ایوارڈ پر سیاست حاوی

ایک زمانہ تھا کہ ایوارڈ غیر معمولی صلاحیتوں اور کارناموں پر دیا جاتا تھا ۔جنھیں ایوارڈ ملتا تھا ، ان کی سماج اور اس میدان میں ، جس میدان میں اسے قابل قدر خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے سرفراز کیا جاتا تھا ، وہاں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جا تا تھا ۔ لیکن آج یہ صورت حال یہ ہے کہ ایوارڈ پر سیاست حاوی ہے ، نتیجہ میں یہ ایوارڈ،بے وقعت اور بے وزن ہو گئے ہیں ، اس لئے کہ سرکاری اورنیم سرکاری اداروں میں انعام واکرام سے ایسے لوگوں کو نوازا جاتا ہے، جو بہرحال اس کے مستحق نہیں ہوتے یا پھر کسی دوسرے کی حق تلفی کرکے حاصل کئے جاتے ہیں ۔ ایسی ہی حق تلفی سے احتجاج کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کی ڈاکٹر ارجمند آرأ نے دہلی اردو اکادمی کا ایوارڈ یہ کہ کر ٹھکرا دیا کہ ایک ایسی کتاب کو ان کی کتاب کے مقابلے بہتر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، جو نہ صرف متنازعہ بلکہ دوسروں کے اڑائے ہوئے مضامین پر مشتمل ہے۔پچاس ہزار کی رقم ، سند ، شال اور شیلڈ کو ٹھکرا کر ڈاکٹر ارجمند آرأ نے یقینی طور پر ایک جرأتمندانہ قدم اٹھایا ہے۔ ویسے ان دنوں’ بھارت رتن ‘سے لے کر ریاستی اکا دمی تک کے ایوارڈ موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ سابق وزیراعظم اور بھاجپا رہنما اٹل بہاری باجپئی اور بنارس ہندو یونیورسٹی کو قائم کرنے والے مدن موہن مالویہ کو’ بھارت رتن‘ کے اعزاز سے نوازاگیا تو ، کئی نام سامنے آئے کہ انھیں بھی یہ قومی اعزاز ملنا چاہیے۔ جن میں سر سید احمد خاں کا نام ہر لحاظ سے مناسب تھا کہ انھوں نے بھی بنارس ہندو یونیوسٹی کی طرز پر علی گڑھ مسلم ہونیورسٹی کی بنیاد ڈالی تھی۔ جب کبھی بھارت رتن ایوارڈ کسی کو دئے جانے کا اعلان ہوتا ہے ، اس کے خلاف کسی نہ کسی حلقہ سے احتجاج کی آواز بلند ہوتی ہے۔ کرکٹ کھلاڑی سچن تندولکرکو جب بھارت رتن سے نوازے جانے کا اعلان ہوا تھا ، اس وقت احتجاج نے زیادہ شدّت اختیار کر لی تھی اور زبردست مخالفت ہوئی تھی۔۔ ویسے ہمارے ملک میں ایسی کئی عظیم ہستیاں ہیں ، جنھوں نے’ بھارت رتن‘جیسے اعزاز کو بھی ٹھکرا کر اپنی عظمت کا ثبوت دیا ہے۔ ان میں جیوتی باسو کے بعد دوسری ہستی نیتا جی سبھاش چند بوس کے خاندان کے لوگ ہیں ، جنھوں نے گزشتہ سال بھارت رتن دئے جانے کے اعلان کے بعد صدر جمہوریہ ہند سے ملاقات کر، اس اعزاز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔

بھارت رتن کے بعد دوسرا بڑا سرکاری اعزاز پدم ایوارڈ ہے، جو ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے۔ ابھی چند روز قبل پدم اعزاز سے متعلق سابق مرکزی وزیر اور سینئر سیاسی رہنما، شرد یادو نے اپنے ایک بیان سے ایسے تمام ایوارڈ پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ۔ اپنے متنازعہ بیان میں انھوں نے کہا کہ ’پدم ایوارڈ‘ صرف مکاّر ، بے ایمان اور بڑے لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ انھوں نے ایوارڈ کو بندر بانٹ سے تعبیر کرتے ہوئے بتایا کہ جس طرح برٹش حکمراں اپنے چاپلوس راجاؤں، منصب داروں اور زمینداروں کو سر، لارڈ، ہز ہائنس، اور را جہ مہاراجہ، اپنے درباریوں کو رائے بہادر، اور راؤ جیسے خطابات کی تقسیم کیا کرتے تھے ۔ اسی طرز پر آزاد بھارت کی ہماری حکومتیں ایسے اعزازات بانٹتی چلی  آ رہی ہے۔

