سنتے ہیں خوشی بھی ہے زمانے میں کوئی چیز

نیپال میں آنے والے بھیانک زلزلے اور شمالی ہندوستان میں محسوس ہونے والے اس کے اثرات سے ہر کوئی بجا طور پر غمگین ہے۔ ذرائع ابلاغ میں نظر آنے والی تصاویر خون کے آنسو رلاتی ہیں اور ہر کس ناکس کو زلزلے کی زد میں آنے والوں کے غم میں شریک کرتی ہیں ۔ عام لوگ تو متاثرین کیلئے صرف دعا گو ہیں مگر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو میدانِ عمل میں اتر کرریلیف کے کام کررہے ہیں۔ان کے علاوہ جو دامے درہمے سخنے قدمے اس کارِ عظیم میں اپنا حصہ بٹا رہے ہیں وہ بھی قابلِ تحسین ہیں ۔

اس غم و اندوہ کے ماحول میں بھارتی کوہ پیما سنگیتا بہل کا اپنے خاوند انکور بہل سے رابطہ ٹوٹ گیا جو زلزلہ سے قبل ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے لیے نکلے ہوئے تھے مگر جب دو روز کی تشویشناک پریشانی کے بعدسنگیتا کو ان کے شوہر انکورنے فون پر بتایا کہ وہ خیریت سے ہیں تو انہوں نے چین کا سانس لیا اور خوشی کا اظہار کیا۔ انکور نے بھی ٹائمز کے نامہ نگار سے کہا ہم خوش قسمت ہیں جو زندہ بچ گیااس لئے کہ زلزلہ کے وقت وہ تقریباً ۲۰ ہزار فٹ کی بلندی پر تھے ۔ اور وہاں کسی مدد کا پہنچنا بظاہر ناممکن تھا لیکن بفضلِ تعالیٰ ہیلی کاپٹر کے ذریعہ انہیں واپس لے آیا گیا۔ اس صورتحال میں سنگیتا کی کیفیت فیض کے ان اشعار کی سی ہو گئی ہے ( ترمیم میں معذرت کے ساتھ) ؎
رات یوں گھر میں ترا کھویا ہوا فون آیا
جیسے ویرانے میں چپکےسے بہار آ جائے
جیسے صحراوں میں ہولے سےچلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

تباہی و بربادی کے اس قیامت صغریٰ میں سنگیتا اور انکور کو خوش دیکھنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ خوشی کیا چیز ہے جو اس حالت میں میسر آجاتی ہے ؟ خوشی کی روایتی تعریف تلاش کرنے کیلئے اگر دائرۃ المعارفسے رجوع کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک ایسے احساس کا نام ہے کہ جس میں اطمینان،تسلی،تشفی،محبت اورفرحتومسرتکی کیفیات اجاگر ہوتی ہوں۔ خوشی کی متعدد نفسیاتی،حیاتیاتی و مذہبی تعریفیں موجودہیںلیکن اس کاعالمی سطح پر کوئی یکساں پیمانا یا اکائی مقرر نہیں ہے۔ علم طب و حکمت کے لحاظ سے خوشی کی تعریف یوںکی جاتی ہے کہخوشی ایک ایسا صحت مند جذبہ یا احساس ہے کہ جس کے خصائص میں طمانیت اور شادمانی کے مظاہر شامل ہوں۔ انسانی نفس وذہن میں مسرت و انبساط کے انتہائی اہم اور شدید ادراک نے اسےدیگرجانداروں سے اشرف اور ممتاز مقام پر فائز کردیا ہے۔ ابن آدم کی فطرتِ راحت الوجود (well-being) نےاسےہمیشہہی خوشی کی تلاش میں مصروفِ عمل رکھا ہے۔ مذہب اور فلسفے میں عموماً خوشی کو محض جسمانی راحت (عیش / صحت) سے الگ رکھا جاتا ہے لیکن علم طب کے مطابق خوشی جسمانی اور ذہنیصحت کے بغیر نامکمل ہے۔ بقول غالب؎
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے

