ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے منی لاڈرنگ
کیس،بلدیہ ٹاؤن فیکٹری جلانے اور ان کی جماعت کا نام آنے ،نائن زیرو سے
خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری،صولت مرزا کے ایم کیو ایم کے خلاف انکشافات
،ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے افراد جن کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی را
سے ثابت ہوچکا کی گرفتاری کے بعد ایم کیو ایم کی دنیا بھر میں رسوائی کے
بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ،بلکہ غیر سنجیدگی ،وطن دشمنی کی حد کر دی
پاکستان کے اہم اداروں کے خلاف تقریر دے ماری جیسے سارا ملک اور ادارے ان
کے غلام ہوں پاک فوج کے خلاف بیان کے بعد ان کی وطن دشمنی نمایاں ہوگئی
،اپنے کارکنوں کو یہاں تک کہہ دیا کہ فوجی ٹرینگ حاصل کریں جبکہ قومی
قائدین سیاسی جماعتوں کو اپنے عسکری ونگ ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں پاک فوج
بھی اسی کوشش میں مصروف ہے ایسے وقت میں الطا ف حسین کا اپنے کارکنوں کو
فوجی ٹرینگ حاصل کرنے کی ہدایت کرنا کیا ظاہر کر رہا ہے ؟اور بھارتی ایجنسی
را سے مدد بھی مانگ لی ۔پاک فوج نے الطاف حسین کے ان بیانات کے خلاف قانونی
چارہ جوئی کا اعلان کردیا ہے ۔وزیراعظم میاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف
اور دیگر قومی قائدین نے بھی اس بیان کی مزمت کی ہے وہ ٹی وی اسٹیشن جنھوں
نے الطاف حسین کی وطن دشمنی پر مبنی یہ تقریر نشر کی ان کو بھی پیمرا نے
شوکاز نوٹس جاری کر دئیے ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب نے الطاف حسین کے اس بیان کو
ملک دشمنی قرار دیا ہے اور معافی کا مطالبہ کیا ہے ،دوسری طرف الطاف حسین
نے کشیدگی کو بڑھتا ہوا دیکھ کر معافی مانگ لی ،مگر عقل مند لوگوں کا کہنا
ہے کہ پہلے سوچو،پھر تولو،پھر بولو۔ کیا مطلب انسان کو بولنے سے خوب سوچ
سمجھ کر الفاظ ادا کرنے چاہیں،بعض اوقات انسان جلدی یا جذبات میں ایسے
الفاظ ادا کرتا ہے جو اس کیلئے وبال جان بن جاتے ہیں یہی صورتحال اس وقت
الطاف حسین کے ساتھ درپیش ہے دیکھتے ہیں کہ معافی کے بعد ان کی خلاصی ہوتی
ہے یا نہیں ہمارا الطاف بھائی کو مشورہ ہے کہ آئے روز معافیاں مانگنے کی
بجائے اگر آپ اپنے بیانات، تقاریر ہی بند کردیں تو یہ ملک وقام کیلئے بہتر
ہوگا ،اس سے ملک وملت کی دنیا بھر میں بدنامی تو کم از کم نہیں ہوگی آئے
روز پتا نہیں آپ جان بوجھ کر یا زبان پھسلنے سے ایسے جملے کہہ دیتے ہیں جن
سے ساری قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔ ملک وملت کے خلاف بیانات جاری کرنے
کی بجائے آپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ بلدیہ ٹاون کیس،صولت
مرزا کے الزامات،ایس پی ملیر کی پریس کانفرنس ودیگرالزامات کا جواب مثبت سے
دینا چاہیے تھا مگر آپ آپے سے باہر ہوگئے اور ملک وملت کے خلاف برہنہ تلوار
نیام سے باہر نکال لی ۔
قارئین کرام!اس سے پہلے ایم کیو ایم پر پابندی کا مطالبہ صرف جماعت اسلامی
کرتی رہی ہے مگر اب تو ایس پی ملیر نے سرکاری افسر ہونے کے باوجودایم کیو
