آج میں خوش ہونے کی کوشش کر رہا تھاکیونکہ جب میں نے ایک
پرانی خبر پڑھی کہ پاکستانی قوم کے مسائل اپنی جگہ مگر مزاجاََ خوش اخلاق
اور ہنس مکھ قوم ہیں ، اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ2014ء میں شائع ہوئی تھی اور
اس رپورٹ کے مطابق ہم نے امریکہ اوربھارت کوبھی پیچھے چھوڑ دیاتھا قدرے
غریب اور ترقی پذیر ممالک کے شہری سب سے زیادہ خوش باش قرار پائے گئے ، کو
سٹاریکا پہلے نمبر پر امریکہ 105، برطانیہ44ویں بھارت 111اور پاکستان
16نمبر رہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ پرانی رپورٹ کیوں بتا رہے ہو ،تو عرض یہ ہے
کہ کبھی کبھی خوش ہونے کا حق تو ہم پاکستانیوں کو ہونا چاہیے ، اس لئے
پرانی رپورٹ پڑھ کر کر دل کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، ورنہ آج کل تو
بغیر رپورٹ کے ہی سب جانتے ہیں کہ پاکستانی کتنے خوش ہیں۔دنیا کی سب سے
دکھی قوم یوکرینی قرار پائے۔ابھی یہ خبر پڑھ کر کمر سیدھی کی ہی تھی کہ ایک
خبر اور پڑھنے کو ملی کہ شہر میں کتا مار مہم شروع کردی گئی ہے ۔ سمجھ میں
نہیں آیا کہ کیا کتا مار مہم کا مطلب وہی ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں یا پھر
بقول شخصے ، انسان بھی ایک کتا ہے ، جو اس وقت تک وفادار رہتا ہے جب تک
ایسے ہڈی ملتی رہے۔ بھونکنے والے کتے ، کاٹتے نہیں لیکن ایسا بھی سمجھا جا
تا ہے کہ خاموش طبع کتا ، بھونکنے کے بجائے کاٹنے کو ترجیح دے سکتا ہے۔ کتا
ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگتا ہے ۔ جیسے ہمارے بعض سیاستدان جو اقتدار کے
کرسی کے پیچھے اس طرح بھاگتے ہیں کہ کبھی کھبار کرسی پیچھے رہ جاتی ہے ۔خیر
ذکر کر رہا تھا کہ کراچی میں کتوں کو مارنے کیلئے مہم کا آغاز کرتے ہوئے
گولیاں ، مطلب کیپسول فراہم کردیئے گئے ہیں۔ اب میری ایسی جرات تو ہر گز
نہیں کہ میں اشرف المخلوقات کو کسی جانور سے تشبہہ دے سکوں لیکن اکثر سیاست
دانوں کے یہ بیانات ضرور پڑھتا ہوں جب ٹارگٹ کلنگ ہو جاتی ہے کہ یہ انسان
نہیں ، انسان کے نام پر دھبہ شبہ ہیں، درندے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن کسی نے
دہشت گردوں کو کتا کہہ کر کتے کی توہین نہیں کی۔ لیکن جس طرح شہر کراچی میں
علم کے معماروں اور سماجی رہنما ؤں کودن دہاڑے ہلاک کئے جا رہے ہیں ، کچھ
کہنا چاہتا ہوں ، لیکن سمجھ لیجئے کہ میرے ایڈیٹر نے وہ الفاظ سنسر
کردئیے۔جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وحید الرحمان(
یاسر رضوی بھائی) کو دہشت گردوں کے ہاتھوں دن دہاڑے دہشت گردی کا نشانہ
بنادیا گیاکہ جس شہرمیں علم کے پاسبان محفوظ نہ رہیں وہ شہربہ جلد عتاب
الہی کا شکار ہوجاتا ہے۔گذشتہ دن سماجی رہنما نڈر خاتون سبین محمود کی دہشت
گردی میں ہلاکت کا واضح مطلب ہے کہ ملک خداداد پاکستان انسانی حقوق اور علم
