خیبر پختونخوا سمیت ہزارہ
اور گلیات میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ گئی
ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے ہیں
۔ٹکٹوں کی بندر بانٹ اور من پسندافراد اور فیملی اور اپنے بھائیوں اور
بیٹوں میں تقسیم کے باعث صوبائی حکمران جماعت اور وفاقی حکومت مسلم لیگ ن
اور دیگر سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کے باعث اختلافات شدت
اختیار کر گئے۔ خطہ گلیات حلقہ این 18 اور 17 میں مسلم لیگ ن اور تحریک
انصاف آمنے سامنے آئیں وہاں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل
میں بھی خاندانی اجارہ داریاں قائم کی گئیں اور کارکن کو ہمیشہ کی طرح اس
بار بھی نظر انداز کر دیا گیا اور ٹکٹوں کے اس تقسیم پر تحریک انصاف میں
اختلافات کی چنگاریاں دور تک پھلنے لگیں اس طرح سرکل بکوٹ اور گلیات میں
بھی مسلم لیگ ن میں بھی اختلافات کھول کر سامنے آئے ۔جہاں گلیات ان دونوں
حلقوں سے مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادتوں نے ضلع کونسل کے ٹکٹوں کیلئے اپنے
بھائی اور بیٹوں کو نواز اور کارکن دیکھتے رہے گئے وہی ان کا نامزدگی پر
ووٹر اور کارکنوں میں مایوسی پھیلی حلقہ این 17یونین کو نسل پلک سے ضلعی
کونسل کے لیے گورنر خیبر پختونخوا سردار مہتاب نے اپنے بیٹے کو امیدوار
نامزد کیا ۔اورکارکن دیکھتے رہے گے اس طرح حلقہ این اے 18سے ڈپٹی سپیکر
قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی نے اپنے بھائی طاہر جاوید عباسی کو ضلع
کونسل کا امیدوار نامزد کر لیا اور کارکنوں کا نظر انداز کر تے ہوئے بھائی
کیلئے ووٹ مانگنے کیلئے خود میدان میں کود پڑے ۔اگر دیکھا جائے تو خطہ سرکل
بکوٹ اورگلیات کے یہ دونوں حلقے مسلم لیگ ن کا گڑھ تصور کیے جاتے ہیں اور
اس حلقے سے قومی وصوبائی اسمبلی میں نمائندگی بھی بھر پور ہوتی ہے مگر ان
حلقوں کی حالت دیکھی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کے ان حلقوں میں نمائندگی
نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں ان حلقوں سے ترقیاتی کاموں کی مد میں زیادتی کی
جاتی ہے وہاں ہی ان علاقوں میں قومی صوبائی وبلدیاتی انتخابات میں کارکنوں
کے ساتھ بھی زیادتی کی جاتی ہے اور خاندانی اجارہ داری قائم رکھی جاتی ہے
۔حلقہ این 18میں گزشتہ ہفتے یہ بھی دیکھنے کو ملا جہاں ڈپٹی سپیکر مرتضی
جاوید عباسی نے کینٹ بورڈ کے الیکشن میں حویلیاں سے کارکنوں کے بجائے تحصیل
حویلیاں سے مسلم لیگ ن کے صدر کے نامزدگی کر کے کارکنوں کو ٹکٹ نہیں دیا تو
کارکن جیت گیا اور صدر کی ہار نے ان کے اس فیصلے کے غلط ثابت کیا ، سرکل
بکوٹ اور گلیات میں بھی ان کے فیصلے غلط ثابت ہو گئیاور یہ بھی دیکھنے کو
ملا کے وہ اپنے بھائی کی نامزدگی کے بعد ان کی الیکشن کمپئن خود چلاتے نظر
آتے ہیں اورمختلف علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی مد میں پیسے اور کارنر میٹنگ
