نیب،ایف آئی اے اصلاحات ،اور اِنٹیلی جنس اِیجنسیوں کے مشورے

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی( ایف آئی اے) کو کرپشن کے پاک کرنے کی قسم کھا رکھی ہے جس کے لئے اُنہوں نے بڑے کیسوں میں معاونت حاصل کرنے کے لئے انٹر سروسنز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) سے ایک ایک افسر شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، آئی ایس آئی سے مشورے کا فیصلہ تو ٹھیک ہے مگر شاید وفاقی وزیر داخلہ کو یہ بات معلوم نہیں کہ انٹیلی جنس بیورو میں کوئی اور نہیں بلکہ وہی پولیس والے ڈیپوٹیشن پر کام کرتے ہیں جو کبھی ایف آئی اے ، کبھی پولیس یا کبھی انٹیلی جنس بیورو میں وقتاً فوقتاً تعینات ہوتے رہتے ہیں، اب ایف آئی اے میں انٹیلی جنس بیورو کے مشورے اگر شامل کئے گئے تو ایف آئی اے کا مذید بیڑہ غرق ہو جائے گا، کیونکہ اِس وقت آئی بی میں ایسے افراد بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جن میں پولیس سروس آف پاکستان ( پی ایس پی ) گروپ کے دو اعلیٰ افسران خیبر پختونخواہ پولیس کے اسلحہ و بلٹ پروف جیکٹس کی خریداریوں کے اسکینڈل میں بھی ملوث ہیں، جن کے خلاف نیب کئی بار اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو یہ لکھ چکا ہے کہ اِن افسران کو او ایس ڈی بنایا جائے تاکہ اِن سے مذکورہ اسکینڈل کی تحقیقات کرنے میں آسانی ہو سکے، مگر اب تک وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی عمل درآمد نہ ہو سکا ، ہمارے ملک کی سب سے ناکام خفیہ ایجنسی کا نام انٹیلی جنس بیورو ہے جس کو اب تک سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے، یہ ایجنسی ملک میں دہشت گردی اور کرپشن کی روک تھام کی رپورٹنگ کرنے کی بجائے خاص طور پر سیاست دانوں کے لئے جاسوسیاں کرتی ہے جن میں شریف لوگوں یا کسی سیاسی دُشمن کے ٹیلی فون ٹیپ کرنا یا کسی دُشمن کے خلاف بے بنیاد رپورٹ بناکر وفاقی حکومت یا دوسرے اداروں کو ارسال کرنا یا پھراُس رپورٹ کو میڈیا میں شائع کرواناشامل ہیں، انٹیلی جنس بیورو کا محکمہ اسوقت مکمل طور پر خسارے میں جا رہا ہے،سفارتی ذرائع کے مطابق دہشت گردی کے متعلق آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کی کئی اطلاعات امریکہ سمیت کئی دوسرے ممالک کے ساتھ شیئر کی گئیں جن میں انٹیلی جنس بیورو کی کئی رپورٹس جھوٹی اور بے بنیاد ثابت ہوئیں ، جبکہ آئی ایس آئی واحد ایجنسی ہے جس کی رپورٹس سو فیصد درست قرار دی گئی ہیں، غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی پاکستانی آئی ایس آئی کی کارکردگی سے متاثر و مطمئین ہیں مگر جب اُن سے انٹیلی جنس بیورو کی بات کی جائے تو وہ چھپ سادھ لیتے ہیں، آئی ایس آئی کی رپورٹس اس لئے بھی کارآمد ہوتیں ہیں کہ اُن میں بری، بحری اور ہوائی افواج کے افسران سمیت سول افسران مشترکہ طور پر کام کرتے ہیں ، جبکہ انٹیلی جنس بیورو میں نیب زدہ یا سزا وار پولیس افسران کو ڈیپوٹیشن پر تبدیل کر دیا جاتا ہے اور وہاں بیٹھ کر وہ اپنے کرپشن کیسوں کو ختم کرنے کے لئے جدو جہد کرتے ہیں یا اپنی یا کسی سیاسی دوست کی دُشمنی کا انتقام لینے کے لئے آئی بی کے وسائل استعمال کرتے ہیں، ماضی میں خیبر پختونخواہ کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے خود کو آئی جی پولیس تعینات نہ کرنے کا بدلہ لینے کے لئے صوبے میں ایم ایم اے کی حکومت کو بدنام کرنے