خارجہ پالیسی اور قطر میں پاکستانی وائسرائے
(Sardar Attique Ahmed Khan, Azad Kashmir)
آزمائش ہے یا بدقسمتی پاکستان کی
خارجہ پالیسی روز اول سے ہی کوئی قابل ذکر سمت اختیار نہیں کر سکی ۔ نواب
زادہ لیاقت علی خان کا دورہ امریکہ یقینا ایک دانشمندانہ قدم تھا ۔قیام
پاکستان کے وقت ملک ایک نظریاتی پس منظر کی حامل ریاست تھی جس کے لیے فوری
طور پر ماسکو کے کمیونیسٹ نظام کے ساتھ قربت میں کچھ مشکلات حائل تھیں
باوجود اس کے کہ توازن کے تقاضے تھوڑے سے مختلف تھے۔ علامہ اقبال ؒ نے بھی
مغربی دنیا میں امریکہ کو ہی ایک بہتر قوت کے طور پر قابل تحسین قرار دیا
ہے ۔ سرظفراﷲ خان جیسے قابل اور باصلاحیت وزیر خارجہ سے لے کر آغا شاہی تک
تو پھر بھی کچھ نہ کچھ کام چلتا رہا لیکن بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ دوسری
پالیسیوں کی طرح ہماری خارجہ پالیسی بھی مسلسل روبہ زوال ہے۔ دنیا میں
خارجہ پالیسی ہرملک کے مفادات کے گرد گھومتی ہے جبکہ اکثر اوقات ہماری
قیادت دوسرے ملکوں کے مفادات کے گرد گھومتی ہے ۔ خان عبدلولی خان نے
حیدرآباد سازش کیس میں گرفتاری کے دوران بھٹو صاحب کا ذکر کرتے ہوئے دلچسپ
بات لکھی ۔ انھوں نے لکھا کہ اس بات سے اتفاق ہے کہ ’’ذوالفقار علی
بھٹوامور خارجہ پر بہت دسترس رکھتے ہیں البتہ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ وہ
کس ملک کے خارجہ امور چلا رہے ہیں ‘‘۔ پاکستان کی حکومتوں کے پاس ماضی میں
کئی شاندار مواقعے آئے جہاں پاکستان کے دوستوں میں اضافہ کیا جا سکتا تھا
اور مخالفین کی تعداد گھٹائی جا سکتی تھی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نوے
(90)کی دہائی میں چوہدری طارق فاروق ، مرحوم پروفیسر عبدالرزاق مغل اور
راقم کچھ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ایک وفد کے ساتھ ایک افریقی ملک گھانا کے
دارالحکومت اقرہ میں غیر جانبدار ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں
شریک ہوئے ۔ وہاں پر موجود کمال درجے کے ایک پاکستانی سفارتکار شیخ نصیر ہر
قدم پر ہماری معاونت کرتے رہے جس کے باعث ہمیں کانفرنس میں شریک تقریباً
تمام اہم وفود سے ملاقات کا موقع ملا۔
مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ مجھے بھی مرکزی جامعہ مسجد کے ایک بڑے
اجتماع سے خطاب کا بھی موقع ملا۔ دنیا کے کئی اہم وفود نے کھل کر کہا کہ
مسئلہ کشمیر پر ہم پاکستان کے ساتھ ہیں اور آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ
کے کسی بھی اہم اجلاس میں کشمیر پر پاکستان کی کسی بھی قرارداد کی حمایت
کرنا چاہتے ہیں۔ ایک وہ کیفیت اور ایک یہ صورتحال کہ اس وقت خود گھر میں
فوجی قیاد ت کے علاوہ کشمیر پر کھل کر بات کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے
برابر ہے ۔ ہماری خارجہ پالیسی میں پاکستان کا تشخص ،جموں و کشمیر کی آزادی،
پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور پاک چین دوستی وہ اہم ترین بنیادیں ہیں جن کے
گرد ہمہ وقت کام ہوتے رہنا چاہیے ۔ ہمارے حامی اور مخالف کسی کو اس بارے
میں کوئی تردد یا شبہ نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمارے سیاستدان ، پارلیمنٹ ، عدلیہ
، انتظامیہ ، دفاعی ، داخلی اور خارجی امور پر کام کرنے والے تمام طبقات پر
ان بنیادوں کو پوری طرح واضح رہنا چاہیے ۔ حکومتوں کو چاہیے کہ ہر خطے اور
اُس میں شامل ممالک کے بارے میں پالیسی اپنی تمام تر جزویات کے ساتھ مرتب
کر کے اُس پر پہرہ دیں اور اُس کا جائزہ لیتے رہیں۔
پاکستانی سفارت خانوں میں سیاسی اور جماعتی ضروریات کو بھی پورا کیا جائے
لیکن ہر حکومت کوپاکستان کی بنیادی ضروریات کو سامنے رکھ کر امور خارجہ کو
دیکھنا چاہیے ۔ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ’’
ہماری خارجہ امور کی وزارت عملاً خارجیوں کے امور کی وزارت بن گئی ہے ‘‘۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مجھے قطر، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات جانے کا
موقع ملا ۔ دوحہ قطر میں پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی خاصی تعداد میں موجود
ہے جو عام محنت مزدوری سے لے کر بڑے بڑے کاروباری اداروں کی سرپرستی کر رہی