خوشی چونکہ ایک غیر مرئی احساس ہے اس لئے اس کی پیمائش ناممکن ہے ۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کی جاری کردہ ایک دلچسپ رپورٹ میں اس امر کاجائزہ لیا گیا ہے کہ دنیا کے کون سے ممالک ایسے ہیں جن کے عوام نسبتا ًزیادہ یا کم خوش ہیں اور اُن کی خوشی کی وجہ کیا ہے؟ یہ رپورٹ پائیدار ترقی کا حل نیٹ ورک (ایس ڈی ایس این)نامی ادارے کے ماہرینِ اقتصادیات، نفسیات اور عمرانیات نے مل کر تیار کی ہے ۔اس پروجکٹ میں شامل کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری ساشس کے مطابقکس ملک کے لوگ کتنے خوش ہیں اس کا اندازہ لگانے کیلئےانہوں نے اس ملک کے تعلیمی معیار، انفرادیآمدنی ، مجموعی قومی پیداوار، صحت مند زندگی، مختلف معاملات پر چیزوں کے انتخاب میں تبدیلی اور بدعنوانی سے پاک معاشرہ جیسی خصوصیات کوپیش نظر رکھا۔ساشس کے مطابق کسی ملک میں خوشی کا معیار طے کرنے کےلیے دولت کے ساتھ ساتھ ایمانداری، اعتماد، انصاف اور بہتر صحت کو بھی سامنے رکھا جاتا ہے۔رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کسی بھی قوم کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں ’خوشی اور اطمینان‘ کا بہت اہم کردار ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ حکومتوں کو منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کی خوشی کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے۔

ایک سال قبل انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا ’’اچھے دن آنے ہی والے ہیں‘‘ ۔ اچھے دن بھی فرحت و انبساط سے ملتی جلتی کیفیت کا نام ہے۔ جمہوری سیاست میں یہ ہوتا ہے کہ حکومت کتنا بھی اچھا کام کرے حزب اختلاف گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر اس میں کیڑے نکالتا ہے اور حکومت اپنی تمام تر ناکامی کے باوجود اپنے اقدامات کو حق بجانب ٹھہراتی ہے نیز اپنےہمنواوں کی مدد سےخود کو کامیاب ترین قرار دیتی ہے ۔ ایسے میں ضروری ہے کہ عوام سے پتہ لگایا جائے کہ وہ کیا سوچتے ہیں ؟ اور ان سے کچھ ایسے سوالات کئے جائیں جن سے ان کے قلب کی کیفیتمعلوم ہوسکے۔ ان سوالات کو نہ حکومت طے کرے نہ حزب اختلاف بلکہ کسی ایسےغیر جانبدار ادارے کی اس بابت مدد لی جائے جو حکومت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہو۔جس کے نہ مفادات سرکار سے وابستہ ہوں اور جو نہ حکمرانوں یاان کےمخالفین کے زیرنگیں ہو۔ ایسے میں مذکورہ بالا رپورٹ جو مودی سرکار کے پہلے سال کے اختتام پر منظر عام پر آئی ہے وزیراعظم کیلئے ایک کارآمد آئینہ ثابت ہو سکتی ہے۔

عالمی خوشی کی اس درجہ بندی میںکل ۱۵۸ ممالک کو شامل کیا گیا ۔ ہندوستان کو ؁۲۰۱۳ میں ۱۱۱ ویں نمبرپررکھا گیا تھا لیکن اب وہ نیچےکھسک کر ۱۱۷ ویں نمبرپرپہنچ گیا ہے ۔زرخرید ذرائع ابلاغ رات دن ہمیں اس خوش فہمی کا شکار کرنے میں لگا رہتا ہے کہ ایشیا کی سب سے ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بھارت ہے۔ میک ان انڈیا کا شیر جلد ہی چین کو چیر پھاڑ کرکھا جائیگااور معاشی دوڑ میں ہم چین سے آگے نکل جائیں گے۔اس رپورٹ کے مطابق چین کی بھی حالت بہت اچھی نہیں ہے لیکن پھر بھی دونوں پروسی ممالک کے درمیان ایک بڑی کھائی ہےاس لئے کہ وہ۸۴ویں مقام پر ہے ۔ہندوستان کے ۱۱۷ ویں نمبر پر ہے ہونے کی وجہغربت کے علاوہ معاشی ناہمواریاں بتائی گئی ہیں۔ اس سے یہ معمہ بھیحل ہوجاتا ہے کہ دنیا کے امیرترین افراد کی فہرست ہمارے افراد کی تعداد کےروز افزوں اضافہ کے باوجود گجیندر سنگھ جیسا کسان سرعام خودکشی کرنے پر کیوں مجبور ہوتا ہے؟