شرد یادو کی باتیں تیکھی ضرور ہیں ، لیکن جو حقائق بیان کئے ہیں ، ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پدم ایوارڈ کا انتخاب ہمیشہ ذات پات، مالی حیثیت اور شخصیات کی حکومت وقت کی قربت کو دھیان میں رکھ کر کیا جاتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ چند برسوں میں بے شرمی کی انتہا یہ دیکھنے کو ملی کہ کا رپوریٹ اور صنعتی اداروں کے بڑے افسران کو یہ ایوارڈ دیا جانے لگا ہے ۔

ان ہی خامیوں کے پیش نظر پدم ایوارڈ 1978 اور 1979 میں کسی کو نہیں دیا گیا تھااور 1993 سے 1997تک اس ایوارڈ کو بند کر دیا گیا تھا ۔ لیکن حکومت وقت اپنے درباریوں کو خوش کرنے کے لئے اس سلسلہ کو بند نہیں چاہتی تھی ۔ اس لئے کانگریسی حکومت نے پدم ایوارڈ کو دوبارہ شروع کر دیا ، اور ایسے ایسے لوگوں کو دیا ، جس سے بہرحال یہ اعزازبے وقعت ہو گیا ۔ 2010 میں پدم شری کا یہ سرکاری اعزاز امریکہ میں ایک ہوٹل کے کاروباری اور کئی معاملوں میں ملوث سنت سنگھ چھٹوال کو دیا گیا تھا ۔ جس پر بڑے پیمانہ پر احتجاج ہوا اور حکومت وقت کو شرمندہ ہونا پڑاتھا ۔

