گجرات میں ایک بار پھر دہشت گردی مخالف قانون کی
آہٹ سنائی دے رہی ہے۔اس بل کی دفعات پر پھر سے تنازع شروع ہوگیا ہے۔وہاں
نریندر مودی کے دور حکومت میں پہلی بار ۳۰۰۲ء میں گجرات کنٹرول آف آرگنائزڈ
بل کو منظوری دی تھی، اس وقت مرکز میں این ڈی اے کی حکومت تھی تب بھی اس کے
کچھ شرائط کو لے کر تنازع تھانئے بل میں انتظام ہے کہ اس قانون کے تحت پکڑے
گئے ملزم کا سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی سطح کے افسر کے سامنے دیا گیا بیان بطور
ثبوت عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔یہ دفعہ پہلے ہی منسوخ کر دئیے گئے دہشت
گردی مخالف قانون پوٹا کی طرح ہے۔پوٹا کے وقت اس دفعہ کے غلط استعمال کے
کئی معاملات سامنے آئے تھے ،اسی لئے یہ قانون منسوخ کیا گیا تھا۔اس کے
علاوہ ۹۰۰۲ء میں صدر پرتبھا پاٹل نے بھی یہ بل واپس کرتے ہوئے اس میں سے
پولیس کے سامنے بیان کو ثبوت ماننے والی دفعہ کے ساتھ ساتھ زیادہ پولیس
ریمانڈ کی آخری مدت ۱۵دن سے بڑھا کر ۳۰دن کے دفعہ میں بھی ترمیم کرنے کی
سفارش کی تھی لیکن گجرات حکومت نے اسے ملک کی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ،
لیکن عدلیہ نے اس چیلنج کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ مرکزی حکومت
کو یہ اختیار ہے کہ وہ جیسا چاہے جو چاہے ترمیم کر سکتی ہے۔ یہ فیصلہ مودی
حکومت کیلئے کسی ہزیمت سے کم نہیں تھا۔چونکہ اس قانون کا بے جا استعمال
گودھرا سانحہ میں کیا جا رہا ہے جس کو مرکزی حکومت نے کمیٹی بنا کر اس بل
میں ترمیم کر دی تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی حکومت مودی کی ریاست کے اس
نئے قانون پر کیا رخ کرتی ہے۔اس وقت ریاست اور مرکز میں ایک ہی پارٹی بی جے
پی کی حکومت ہے۔
یہ ایک ایسا ظالمانہ قانو ن ہے جو حقوق انسانی کے بھی خلاف ہے، ملزم کا
اقبالیہ بیان کس طرح لیا جاتا ہے یہ ہندوستان کے تمام شہریوں کو اچھی طرح
معلوم ہے۔ پولیس ڈرا دھمکا کر اور ٹارچر کر کے اپنی پسند سے تحریری یا
زبانی اقبال جرم کراتی ہے اور اسی کو عدالت میں پیش کر تی ہے۔ جبکہ اس
قانون کے تحت گرفتار شخص کی چھ ماہ تک ضمانت بھی نہیں ہوتی، ایسے حالات میں
پولیس جو چاہے جیسا چاہے اقبالیہ بیان لے کر ملز م کو مجرم بنانے کا کام
کرتی ہے۔جبکہ عام قانون میں پولیس کے سامنے اقبالیہ بیان کی کوئی حیثیت
نہیں ہوتی ہے بلکہ ملزم کورٹ کے اندر جو بیان دیتا ہے اور شواہد پیش کرتا
ہے اسی کو صحیح مانا جاتاہے، اور یہی انصاف کا تقاضا بھی ہیلیکن اس قانون
کے نفاذ سے ملزم کو مجرم بنانا اتنا آسان ہے کہ جس کو چاہے جب چاہے ملزم
سیمجرم بنایا جا سکتا ہے۔
