یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے
کہ پاکستان اورچین کی دوستی مستحکم بنیادوں پر استوار ہے۔پاکستان اور چین
نے ہر موڑ پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔چینی حکومت پاکستان بننے کے
دو سال بعد معرض وجود میں آیاہے۔چین کے متعلق پورے یورپ اور اقوام عالم میں
یہ مشہور تھا کہ چین کباڑ خانہ ہے اور یہاں کے لوگ افیمی اور نشئی ہیں ۔لیکن
نئے عزم کے ساتھ معرض وجود میں آنے والا چین آج دنیا کا معاشی قوت کا
سرچشمہ ہے۔چینی قوم نے اپنی ترجیحات طے کئیے اور مسلسل جدوجہد کے ساتھ
کامیابیوں کی منزلوں کو عبور کیا۔آج چین دنیا کا ناقابل تسخیر قوت بننے کا
ہدف حاصل کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ ہمت جرات، خود داری قوموں کو عروج تک
پہنچا دیتی ہے۔اسی جذبوں کے ساتھ چین نے منزلیں حاصل کی ہیں۔چین سے ہمیں
بہت کچھ سیکھنا ہو گا۔جبکہ پاکستان کے 68 سالہ دور میں اس ملک کے عوام نے
بہت دکھ سہے ہیں عوام کی آنکھیں امن، ترقی اور خوشحالی دیکھنے کے لئے ترس
گئی ہیں۔ ایک ایسی خوشحالی دیکھنے کے لئے جہاں پر ایک عام پاکستانی کو صحت،
تعلیم اور روزگار حاصل ہو جو اپنی امنگوں کے مطابق زندگی بسر کر سکے۔یہ
سہولیات کسی ملک کی ترقی کو ناپنے کا پیمانہ ہوتا ہے۔ہم کہاں کھڑے ہیں
لوگوں کے معیار زندگی کو دیکھ کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم کتنے ترقی کے
دور میں جی رہے ہیں۔یہاں عوام اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں یہاں
تک کہ لوگوں کوصاف پانی کے حصول کے لئے پریشانی کا سامنا ہے۔بدحالی کی ایک
وبا ہے۔ جس نے ہر جانب زندگیوں کو عذاب بنا دیا ہے۔یہ ملک اس خلاء سے کیوں
دوچار ہے۔کیونکہ یہاں ہمیشہ حکمرانوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو
اپنی ترجیحات بنائے رکھا ہے۔چند خاندانوں اور مخصوص طبقہ نے ہمیشہ عوام کا
استحصال کیا ہے۔اپنے اقتدار کو بچانے اور اقتدار کو حاصل کرنے یا اسے طول
دینے کے لئے غیروں کو خوش رکھا ہے۔اور اپنے قوم کے وسائل اور خوشیوں کو بے
دردی کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔ان مفاد پرست طبقوں کی وجہ سے
دشمنوں کے ہاتھ ایسے مواقع بھی لگے ہیں کہ اس ملک میں چاروں طرف آگ اور خون
کا کھیل کھیلا گیا ہے اور قوم ناکردہ گناہوں کی چکی میں پس رہی ہے۔یہاں تک
کہ پاکستان کو ناکام ریاست کے طور پر پیش کرنے کی مذموم کوشش کرتے رہے
ہیں۔قوم کومایوسی کے دلدل میں دھکیلنے کی کوششیں جاری رہی ہیں۔غلط پالیسیوں
۔لوٹ کھسوٹ ، کرپشن کی وجہ سے ملک کی بقاء اور سلامتی کو خطرے میں ڈالا گیا
ہے۔اس طرح ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ان حالات
میں 20اپریل کو چین کے صدر شی چن پنگ کا دورہ پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت
کا حامل ہےْ۔اس دور ے میں 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے
ہوئے۔توانائی، انفرااسٹرکچر ، شاہراؤں ،اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر
51 منصوبوں کے بارے میں مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ ان
معاہدوں اور چینی صدر کے دورے نے خطے کی پورے صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی
پیدا کر دی ہے۔ اس ملک کی کے بدخواہوں کے پیٹ میں مروڑ شروع ہو چکا ہے۔ یہ
سرمایہ کاری بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے اعتماد میں اضافے کا سبب بنے
گا۔اپنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا بھروسہ بحال ہو گا۔کافی عرصے بعد قوم
میں خوشیوں کی لہر پیدا ہوئی ہے۔ ایسی نازک صورت حال میں ملک کے سیاستدانوں
اور اداروں کے ذمہ دار لوگوں کو اپنا طرز عمل اور رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت
ہے قومی مفادات کو اولین ترجیح دینا ہوگا۔معاشی دہشتگردی کے خلاف بھی ہمیں
صف بندی کرنا ہو گی۔اس ملک میں امید کی جو شمع روشن ہے جو مایوسی کے نکلنے
کا راستہ بھی ہے۔وہ عوامی شعور کی بیداری ہے۔اب دنیا میں انقلاب کی رفتار
بہت تیز ہو گئی ہے۔پرنٹ میڈیا، الیکٹرونکس میڈیا اور سوشل میڈیا نے اس
بیداری میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔اب ہر دیکھنے اور سننے اور شعور رکھنے
والوں کی نظریں حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کارکردگی پر لگی ہوئی ہیں۔ضرورت
اس بات کی ہے کہ ملک کی سیاست اور معیشت کو درست سمت میں لے جا یا
جائے۔پاکستان اور چین دوستی کو اعتماد کے رشتوں میں مضبوط باندھا جائے۔ |