خوشی کی بابت جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کا تقابل بھی نہایت دلچسپ ہے۔ یہاں پر سب سے اوپر حیرت انگیز طریقہ پر ایک ننھا سا ملک بھوٹان ۷۹ نمبر پرہے اور کا قریب ترین ساتھی ۸۱ ویں مقام پر پاکستان ہے۔ افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد پاکستان کے اندر پیدا ہونے والے بے شمار مسائل کے باوجود اگر اس کا یہ حال تو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کے بغیر وہ کہاں ہوتا؟پاکستان کے بعد بھی ہندوستان کا نہیں بلکہ بنگلہ دیش کا نمبر آجاتا ہے جو ۱۰۹ ویں پائیدان پر ہے ۔ امیت شاہ جی بنگلہ دیش کے ہندووں کو ہندوستان میں پناہ دینے کی بات کررہے ہیں لیکن اگر یہ رپورٹ وہاں کے اکثریت و اقلیت دونوں کی ترجمان ہے تو بھلا وہاں کا ہندو ہندوستان میں آنے کی غلطی کیوں کرے گا جبکہ حسینہ واجد حکومت اپنے اقتدار کی خاطر مسلمانوں کی بہ نسبت ہندو اقلیت دلجوئی کچھ زیادہ کررہی ہے۔

جنو ب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک کا تقابل بھی نہایت دلچسپ ہے ۔ ان میںایک تو خالص ہندو ریاست نیپال ہے دوسری ہندو اکثریتی سیکولر ہندوستان اور تیسرا بودھاکثریتی سیکولر ملک سری لنکا ہے۔ ان تینوں کے درمیان سرفہرست ہندوستان ضرور ہے لیکن نیپال جسے بہت زیادہ پسماندہ سمجھا جاتا ہے ہم سے قریب ہی۱۲۱ ویں مقام پر ہے۔ سب سے نیچے سری لنکا ہے جو ۱۳۲ ویں مقام پر آتا ہے۔ایک اور بودھ ریاست برما کا بھی حالت خراب ہے وہ ۱۲۹ ویں نمبرپر ہے۔ ہندوستان میں بالعموم اور مسلمانوں میں بالخصوص ان لوگوں کیلئے جو دن رات تقسیم ہند کو کوستے رہتے ہیں اور اسی کو ملت کی ساری پریشانیوں کی وجہ قرار دیتے ہیں اس رپورٹ میں عبرت کا بڑا سامان ہے ۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق خوشی کی بابت دنیا کے ۱۰ سرفہرست ممالک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کاونسل کے مستقل ارکان میں سے ایک بھی شامل نہیں ہے جنہیں کہ ویٹو کا حق حاصل ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقتوں کا اول دس ممالک سے نداراد ہونا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ جو لوگ خود اپنی عوام کو خوش نہیں رکھ سکتے وہ بھلا دنیا بھرکو خوشی اور اطمینان کس طرح مہیا کرسکیں گے؟ اس فہرست کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے لوگ غموں سے آزاد اور اس کرہ ارض کے سب سے زیادہ پر مسرت افراد ہیںاس کے بعد آئس لینڈ، ڈنمارک، ناروے، کینیڈا، فن لینڈ، ہالینڈ، سوئیڈن، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا نمبرآتا ہے۔ آبادی کے لحاظ یہ ننھے منے اور سیاسی اعتبار سے ان غیر اہم ممالک کی عوام سب زیادہ خوش و خرم ہونامغرور و متکبرممالک کو منہ چڑھاتا ہے۔

