایک ایسا
قانون وضع کرے کہ اس قسم کی جمہوری تحریکوں میں اگر کوئی اقدام خودکشی یا
خود سوزی واقع ہوجائے تو تحریک کے منتظمین اور داعین کو اس کا ذمے دار قرار
دے نیز موقع پر تعینات پولس افسران کو بھی ذمے دار تصور کیا جائے تاکہ اس
قسم کے تکلیف دہ واقعات آئندہ وقوع پذیر نہ ہوں۔ |