ویسے ہمارے ملک میں ایسے بہت سارے خود دار، با ضمیر اور ایماندار مشاہیر اور سرکردہ شخصیات ہیں ، جنھوں نے  یہ کہہ کر پدم ایوارڈ کو ٹھکرا دیا کہ ان کے لئے اس ایوارڈ کو قبول کرنا مناسب نہیں ، بعض لوگوں نے سخت احتجاج کرتے ہوئے اس ایوارڈکو ٹھکرا کر مثالیں پیش کی ہیں ۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار کرشنا سوامی نے 1999 میں پدم بھوشن کا اعزاز یہ کہتے ہوئے لوٹا دیا تھا کہ صحافیوں اور بیوروکریٹس کو ایسے ایوارڈ قبول نہیں کرنا چاہئے۔ مشہور تاریخ داں رومیلا تھاپڑ نے 1992 میں اور پھر 2005 میں پدم بھوشن ایوارڈ کو بڑی حقارت سے یہ کہتے ہوئے لینے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ صرف تعلیمی اداروں کے ایوارڈ قبول کر سکتی ہیں ۔ معروف قانون داں جسٹس جگدیش شرن ورما کو ان کے 80 سال کی عمر میں انتقال کے بعد’ پدم بھوشن‘ دینے کا اعلان کیا گیا تو ، ان کی اہلیہ اور ان کے اہل خانہ نے صدر جمہوریہ ہند سے ملا قات کر اس ایوارڈ کو قبول کرنے سے یہ کہ کر انکا ر کیا کہ یہ ایوارڈ جے سی ورما کے اصولوں کے خلاف ہے ۔ ستِار وادک ولایت علی خاں بھی پدم شری (1964 )، پدم بھوشن ( 1968 ) اور پدم وِبھوشن ( 2000 ) کو ٹھکرا کر اپنی عظمت کا ثبوت دے چکے ہیں ۔ ہندی کے مشہور ناول نگار پھیشور ناتھ رینو نے ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 1975 میں ’پدم شری‘ لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ ایسے اہم اور عام طور پر باوقار سمجھے جانے والے ان سرکاری پدم اعزازات کو ٹھکرا کر ان لوگوں نے یقینی طور پر ایسے لوگوں کے لئے مثالین قائم کی ہیں ، جو صِلہ کی پرواہ ، نہ ستائش کی تمنّا کے مصداق اپنے اپنے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں ۔
فلموں اور کھیل کود کے تعلق سے بھی ایسے سرکاری ایوارڈ کے خلاف ہمیشہ احتجاج ہوتا رہتا ہے۔ سلمان خاں کے والد سلیم خاں نے پدم شری کا ایوارڈ یہ کہ ٹھکرا دیا تھا کہ یہ ایوارڈ میرے کئی جونیئر کو مل چکے ہیں ، اس لئے میرے لئے اب اس کی اہمیت نہیں رہی ۔ ادبی خدمات کے لئے دیا جانے والا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کچھ زیادہ ہی متنازعہ رہتاہے۔ یوں تو ادب کے حوالے سے کئی زبان کے مشاہیر ادب کو ان کی غیر معمولی ادبی خدمات کے لئے یہ اعزاز دیا جاتا ہے۔ لیکن اکثر ان زبانوں کے ایوارڈ پر کچھ نہ کچھ تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں اس وقت تفصیل ممکن نہیں، چند مثالوں پر اکتفأ کر رہا ہوں ۔ 1976 میں سندھی ادب کا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، سندھی شاعر لکشمن بھا ٹیہ کومل کو دیا گیا تھا ۔ ایوارڈ کا اعلان ہوتے ہی ایک ہنگامہ ہو گیا کہ سندھی ادب کا ایوارڈ ایک ایسے شخص کو دیاگیا ہے، جس نے چوری، پوری سینہ زوری کے ساتھ کی ہے ۔ جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس سندھی شاعر کے جس، ساٹھ نظموں کے مجموعہ پر ساہتیہ اکادمی نے انعام دیا ہے۔ ان میں 39 نظمیں اردو کے پانچ مشہورشاعر، شہریار، مظہر امام، مخمور سعیدی، بلراج کومل، اور محمد علوی کی چرائی ہوئی ہیں ۔ ان نظموں کا صرف رسم الخط بدل دیا گیا تھا ، عنوان تک وہی رہے۔ اسی طرح 1997 میں گیان سنگھ شاطر کے اسی نام کے سوانحی اردو ناول کو ساہتیہ اکادمی نے اعزاز بخشا تھا۔ گیان سنگھ شاطر، اردو ادب کے منظر نامہ پر ایوارڈ سے قبل نظر آئے اور نہ ہی ان کا کوئی ’’ گرانقدر‘‘ کارنامہ بعد میں ہی نظر آیا ۔ ناول کے معیار کا عالم یہ تھا کہ اسے اخلاق سوز ناول قرار دیا گیا تھا ،جو ادب کا حصّہ نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح اردو ادب میں ’’گرانقدر‘‘ خدمات کے لئے دئے جانے والے کئی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ پر ہنگامے ہوتے رہتے ہیں ۔ 966,1968,1972,1973,1977 اور 1981میں ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ اردو میں کسی کو نہیں دیا گیا تھا ۔ اس لئے کہ ان برسوں میں اکادمی کے ممبران کے سامنے ایسی کو ئی معیاری کتاب نہیں آئی، جنھیں اس انعام کا حق دار سمجھا جاتا ۔ حالانکہ یہ وہ دور تھا کہ جب قاضی عبد الودود، کلیم الدین احمد، اختر اورینوی، سہیل عظیم آبادی، جمیل مظہری، جوگندر پال، خواجہ احمد عباس، عبدا لمغنی وغیرہ کی ادب میں شہرت و مقبولیت عروج پر تھی۔ آج یہ حال ہے کہ بقول معروف صحافی زین شمسی ’’ پہلے اردو کے ادیب ایسا لکھتے تھے کہ سرکار کی نیند اڑ جایا کرتی تھی۔ اب ادیبوں کو عقل آ گئی ہے ۔ اب وہ سرکار یا معاشرہ کو نظر انداز کر تخلیق نہیں کرتے، بلکہ ایوارڈ ایجینسیوں سے پوچھ کر لکھتے ہیں کہ بتائیں کہ کیا لکھوں کہ آپ مجھے نوازیں ‘ ۔ مقبول شاعر مظہر امام نے بھی ایک وقت میں اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ’ ’ چھوٹی زبانوں میں لکھنے والے ہر صاحب کتاب کو ساہتیہ اکادمی انعام مل جاتا ہے۔ اردو میں بھی کچھ ایسے لوگوں کو یہ انعام مل چکا ہے، جو ہر گز اس کے اہل نہیں تھے ۔ تعلقات اور سیاست کو ہر جگہ دخل ہے۔ اب ساہتیہ اکادمی انعام کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ اس کا حاصل کرنا کوئی فخر کی بات نہیں ‘‘ ۔

