نزلہ بخاری ، اعظم خان اور اویسی پر!

ہندو مہاسبھا اور وشوہندوپریشد کے پیٹ میں سخت مروڑ اٹھا ہے۔

تکلیف ہے کہ وہ مسلمان جنہیں ’لالچ‘ دے کر یا جبراً دھونس جما کر ہندو بنا کر ’گھر واپس ‘ لایاگیا تھا وہ پھر کیوں مسلمان ہوگئے!

اوّل تو یہ سوال ابھی بھی برقرار ہے کہ جن مسلمانوں کے ہندو بننے کا جم کر پرچار کیاگیا تھا وہ ہندو بنے بھی تھے یا نہیں؟ ہندوئوں کا خود یہ دعویٰ ہے کہ ہندو ازم کوئی مذہب نہیں بلکہ زندگی برتنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ جب یہ مذہب ہے ہی نہیں تو پھر اسے ایک مذہب مان کر کوئی کیوں کر اپنا سکتا ہے۔ مثال یوں سمجھیں کہ آریہ سماجی مورتی پوجا نہیں کرتے۔ وہ پوجا پاٹ کے قائل ہی نہیں ہیں اور ہندوئوں کے دوسرے فرقے پوجا پاٹ بھی کرتے ہیں اور مورتی پوجا بھی۔ سب کے دیوتا اور دیوی الگ الگ ہیں، مطلب یہ کہ کسی ایک دیوی یاد یوتا کی بنیاد پر تمام ہندو متحد نہیں ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ تمام ہندو ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہیں ، درست نہیں لگتا۔ مسلمانوں میں بھی اختلافات ہیں مگر ایک اللہ، ایک کلمہ اور ایک قرآن کی بنیاد پر وہ مذہباً ایک دوسرے سے علاحدہ نہیں ہیں۔ اس لیے یہ سوال کھڑا ہوجاتا ہے کہ جن کے ہندو ہونے کا پرچار کیاجارہا تھا وہ ہندو ہوئے بھی تھے یا نہیں اور اگر ہوئے تھے توکسی دیوی اور دیوتا کے بھکت بنے تھے یا آریہ سماجیوں کی طرح مورتی پوجا کے مخالف تھے۔

ہاں ایک بات سمجھ میں آتی ہے۔

لالچ میں یاد ھونس میں آکر انہوں نے تبدیلی ٔ مذہب کا ڈرامہ رچاہوگا اور جب انہیں یہ احساس ہوا ہوگا کہ ’لالچ بری بلا ہے‘ اور وہ دھونس سے باہر آئے ہوں گے تب ان کے ضمیر نے کچوکے لگائے ہوں گے اور نہوں نے پچھتاوا محسوس کرکے دوبارہ تجدید نکاح کا قصد کیا ہوگا۔ ایمان کی ذرا سی بھی حرارت رکھنے والے کسی مسلمان کاد ل زیادہ عرصے تک اپنے مذہب کی روشنی یا اس کے نور سے خالی نہیں رہ سکتا ۔ آگرہ کے وہ مسلمان جن کی تبدیلی مذہب کا بڑا شہرہ تھا اب جبکہ اس اعلان کے ساتھ کہ ’ہم مسلمان ہیں‘ پھر سر فخر سے اٹھا کر چلنے لگے ہیں تو فرقہ پرستوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ہے۔

’گھرواپسی‘ کے حوالے سے عجیب عجیب دلیلیں دی جاتی ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ مغلوں نے ہندوئوں کو جبراً مسلمان بنایا تھا لہذا اگر اب وہ واپس ہندو بن رہے ہیں تو یہ ان کی ’گھر واپسی‘ ہے اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہیں۔ یہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ کون نہیں جانتا کہ مغلوں میں سے چند نے غیر مسلم عورتوں سے شادیاں کی تھیں اور ان میں سے کئی ساری غیر مسلم ہی رہیں۔ مغل بادشاہوں کے ذریعے جبراً کسی غیر مسلم کو مسلم بنانے کا تاریخ میں کہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ہاں یہ ثبوت ضرور ملتا ہے کہ اعلیٰ ذات کے مظالم سے تنگ آکر پچھڑی ذات والوں نے مسلمان مبلغین اور صوفیائے کرام کے اچھے برتائو اور پچھڑوں کے ساتھ حسن اخلاق اور مساویانہ رویے سے متاثر ہوکر ضرور اسلام قبول کیا۔

نزلہ امام بخاری ، اعظم خان اور اویسی پر اتارا جارہا ہے۔ ملک میں مذہب کے نام پر جو شرانگیزیاں ہورہی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں اور سب ہی جانتے ہیں کہ یرقانی ذہنیت والے یہ شرانگیزیاں کررہے ہیں۔ امام بخاری، اعظم خان اور اویسی تو صرف دفاعی جواب دے رہے ہیں وہ نہ کسی کو ہندو بنانے جاتے ہیں نہ مسلمان بنانے، وہ بس حکومت کی غلطیوں اور اقلیت مخالف پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں ، اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ اب اگر جمہوری حق کا استعمال کرنا اس ملک میں کچھ لوگوں کی نظروں میں غداری ہے تو ہوا کرے کہ ایسوں کی ذہنیت پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

shakeel rasheed
About the Author: shakeel rasheed Read More Articles by shakeel rasheed : 8 Articles with 5507 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.