اورنگ آباد کے اسلحہ ضبطی مقدمے یا وہاں دہشت گردی کے دیگر مقدمات میں کورٹ
نے شواہد پیش کرنے کو کہا لیکن اب تک شواہد پیش کرنے میں پولیس اور ان کے
گواہ ناکام رہے جس کی وجہ کر بہت سے افراد با عزت بری ہوئے۔لیکن افسوس کہ
گجرات حکومت اس قانون کو دوبارہ لانے کیلئے جس تیزی سے کام کر رہی ہے اس سے
ثابت ہوتا ہے کہ اگر پوٹا جیسا قانون گجرات میں نافذ ہو گیا تو وہ وقت دور
نہیں کہ بی جے پی کی حکومت والی تمام ریاستوں میں بھی اسے لاگو کر دیا جائے
گا اور عین ممکن ہے کہ مرکزی حکومت بھی اس ظالمانہ قانون کو نافذ کر دے۔اس
لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ اس بل کو محض ایک ریاستی سطح کا بل تصور نہ
کریں بلکہ پورے دم خم دکھاتے ہوئے مرکزی حکومت سے اس کو منسوخ کرنے کی اپیل
کریں اور اپیل کا طریقہ بھی مہذبانہ اور شائستہ ہو یعنی گروپ اور این جی
اوز کی شکل میں مرکزی حکومت کے ذمے داروں کے سامنے اس قانون کے خطرناک
نتائج کو ثابت کریں اور حقوق انسانی کی بات کریں۔اس مرحلہ کے بعد ہی سڑکوں
پر احتجاج کریں۔اکثر ایسا ہوتا آیا ہے کہ حکومت کے عوام مخالف فیصلے کے
خلاف عوام بہت جلد سڑکوں پر احتجاج کرنے نکل جاتے ہیں جس کو حکومت انا کا
مسئلہ بناکر ضد پر آمادہ ہوجاتی ہے اور پھر لاکھ احتجا ج کرنے کے با وجود
وہ اپنے فیصلے کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی
ایسا قانو ن جو ملکی سطح پر اثر انداز ہونے والا ہو اس کو راجیہ سبھا اور
لوک سبھا میں بھی اپوزیشن اپنی پوری طاقت سے مسترد کر دیتی ہے اور اس کے
خلاف نہ صرف ووٹ کر تی ہے بلکہ سڑکوں پر بھی نکل جاتی ہے۔جیسا کہ تحویل
اراضی معاملہ، لیکن پوٹا ایک ایسا قانون ہے جس کا استعمال صرف مسلمانوں کے
خلاف ہی زیادہ کیا جاتا ہے اس لئے پارلیمنٹ میں اس کی آواز اٹھانے یا پھر
اس کے خلاف اپوزیشن کا سڑکوں پر نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔کیونکہ
آج تک یہی ہوتا آیا ہے کہ مسلمانوں کے تحفظ یا پھر مسلمانوں کے معاملے کو
اول تو پارلیمنٹ میں کوئی اٹھانے کو تیار نہیں ہوتا اور اگر اٹھا دیاگیا تو
ارکان پارلیمنٹ اس میں ساتھ نہیں دیتے۔ایسے حالات میں بہت حکمت اور دانائی
کے ساتھ حکومت وقت کے ساتھ معاملہ کرنا چاہئے۔تاریخ شاہد ہے کہ حکمت اور
دانائی سے کوئی کام کرنے پر ایسی کامیابی ملتی ہے کہ خود دشمن بھی اپنے جال
میں پھنس جاتا ہے۔یہ تو واضح ہے کہ ملک میں جو بھی قانون بنتا ہے اس کا غلط
استعمال ہوتا ہے اور سیاہ قانون ہوتو مسلمانوں کے خلاف بے دریغ ہوتا ہے۔ اس
لئے مسلمانوں کو محتاط رہنے اور اپنے خلاف سازشوں کو خواہ وہ سرکاری ہوں یا
غیرسرکاری، ناکام بنانا چاہئے۔
|