گزشتہ ماہ حکومت بہار کے محکمہ ہندی راج بھاشا ، نے ہندی کے 14 مشاہیر ادب کو تین لاکھ سے لے کر پچاس ہزار تک کے انعام کا اعلان کیا۔ اعلان ہوتے ہی ایک ہنگامہ مچا ۔ ہنگامہ اس لئے ہوا کہ پوری فہرست راج بھاشا کمیٹی کے صدر نامور سنگھ اور اس کے ممبر ارون کمل کے علم میں لائے بغیر ہی مرتب کر دی گئی تھی۔اس فہرست میں شامل جب کئی مشاہیر ادب نے احتجاج کرتے ہوئے ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ، تب اس محکمہ کے ڈائریکٹر ہندی راج بھاشا، نے بڑی بے شرمی سے یہ بیان دیا کہ ’جنھیں ایوارڈ لینا ہے ، وہ لینگے، جو نہیں لینگے، تو ہم کیا کریں ۔ ایوارڈ نہیں لینگے، تو رقم بچے گی ، جو مفاد عامّہ میں کام آئے گی‘۔ ایسے جواب کے بعد کوئی بھی غیرت مند اور با ضمیر ادیب و شاعر ایوارڈ لے کر اپنی ذلّت اور رسوائی ہی کرائیگا ۔ چند روز قبل حکومت بہار کے وزیر اقلیتی فلاح و بہبود نے بھی تھوک کے حساب سے بہار اردو اکادمی کے ایوارڈ تقسیم کئے ۔اس تقسیم سے قبل ہی مقامی ایک روزنامہ نے اس ایوارڈ کے فیصلے پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ۔ یہاں بھی ، دہلی اردو اکاڈمی جیسی صورت حال دیکھنے کو ملی کہ ایک ایسی کتاب کو اوّل انعام سے نوازا گیا ، جو کہ قبل شائع ہونے والی ایک دوسرے کی کتاب کا چربہ ہے۔ جبکہ بعض قدآور شخصیات کے افکار وخیالات سے سے مزّین کتاب کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ۔ ایسی نا انصافیوں سے خفا ہو کر اور یہ کہتے ہوئے بہار اردو اکادمی کا ایوارڈ ر ضوان احمد، بدر اورنگ آبادی ، شان الرحمٰن اور شاہد جمیل وغیرہ ٹھکرا چکے ہیں کہ اکادمی اگر عزّت نہیں دے سکتی ہے ، تو کم از کم ذلیل نہ کرے ۔ان دنوں سوشل میڈیا پر بھی ایوارڈ کو لے کر جنگ چھڑی ہوئی ہے۔

ایسے حالات میں قومی ایوارڈسے لے کر ریاستی ایوارڈ تک پر جس طرح سیاست حاوی ہے ، اور ایوارڈ کے معیار کو غیر معیاری اور بے وقعت بنایا جا رہا ہے، اس سے بے لوث خدمت گزاروں کی دل شکنی اور حوصلہ شکنی بہرحال ہو رہی ہے۔ جس کی جانب مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو بہت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس میں حکومت خود کو مجبور و بے بس پاتی ہے تو بہتر یہی ہوگا کہ شرد یادو کے مشورہ پر عمل ہوئے ایسے تمام ایوارڈ کو بند کر دیا جائے ۔

Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 122482 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More