ایم کے ہولڈ یافتہ شہرکراچی میں بیٹھ کر ایم کیو ایم پر پابندی کا مطالبہ
اس وقت کیا جب بھارتی را کے ٹرینگ یافتہ ملزمان کی گرفتاری کے بعد پریس
کانفرنس کی تو۔اس پریس کانفرنس کے بعد اس جرأت مند افسر کو کھڈے لائن لگا
دیا گیا اور اس پریس کانفرنس میں شامل ایک افسر کو محافظ سمیت شہید کردیا
گیا اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟اس بارے میں صاحب بصیرت کیا کہتے ہیں؟جو الفاظ
الطاف حسین نے کہے ہیں اگر کوئی عالم دین یا مذہبی لیڈر کہہ دیتا تو ملک
میں سول سوسائٹی کے نام پر چند لوگ اکھٹے ہوکرطوفان بدتمیزی پیدا کردیتے
،الطاف حسین کے ان بیانات کے بعدنام نہاد سول سوسائٹی پتا نہیں کیوں خواب
غفلت کی نیند سوئی ہوئی ہے؟ شائد الطاف بھائی ان کے پیٹی بھائی ہوں ،ان کا
اور الطاف بھائی کا مرکز شر ایک ہے۔ساری قوم کو چاہیے کہ وطن کی سلامتی
کیلئے ہر وطن دشمن عنصر کے خلاف میدان عمل میں اتریاور پیغام دے کہ وطن
دشمنی کسی قیمت پر قبول نہیں ،خواہ وہ کتنا بڑا لیڈر ہی کیوں نہ ہو؟اب
پاکستان سے جنگل کا قانون ختم ہونا چاہیے کہ طاقت ور جو چاہے کرے ،کمزور کو
کھا جائے کوئی پوچھنے والا نہ ہو،اب ایسا نہیں ہونا چاہیے ،ریت بدلنی چاہیے
جتنا مرضی طاقتور ہو جرم کرے تو اس کو اس کی سزا ملنی چاہیے ،اﷲ کے رسول ﷺ
کا فرمان ہم سب کو معلوم ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اگر میری بیٹی بھی چوری
کرے گی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹاجائے گا،اب ہمیں اسلام کی طرف رجوع کرنے کی
اشد ضرورت ہے الطاف حسین کا معاملہ عدالت میں لیجانے کا فوج کی طرف سے
اعلان ایک پیغام ہے کہ ماورائے عدالت کو ئی ادارہ بھی خواہ وہ جتنا مرضی
طاقت ور ہی کیوں نہ ہو کسی کو مارے،سزا دینے کا حق نہیں رکھتا ۔مگر آ جکل
خاص ملزموں جن کو پہلے سے ہی گرفتار کیا گیا ہے انھیں ماورائے قانون وعدالت
جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا جارہاہے ،واضح رہے کہ راقم کو کسی مجرم سے
ہمدردی ہرگز ہرگز نہیں مگر منظم عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے ایسا کرنا سراسر
غلط ہے ۔ ملک میں عدالتی نظام موجود ہے سزا دینا عدالت کاکام ہے اس سزا
پرعمل کروانا حکومت کاکام ہے لیکن اگر حکومت عدالت کو چھوڑ کر خود ہی سزا
دینا شروع کردے تو اس کا یہی مطلب نکلتاہے کہ حکومت کو عدالتوں پر اعتماد
نہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان کو چاہیے کہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے
ماورائے قانون و عدالت لوگوں کے قتل کا سلسلہ رکوائے تاکہ پاکستان کا
عدالتی نظام مزید مضبوط ومربوط ہو۔ پاکستان کے عدالتوں نے جن مجرموں
کوسزائیں دیں پھر ان کو پھانسیاں دی گئیں ان سزاؤں پر کسی کو کوئی اعتراض
نہیں۔حکومت اورانتظامیہ کے پاس فوجی اور سول عدالتیں موجود ہیں ملزموں
کوعدالت کی طرف سے سزا ہونے کے بعد حکومت سزا دے تو کسی کو اعتراض نہیں
ہوگا۔پاک فوج نے بھی الطاف حین کے خلاف قانونی چارہ کرنے کا علان کرکے
پاکستان کے عدالتی نظام کو تقویت بخشی ہے حکومت کو بھی اس سنہری اصول پر
عمل کرنا چاہیے تاکہ ملک کے عدالتی نظام کو مزید تقویت ملے۔ |