پینشنرز اور جزوقتی اساتذہ

چند دن پہلے ایک بچی سے جو ایک یونیورسٹی میں تین سال سے جزوقتی لیکچرار کے طور پر کام کر رہی تھی ملاقات ہوئی ۔وہ پوزیشن ہولڈر تھی اور اسی بنا پر اسے یونیورسٹی میں ملازمت دی گئی تھی۔پریشان تھی ۔پوچھا تو بتا رہی تھی کہ دو دفعہ کے پیپر مارکنگ کے میرے پیسے کچھ کلرکوں نے خوردبرد کر لیے تھے۔پڑھانے کے پیسے بھی چار ماہ بعد دئیے۔ مجھے ضرورت تھی میں نے احتجاج کیا تو مجھے فارغ کر دیا گیا ہے۔ میں نے کوشش کی کہ چیئرمین سے بات کروں، مگر کلرک شاید مجھ سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ چیئرمین میری بات سننے کو تیار ہی نہیں۔ میں نے مجبوراً ایک دوسری یونیورسٹی جائن کر لی ہے۔ مجھے اس کی باتیں سن کر افسوس ہوا ۔ اول تو ہمارے اچھے طالبعلم ملک میں رکتے ہی نہیں اور جو رک جائیں ان کے ساتھ ہمارا سلوک اس قدر برا ہوتا ہے کہ بیان کرتے شرم آتی ہے مگرایسا سلوک کرنے والوں میں شرم کہاں ۔یہ تو اس ملک کا خاصہ ہے کہ طاقتور کمزوروں سے سب کچھ ہتھیا لیتے ہیں اور ہتھیانے والے شاید تھوڑا تھوڑا حصہ سب کو اوپر تک پہنچاتے ہیں اس لیے محفوط بھی رہتے ہیں۔

اس ملک کی عجیب روایت ہے کہ جس شخص کا داؤ چلتا ہے اور جس کا زور چلتا ہے وہ ہر چیز سمیٹ لیتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو کمزور ہیں ان کی بات کو ئی سننے کو تیار نہیں۔ یونیورسٹیوں کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ یہاں کے مستقل اساتذہ کو بے پناہ مراعات حاصل ہیں مگر وہاں کام کرنے والے جزوقتی اساتذہ مراعات اور بہت سے معاملات میں اچھوت تصور کیے جاتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اپنے شعبوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور ہیں بھی۔ وہ سال ہا سال سے پڑھا تو رہے ہوتے ہیں مگر شعبے کے تما م دیگر معاملات میں ان لوگوں کو پوری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ان کے بیٹھنے کا شعبے میں کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا۔ سپورٹس ڈے، سالانہ کھانے اور دیگر ایسے معاملات اور تقریبات میں ان کو پوچھا ہی نہیں جاتا۔ تنخواہوں کے معاملے میں بھی حکومت اوریونیورسٹیوں کا ان سے سلوک کچھ احسن نہیں ۔پورے ملک میں ہر شخص حتیٰ کہ غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی ہر سال اضافہ کیا جاتا ہے۔ مگر بیچارے جزوقتی اساتذہ اس اضافے سے بھی محروم رہتے ہیں۔ ذاتی وقار اور رکھ رکھاؤ کے باعث شورمچانے یا احتجاج کرنے سے گریز کرتے ہیں مگر یہاں وقار اور رکھ رکھاؤ کی کوئی قیمت نہیں۔ یہ وہ جنس ہے جو ابھی کمیاب ہے۔ بہت ساری یونیورسٹیوں میں چار سے چھ سال پہلے جو معاوضہ جزوقتی اساتذہ کو دیا جا رہا تھا اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا رہا ۔ جس سے جزوقتی اساتذہ میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ ا س دوران مستقل اساتذہ کی تنخواہوں میں کم از کم ستر (70) فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے افسوسناک امر یہ ہے کہ جزوقتی اساتذہ اگر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پربات بھی کریں تو بہترین کارکردگی کے باوجود اُنہیں فارغ کر دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات یا ریکٹر حضرات کو ایسی صورتحال کے تدارک کے لیے کچھ کرنا چاہیے کہ ایسی باتیں ان کی یونیورسٹی کی شہرت کو بھی داغدار کرتی ہیں۔

پنشنر حضرات کے بھی مسائل بڑے سنگین ہیں۔ ای او بی آئی ملازمین یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت نے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشنز کے نجی شعبے کے ملازمین جن کی تعداد تقریباً ساڑھے تین لاکھ ہے، کی پنشن میں یکم اپریل سے ۴۶ فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ مزدوروں کے عالمی دن یکم مئی کو ان ملازمین کو پینشن اس اضافے کے ساتھ ملے گی۔ ایک کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ اوی او بی آئی کے پنشنروں کی پینشن میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اضافہ کیا جائے۔ چنانچہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہی سہی حکومت کا انسانی ہمدردی کا جذبہ جاگا تو سہی۔ بجٹ کی آمد آمد ہے شنید ہے کہ تنخواہوں اور پینشن میں دس سے پندرہ فیصد اضافہ ہوگا۔ مگر چونکہ حکومت کا انسانی ہمدردی کا جذبہ یا تو سپریم کورٹ جگا سکتی ہے یا پھر ہڑتالیں، جلوس اور چیخ و پکار۔ سرکاری ملازمین ہڑتالیں کریں گے، شور مچائیں گے، حکومت کا انسانی ہمدردی کا جذبہ جگائیں گے جو ہڑتالوں سے بہرحال ڈر کر بہت جلدی جاگ جاتا ہے۔ چنانچہ ملازمین کے تنخواہوں میں یقینا ۲۰ فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ رہ گئے بیچارے پنشنرز تو اِس عمر میں نہ تو وہ ہڑتال کر سکتے ہیں، نہ ہی شور مچا سکتے ہیں اس لیے ان کی پینشن میں اضافہ دس فیصد سے زیادہ نہیں ہو پائے گا۔ پچھلے تین سال سے لگاتار ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ۲۰ فیصد کے حساب سے ۳ سال میں تنخواہوں میں اضافہ ۷۳ فیصد ہو چکا ہے جب کہ پینشن میں اضافہ دس فیصد سالانہ کے حساب سے صرف ۳۳ فیصد ہوا ہے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہ کے علاوہ بھی بہت سی مراعات حاصل ہوتی ہیں جن میں اضافہ اسی شرح سے تنخواہ کی طرح ہوتا ہے۔ مگر پینشنرز کے پا س صرف اور صرف پینشن ہی ہوتی ہے، خالص پینشن۔ کاش سپریم کورٹ عام پینشنروں کے لیے جن کی حالت موجودہ دور میں بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے بھی حکومت کو ہدایت کر دے تو شاید حکومت کی انسانی ہمدردی کا جذبہ جاگ جائے اور پنشنر حضرات کا بھلا ہو جائے۔ بہتر تو یہ ہے کہ حکومت خود یہ فیصلہ کرے کہ پینشنروں کو پینشن بھی اتنا ہی اضافہ دیا جائے گا جتنا سرکاری ملازمین کو ان کی تنخواہوں میں دیا جاتا ہے ۔جز وقتی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو بھی عام تنخواہوں سے منسلک کر دیا جائے تو بہت سے لوگ اہل اقتدار کے لئے دعاگو ہوں کے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 454671 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More