ہے ۔ تین روز کے مختصر قیام میں مجھے کئی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔
قطر کی حکومت اور قطر چیریٹی نے 2005کے زلزلے کے بعد آزاد کشمیر میں متاثرہ
لوگوں کی امداد کے لیے جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اُس وقت کے وزیر اعظم کی
حیثیت سے وہ براہ راست میرے علم میں ہے جس کے لیے ہر مناسب موقع پر میں
اظہار تشکر کا مظاہرہ کرتا رہا ہوں۔ دوحہ میں کشمیری کمیونٹی کے معروف
رہنما محمد خان صاحب، سردار افتخار عباسی اور چوہدری محمد رشید کے علاوہ
نہایت تجربہ کار اور ایک کامیاب سفارتکار سابق پاکستانی سفیر سرفراز
خانزادہ ، نواز لیگی رہنما محمد ادریس انور ، راشد بٹ اور میڈیا سے تعلق
رکھنے والے حبیب اﷲ شیخ اور لیاقت ملک صاحب ، پی ٹی آئی کے ایک باصلاحیت
نوجوان افضل جاوید ، سردار اسحاق خان ، ظفرمحمد خان ، منظور شیخ اور اُن کے
ساتھیوں نے میری بہت عزت افزائی کی ۔ اگرچہ میری میزبانی کے بنیادی فرائض
سردار افتخار عباسی کے سپر د تھے تاہم بہت متحرک فعال اور حب الوطنی کے
جذبے سے سرشاراحتشام عرفان،عاطف الٰہی ، عاقل الٰہی، ھشام افتخار ، ساجد
خان اور شکیل چوہدری جیسے چند نوجوان ہمہ وقت میرے ہمراہ رہے ۔ جہاں
پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے مزدور سے تاجر تک ہر شخص کا جذبہ ، جذبات
اور کردار قابل فخر اور قابل تحسین دکھائی دیا وہیں پاکستانی سفیر اور اُن
کے بعض ساتھیوں کے کردار کا ہر محفل میں تذکرہ ندامت اور شرمندگی میں اضافے
کا باعث بنتا رہا ۔ محترم محمد خان ہماری کمیونٹی کے بہت معتبر شخص ہیں ۔
بیرونی دنیا میں ہمارے لوگ سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر
اپنے ہر مہمان کی میزبانی میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ محترم ادریس انور اور
راشد بٹ جیسے بہت مصروف حضرات نے سردار افتخار عباسی کے چند منٹ کے نوٹس پر
ملنے والی دعوت کو بھی قبول کرتے ہوئے مجھے عزت بخشی ۔ قطر دنیا بھر میں
گیس کی فراہمی کے لیے مشہور ہے ۔ جاپان کوریا اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک
قطر سے استفادہ کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی گیس خریدنے کا اچھا فیصلہ کیا
ہے ۔ یوں بھی ریڈکو (REDCO)اور ہمارے پرانے مہربان سیف الرحمان صاحب کی قطر
میں موجودگی کاکچھ تو نواز لیگی حکومت کو استفادہ کرنا چاہیے تھاجو خیر سے
کچھ نہیں بلکہ پوری طرح کیا جا رہا ہے لیکن کیا اُس کے لیے سفارتخانے میں
سفارتی امورکا علم اورتجربہ رکھنے والے شخص کے بجائے گیس کی خرید و فروخت
کا تجربہ رکھنے والے کسی کاروباری دوست کا سفیر ہونا ہی ضروری تھاجو ہر قدم
پر ملک و ملت کی بدنامی ، شرمندگی اور ندامت کا باعث ہو ۔ محترم محمدخان نے
سفیر سے ملاقات کا وقت مانگا تو سٹاف نے بتایا کہ آپ سفیر صاحب سے کیوں
ملنا چاہتے ہیں ، کس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور اگر ملاقات بہت
ضروری ہو تو اپنے سوالات تحریری طور پر سفیر کے دفتر کو ارسال کریں ۔ دریں
اثنا ایک کاروباری فیملی کی پڑھی لکھی معزز خاتون کے بقول کہ اُنھیں
سفارتخانے کے درخواست گزاروں کی لائن میں لگنے کے لیے دس ریال بطور نیاز
اور مزید دس ریال درخواست کی وصولی کے لیے پیش کرنا پڑے ۔ ظاہر ہے یہ سارا
عملہ بالکل بے قصور ہے اس لیے کہ جب ملک کی قیادت ہر قدم پر نظر نیاز کو
روز مرہ معمولات کا حصہ بنائے گی تو عام آدمی بے قصور ہی ٹھہرے گا۔ عربی کا
مقولہ ہے کہ ’’ملک کے عوام اپنی قیادت کے مذہب پر ہوتے ہیں ‘‘۔ یہ دو
واقعات میرے دل کو خون آلود کرنے کے لیے اتنے کافی تھے کہ کسی تیسرے ثبوت
کی ضرورت نہیں پڑی ۔ مجھے خیال ہوا کہ شائد سفیر موصوف کو تعیناتی کے وقت
بتا دیا گیا ہو کہ آپ کہنے کو تو پاکستان کے سفیر ہیں لیکن جائیے ہماری طرف
سے قطر میں پاکستانی وائسرائے کا کردار ادار کرتے رہیں۔ میرے سمیت ہم سب
پاکستان کے خلاف ہندوستانی سازشوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جبکہ حقیقت میں
ایسے سفارتکاروں اور سرکاری نمائندوں کی موجودگی میں کوئی دوسرا ملک سازش
کی بدنامی کیوں مول لے گا۔ بقول شاعر: ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسما
کیوں ہو |
|