اس رپورٹ نے یہ واضح کردیا ہےکہ دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے افراد اپنی حکومتوں اور سماجی نظام سے خوش نہیں ہیں۔ امریکا جیسا نام نہادسپر پاور ملک ۱۵ ویں مقام پر ہے جبکہ ۲۱ ویں مقام پر فائزبرطانیہ سے بہتر حالت متحدہ عرب امارات کی ہے جو ۲۰ ویں نمبر پر ہے ۔ اومان جیسا ننھا سا ملک ۲۲ ویں مقام پر ہے جبکہ جرمنی جیسا ترقیہ یافتہ ملک۲۶ ویں پر ہے۔ ۲۸ ویں مقام پرموجودقطر کی حالت فرانس سے بہتر ہے جو۲۹ ویں نمبرہے۔ کویت اور سعودی عرب جو باالترتیب ۳۵ ویں اور ۳۹ ویں مقام ہیں دنیا کی دوسوپر پاورس روس اورچین سے بہتر ہیں جو ۶۴ ویں اور ۸۴ ویں نمبر پر ہیں۔ جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے اس سےبہتر صورتحال تو ایران کی ہے جو ۱۱۰ ویں ہے۔ فلسطین و عراق بھی جو ۱۰۸ ویں اور۱۱۲ ویں نمبر پر ہندوستان سے آگےہیں ۔ ان اعدادو شمار میں مسلم دنیا کو اٹھتے بیٹھتے برا بھلا کہنے والوں کیلئے نصیحت ہے۔

اگر اس فہرست میں کم ترین خوشیوں کے مالک آخر کے دس ممالک کو دیکھیں تو ان میں افغانستان ، شام ،ٹوگو، برونڈی، روانڈا، برکینو فیسو، آئیوری کوسٹ، گینیا، چاڈ اوروسطی افریقی جمہوریہ شامل ہیں۔ یہاں پر صرف دو مسلم ممالک افغانستان اور شام موجودہیں جو عرصۂ دراز سے خانہ جنگی کا شکار ہیں دیگر ممالک غربت اور افلاس کے سبب غم و اندوہ کا شکار ہیں۔ ویسے یہ فہرست دنیا بھر کے ممالک کا ایک تقابل ضرور پیش کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے سرمایہ داری کے ظالمانہ استحصالی نظام نے دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی کو غمزدہ کررکھا ہے ۔ حالت یہ ہے کہ دنیا بھر کے وسائل چند ہاتھوں میں سمٹ آئے ہیں اور عوام کی ایک بڑی اکثریت دانے دانے کو ترس رہی ہے ۔ ان کی حالت ِغیر پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
سنتے ہیں خوشی بھی ہے زمانے میں کوئی چیز
ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں کدھر ہے وہ کہاں ہے؟

سوئزرلینڈ کے اندر منعقدہ عالمی معاشی مجلس کے حالیہ اجلاس میں آکسفیم ا نٹر نیشنل نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس کے اعدادوشمار مذکورہ عدم مساوات کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل دولت کا نصف صرف ایک فیصد امیر کبیر لوگوں کے قبضے میں ہے۔ دنیا کی آبادی میں جو ۵۰ فیصد لوگ نیچے کے درجے میں ان کو حاصل کل دولت سے ۶۵ گنا زیادہ دولت صرف ان ایک فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ جس قدر دولت اس پچاس فیصد آبادی کے پاس ہے اتنی تو صرف ۸۵ امیر ترین لوگوں کی تجوری میں بند ہے۔ دنیا کی ۷۰ فیصد آبادی ان ممالک میں رہائش پذیر ہے جہاں گزشتہ ۳۰ سالوں کے اندر عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کے اندر معاشی بحران کے بعد (؁۲۰۰۹) جو معاشی ترقی ہوئی اس کے ۹۵ فیصد کا فائدہ صرف ایک فیصد لوگوں کو ہوا جبکہ ۹۰ فیصد لوگ غربت کا شکار ہوئے۔ ایک اور جائزے کے مطابق دنیا کے وسائل میں ؁۲۰۰۰ کے بعد سے غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جو۱۱۷ ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر ۲۶۳ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں لیکن اس دولت کی رسائی عوام تک نہیں ہورہی ہےبلکہ یہ چند ہاتھوں کے اندر سمٹتی جارہی ہے۔ ایسے مٹھی بھر افراد خوش ہورہے ہیں اور باقی غمگین ہوتے جارہے ہیں۔