کے زیور سے مزین کرنے والوں کیلئے مقتل گاہ بن چکاہے ، حکومتی رٹ کئی نظر
نہیں آتی صوبائی حکومت انتہائی نا اہل ہوچکی ہے ، پے در پے ایسے ہولناک
واقعات کا رونما ہونا انتہائی افسوس ناک اور تشویش ناک ہے ، کراچی میں
ڈاکٹر وحید الرحمان اور سبین محمود جیسے نابغہ روزگار جیسی ہستیوں کی ٹارگٹ
کلنگ پاکستان کی تاریخ کے المناکیوں میں سیاہ ترین دن رہے ، ڈاکٹر وحید
الرحمان، پروین رحمان ، سبین محمود جیسی نامور ہستیاں اپنے علاقوں میں ظلم
کے خلاف ایک استعارہ سمجھے جاتے تھے اب اس دنیا فانی میں نہیں رہیں۔
18فروری2014کو میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید قاضی ،
26فروری 2014کو پروفیسر تقی ہادی ، 09ستمبر2014کو دینی مدرسے کے استاد اور
جامعہ بنوریہ سائٹ کے مفتی مولانا مسعود ، جامعہ کراچی کی فیکلٹی آف اسلامک
اسٹیڈیز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو 18ستمبر2014، پروفیسر سبط جعفر
کو 18مارچ 2013، رواں ماہ ہی جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وایس پرنسپل
ڈاکٹر ڈیبر الوبو پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئی ۔ ایک
طویل فہرست ہے کہ علم کے میناروں کو کس طرح چن چن کر ہلاک کیا جا رہا ہے
اور کراچی میں ابھی تک کتا مار مہم ہی شروع نہیں کی جا سکی۔
خیر چھوڑیں ،پاکستان کے حالات سے تو سب ہی با خبر ہیں ، ایک چونکا دینے
والی خبر بھی سامنے آئی کہ سعودی فرما روا نے ولی عہد کو تبدیل کردیا ۔ ان
کا داخلی معاملہ ہے ، شہزادہ مقرن نئے ولی عہد شہزادہ محمد نایف بن
عبدالعزیز سے بیعت لینے میں سب سے آگے تھے۔ شہزادہ مقرن نے ولی عہد کی ذمے
داری ادا کرنے سے معذرت کی تھی ، سلمان بن عبدالعزیز کا صائب فیصلہ ہے کہ
نئی تقرریوں اور کابینہ میں نوجوانوں کی نمائندگیوں کا تناسب زیادہ ہونا
چاہیے۔یمن میں باغیوں کا سر سختی سے کچلا جا رہا ہے اور سانپ کی طرح پھن
اٹھائے اسلام کے اتحاد کے باغی ، دنیا بھر میں اسلام میں فرقہ واریت کو ہوا
دینے والوں کی سرکوبی جا رہی ہے ۔ پاکستان کو آگے بڑھ کر اپنا فیصلہ کن
کردار ادا کرنا چاہیے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستانی عوام ان کو ان کی ذمے
داریوں سے سبکدوش کردیں۔شام و عراق میں بھی پاکستانی کی فوج کو اقوام متحدہ
کی قرار داد کے مطابق اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ، ویسے میرا ذاتی
خیال ہے ایسا اسلامی ایٹم بم بنانا چاہیے تھا کہ جو اسلام کے نام پر فرقہ
واریت کر رہے ہوں اور اسلام کا نام بد نام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہوں ،
کبھی داعش تو کبھی کس نام سے اسلام کے آفاقی پیغام کو نقصان پہنچا رہے ہوں
، شام اور عراق میں ظالموں پروہ ایٹم بم گرا دینا چاہیے تھا، اس میں صرف