کے لئے انٹیلی جنس بیورو کے آفس کے گیٹ پرخود ہی بارودی مواد رکھوا دیا تھا جس کا الزام آئی بی کی جانب سے ایم ایم اے کی صوبائی حکومت اور اُس وقت کے آئی جی پولیس رفعت پاشا پر عائد کیا گیا، جبکہ مذکورہ پولیس افسر خود بھی انٹیلی جنس بیورو کا جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل تھا جن کو بعد میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور آئی جی موٹروے پولیس تعینات کیا گیا، آئی بی کے لئے جو مخبر کام کرتے ہیں اُن کو اطلاعات کے عوض بہت کم اُجرت دی جاتی ہے جبکہ مخبروں کے نام پر کروڑوں کے سیکرٹ فنڈ سے ملنے والے نقد انعامات بھی انٹیلی جنس بیورو کے افسران خود ہڑپ کر جاتے ہیں، ایک وقت تھا کہ انٹیلی جنس بیورو کے افسران کو بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں میں بطور قونصلر تعینات کیا جاتا تھا مگر آئی بی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اب صرف آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے افسران ہی سفارتی میشن میں تعینات ہوتے ہیں، آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر یا تو سیاسی سفارشی پولیس افسر کو تعینات کیا جاتا ہے یا تو کسی غیر ملکی سفیر کے سفارشی افسر کو تعینات کیا جاتا ہے، خیبرپختونخواہ سے ہی تعلق رکھنے والے ایک سابق پولیس افسر جو انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل تھے نے اپنی ریٹائرڈمنٹ کے کچھ دن پہلے ایک تقریب میں امریکی سفیر سے ملاقات کرکے اُنہیں اُن کی مدت ملازمت میں توسیع دلوانے کی درخواست کی مگر نواز شریف حکومت کو معلوم ہونے پر اُنہیں وقت پر فارغ کر دیا گیا۔ صوبوں میں اسپیشل برانچ پولیس کی کارکردگی بھی آئی بی سے بہتر ہے اب اتنی کہانی تو وفاقی وزیر داخلہ کو معلوم ہونی چاہیئے ، اگر اُنہوں نے حقیقی معنوں میں ایف آئی اے کو کرپشن سے صاف کرنا ہے تو وہ مذکورہ محکمے میں پولیس کی بجائے فوجی یا آئی ایس آئی کے افسران کو ڈیپوٹیشن پر تعینات کریں جس طرح ملک کی انسداد منشیات فورس میں تمام فوجی تعینات ہیں اور مذکورہ محکمہ اپنی کارکردگی احسن طریقے سے نبھا رہا ہے، ملک کے چاروں صوبوں میں تعینات ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ز کی تعیناتی سیاسی طور پر کی گئی ہے ، جبکہ اچھی شہرت رکھنے والے پولیس افسران کو او ایس ڈی بنا کر گھر میں بٹھا دیا گیا ہے یا پھر اُنہیں بلوچستان جیسے صوبے میں تبدیل کرکے جان چھڑائی گئی ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایف آئی اے میں تعیناتی سے قبل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اپنے افسر کا ریکارڈ کیوں معلوم نہیں کرتے یا پھر اُنہیں غلط گائیڈ کیا جاتا ہے۔دوسری جانب چیئرمین نیب نے بھی یہ اعلان کر دیا کہ وہ نیب کو ملائشین انٹی کرپشن طرز کا نظام نیب میں متعارف کروائیں گے ، راقم جو اس وقت ملائشیاء میں گزشتہ تین سال سے موجود ہے سمیت کئی پاکستانی تارکین وطن اس بات کے گواہ ہیں کہ ملائشیاء میں کرپشن کی روک تھام کے لئے بنائے جانے والے اداروں کی کارکردگی پاکستانی پولیس سے بھی بیکار ہے۔ جس کا اندازہ ملائشیاء میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کے سفارت کاروں کی کرپشن سے لگایا جا سکتا ہے۔

Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 101 Articles with 90274 views i am a humble person... View More