مندرجہ بالا اعدادو شمار اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ یہ دنیا فی الحال نئے عالمی نظام کے تحت ایک ظالمانہ معیشت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس سفاک سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار نہیں چاہتے کہ ان کا کوئی متبادل عوام کے سامنے آئے اس لئے کہ ا گر ایسا ہو جائے تو عوام کی اکثریت اس سے دامن جھاڑ کر نئے نظام رحمت کے سایۂ عافیت میں چلی جائیگی ۔یہی وجہ ہے کہ مغربی استعمار ہر متبادل کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجاتا ہے اور جب بھی کسی ملک میں اسلام ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے متبادل کے طور پر سامنے آتا ہے وہاں حکمرانوں کی سمجھا مناکر اپنا ہمنوا بنا لیا جاتا ہے یا اپنےحواریوں کی مدد سے بغاوت کروادی جاتی ہے۔ فوجی آمروں کو مسلط کرکےان کی بھرپور پشت پناہی کی جاتی ہے۔ چین اور روس کو مغرب اپنے دام میں گرفتار کرچکا ہے کیوبا میں یہ کوشش جاری ہے۔ مصر کے اندر بھی انہیں یہی خوش فہمی تھی کہ اسلامی حکومت بھی ہماری حاشیہ بردار بن جائیگی لیکن جب مایوسی ہوئی تو تختہ پلٹ دیا گیا۔دیگر لوگ مغرب کے جھانسے میںجلد یا بدیر آجاتے ہیں لیکن اسلامی تحریکات پر ان کا زور نہیں چلتا اس لئےا نہیں بے دست و پا کرنے کوششیں جاری و ساری رہتی ہیں ۔ اس سعی و جدوجہد کے پیچھے بھی وہی استعماری نظام کے تحفظ کا مقصد کارفرما ہوتا ہے۔

باطل کی ان ریشہ دوانیوں سے اہل حق مایوس نہیں ہوتے ان کیلئے رب کائنات کی یہ بشارت کافی ہے ’’اور یقیناً تمہارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہےاور عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے‘‘(القرآن ۹۳:۴،۵) جس خوشی کی خبر اس آیت میں دی گئی ہے وہ یقیناً آخرت میں مخلص اہل ایمان کا مقدر ّ ہوگی لیکن کوئی بعید نہیں کہ اس دنیا میں بھی وہ بعد والا بہتر دور انہیں نصیب ہوجائے اور اسے پاکروہ خوش ہو جائیں۔ دراصل انسان کی خوشی اور غم کا گہرا تعلق اس کے مقصدِ حیات سے ہوتا ہے۔ معرفت الٰہی کی طلبگار نفوس کیلئے سب سے بڑی خوشی راہِ ہدایت ہے جس کا ذکر قرآنِ عظیم میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔اے نبیؐ، کہو کہ ’’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘(القرآن ۱۰:۵۷،۵۸)۔

مذکورہ بالا آیت سے پتہ چلتا ہے کہ دنیائے فانی کےجس سامانِ تعیش کوحاصل کرکے لوگ خوش ہوتے ہیں اور جن کے چھن جانے پر وہ غمگین ہو جاتے ہیں ان سے بہتر اور افضل اللہ کی نصیحت یعنی قرآن حکیم کی نعمت ہے۔ سکونِ قلب اور فرحت و انبساط کا اصل مرجع اور منبع یہی فرقانِ عظیم ہے۔ اہل ایمان کی خوشیوں کی معراج کا ذکر سورۂ توبہ کی اس آیت میں کیا گیا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘(القرآن ۹:۱۱۱)۔ مومنین کی خوشی کے معیار اور کسوٹی کی ترجمان قرآنِ حکیم کی یہی آیت ہے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450667 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.