وہی کتے ہلاک ہوں جو بھونکتے بھی ہیں اور کاٹتے بھی ہیں ۔ ایسے لوگوں کا
اسلام سے کیا واسطہ جو اسلام کے امن کے پیغام کو تشدد کے ذریعے جبر کی طاقت
سے نافذ کرنا چاہتے ہوں ، ایسے ظالموں اور دہشت گردوں کو ایک ایک کرکے نہیں
بلکہ اسلامی بم کے ذریعے ایک ساتھ ہی ختم کر دینا چاہیے تاکہ امت واحدہ
کاتصور پارہ پارہ نہ ہو۔ کاش کوئی ایسا ایٹم بم ہوتا جو صرف فرقہ وایت کے
کتوں پر ہی اثر کرتا ۔ کاش کوئی ایسا کیپسول ہوتا جو فرقہ واریت کو ختم
کردیتا ۔ یہ سائنس دان ایسا کیوں نہیں سوچتے ، آخر ڈرون طیارے بھی تو
ایجادہوئے ہیں جو مخصوص ٹارگٹ پر ہی حملہ آور ہوتے ہیں ، یہ یمن ، شام ،
بیروت ،عراق ، مصر ، لیبا ، افریقہ ، کریمیا ، پاکستان ودیگر میں فرقہ
واریت کے پرچاروں کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے بھی ایسا ٹیکنالوجی بنائیں جو
فرقہ واریت کے پرچارکوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیں۔اور اسلام کو ان کتوں سے
نجات حاصل ہو۔دہشت گرد کی جو بھی شکل ہو لیکن پہلے وہ دودھ پی کر پلتا ہے ،
بھونکتا ہے اور پھر جب پاگل ہوجاتا ہے تو اپنے مالک کو بھی کاٹنے سے دریغ
نہیں کرتا ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ پڑھ کر بے ساختہ ہنس پڑا ۔ کچھ سمجھے کہ
خوشی سے ہنسا ہونگالیکن سچ یہی ہے کہ مجھے ایسے پاگلوں پر ہنسی آئی جو
پاکستان کو خوش باش ، خوش مزاج اور خوش اخلاق ممالک میں16واں نمبر دیتے
ہیں۔ تمام سیاست دانوں کی تقاریر سن لیں ۔ اگر پیمپرا کا ادارہ اپنا درست
کردار دا کرتا تو اتنے بار بیپ بیب کی آوازیں آتی کہ تمام تقریروں کو حذف
کرکے اخبار کہ شہ سرخی میں لکھا ہوتا کہ بیب بیب بیب۔۔۔۔۔۔۔۔میں تو صرف یہی
کہ سکتا ہوں کہ ۔۔۔۔ میں بھی اتنے بیب بیب بیب کہوں کہ میرا کالم بھی بیب
بیب بن کر رہ جائے ۔ خدا کیلئے کچھ تو خوف خدا کرو ۔ پاکستان اور مسلمانوں
کی حالت کیا ہو رہی ہے اور یہاں علاقے فتح کرنے کیلئے نہ جانے کون سی
روایتوں کا پرچار کیا جاتا رہا ہے ۔ کراچی میں امن قائم ہونے لگا ہے اس کا
سب سے بڑا ثبوت کٹی پہاڑی ہے ، جہاں ایک ناخواندہ نے پڑھے لکھوں کیلئے اپنا
رکشہ بیچ کر کیمپوٹر انسٹی ٹیوٹ قائم کردیا ہے اور اُس علاقے میں جہاں
سوائے گولیوں کی تڑٹراہٹ اور بے گناہوں کی لاشوں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا
تھا ، عارف میاں بھی خوب خوش ہیں ، کہتے ہیں کہ کوئی خوش ہو یا نہ ہو ، میں
بہت خوش ہوں ، وجہ پوچھی تو بتا یا کہ اس کے مالک کا اپنے تمام دوستوں سے
زبردست جھگڑا ہوگیا ہے اب ان سب کی باتیں سننا نہیں پڑتی دم دما دم مست ہوں
میں نے خود عارف میاں سے کہا کہ ابھی تھوڑی خوشی ملی ہے،وہ بھی تجھے برداشت
نہیں، تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ !!! |