میں میں اعلان کرتے دکھائی دئیے اور اپنے آبائی یونین کونسل میں جہاں وہ
اپنے بھائی کو نامزدگی کو عوام کی نامزدگی سے مماثلت دیتے نظر آتے ہیں وہی
وہ اپنی نامزدگی کو علاقے کے ترقیاتی کاموں سے مماثلت دیتے ہیں اور اپنے
بھائی کی کمپئن میں یہ بھی کہتے دکھائی دیتے ہیں کے میں نے بطور ڈپٹی سپیکر
جہاں علاقے کیلئے ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈ کی لڑائی لڑ رہا ہوں میں نے خطہ
گلیات کی کئی خاندانوں بے روزگاری سے بچانے کیلئے ان کے کھوکے او رناجائز
تجاوات نہ ختم کرانے کیلئے میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف سے لڑائی کی
ان خاندانوں کو بچانے کیلئے میں نے اپنی سر دھڑ کی بازی لگا دی اور ان کو
بچایا اس لیے اپنی یونین کونسل سیرغربی سے ضلع کونسل کی نامزدگی کو اپنے
خاندان کو حقدار ٹھہراتے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو ان کی اس نامزدگی سے ان
کو عوامی سطح پر گراف بہت کم ہوا اور ان کے مدمقابل امیدوار جو اس سے پہلے
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی سے یونین کونسل کے ناظم کا
انتخابات ہار چکے ہیں مگر اس مرتبہ ان کے اس فیصلے نے عوام میں ان کو
پذیرائی بخشی اور وہ آزاذ حثیثت سے امیدوار ہیں اور ان کے ساتھ تحریک انصاف
اور جماعت اسلامی اور عوام کی سپورٹ حاصل ہے جس سے ڈپٹی سپیکر خاصے پریشان
نظر آتے ہیں اور اپنے بھائی کی نامزدگی اور جیت کو علاقے کی ترقی سے کے
ساتھ مماثلت دیتے ہیں اور اس طرح خطہ گلیات کی دونوں حلقوں میں دیکھا جائے
تو مسلم لیگ ن ضلع کونسل کے امیدوار کی پوزیشن کمزور ہے اس کی وجہ نظریاتی
کارکنوں کو نظر انداز کر کے مفاداتی اور خاندانی سیاست کی اجارہ داری اور
ٹکٹوں کی تقسیم ہے۔اس مرتبہ آزاد امیدوار سردار فضل ہادی اپنی الیکشن مہم
کو عوام کی الیکشن مہم سے منسلک کرتے ہوئے خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں اور
ن لیگ کے امیدوار کو ٹف ٹائم دئیے ہوئے ہیں جس سے ن لیگ کے امیدوار اور
ڈپٹی سپیکر ہار کے خوف سے اپنی دو سالہ کارکردگی پر پردہ ڈالنے کیلئے ہر
وارڈ سطح پر خود کارنر میٹنگ کرتے نظر آ رہے ہیں اور ترقیاتی کاموں اور رقم
دینے کا اعلان کرتے دکھائی دیئے ہیں۔گلیات کی اس یونین کونسل میں دلچسپ امر
یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ڈپٹی سپیکر اپنے بھائی کو بلامقابلہ منتخب کرانے
کے لئے سردھڑ کی بازی لگائی مگرآخرکارسردار فضل ہادی آزاد امیدوار کے طور
پر سامنے آ گئے جن کے توڑ کے لئے ڈپٹی سپیکر الیکشن قوانین کی دھجیاں اڑاتے
ہوئے یونین کونسل سیرغربی میں مختلف پراجیکٹ اور ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز
دینے کا اعلان کر رہے ہیں جن سے اس یونین کونسل کے باسیوں کو کچھ بنیادی
سہولیات تو میسر آسکیں گی جس کا کریڈٹ ایک لحاظ سے فضل ہادی کے حق میں جاتا
ہے جنہوں نے ڈپٹی سپیکر کو اس علاقے میں فنڈز دینے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔ |