راؤ انوار کے بیان پر قائد تحریک اور ایم کیو ایم کا ردِ عمل
(Shabbir Khursheed, Karachi)
پاکستان کی موجودہ سیاست
نے ملک کے حسین چہرے پر کیچڑ مل کر اس کا خوبصورت چہرہ بھیانک بنانے کی کئی
بار خطر ناک کوششیں کیں۔مگر ٹیڑھے میڑے چہرے والے ملک کے چہرے کو تو نہ
بگاڑ سکے مگر خود خجل خوار اورذلیل ہوتے ہی رہتے ہیں کیا آپ کو یاد نہیں
پاکستان کا چہرہ بگاڑنے والے خود بے نام ہوچکے ہیں۔پاکستا کو بچانے کے نام
پر ہمارے اداروں کا کردار بھی کوئی قابلِ تعریف نہیں رہا ہے۔ہم پیغمبرِ
اسلام کے ا نسانیت دوستی اور بھائی چارے کے پیغام کو بھلا کر بد نامِ زمانہ
لوگوں کے حاشیہ بردار بننے میں فخر محسوسکرتے ہیں۔جو ہمارے لئے رسوائی کا
باعث بنتے ہیں۔
اس کل یُگ میں پاکستان کی سیاست شدید قسم کے مد وجذر کا شکار ہے۔جس وقت راؤ
انور نے میڈیا پر آکرمتحدہ قومی موومنٹ پر جھوٹے یا سچے کچھ سنسنی
خیزالزامات میں انکشافات کئے تو پاکستان کی تیسری سیاسی قوت کے ایوانوں میں
تو گویا زلزلہ ساآگیا۔راؤ انوارنے متحدہ کے دو کارکنوں طاہر لمبااور محمد
جاوید پر ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را سے تربیت حاصل کرنے کالزام لگایا ہے
اور کہا ہے کہ اس کے ثبوت موجود ہیں۔راؤ انوار کے اس بیان پر حکومتِ سندھ
کے پولیس ترجمان نے کہا ہے کہ راؤ انوار اپنی حدود سے نکل کر کام کر رہے
ہیں یعنی اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت نے
ایس ایس پی راؤ انوار کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
دوسری جانب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین راؤ انوار کے عہدے سے ہٹائے
جانے پر پتہ کر رہے ہیں کہ ایسے بھنگیوں کا انچارج کون ہے؟اس ضمن میں ان کا
کہنا ہے کہ رؤ انوار کو ہٹانے سے کام نہیں چلے گا ۔گرفتار کر کے مقدمہ قائم
کیا جائے اور سزا دی جائے۔الطاف حسین نے اپنے اسی تقریری بیان میں یہ بھی
کہا کہ ہمیں گاندھی کی اولاد ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔سب سے خطر ناک بات
یہ کی کہ ’’را،والوں سے کہتا ہوں کہ ایک دفعہ ہمارا ساتھ دیدو‘‘ اسی ضمن
میں ایک بات یہ بھی کہہ دی کہ ’’کارکن روزانہ ایک گھنٹہ فوجی ٹریننگ کریں
پھر دیکھیں گے کہ خون ظالم کا بہتا ہے یا مظلوم کا‘‘الطاف حسین کے اس بیان
سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ قائدِتحریک را سے مدد کی خواہش کا
بر ملا اظہار کر رہے ہیں۔دوسرے یہ کہ(حلف) بردار کار کنوں کو حکم دیا جا
رہا ہے کہ بقیہ کارکن ہر حال میں اپنی عسکری تربیت کریں ورنہ ان کا خون
بہتا رہے گا۔ایک اور اہم بات الطاف بھائی نے اپنے لائیو نشریہ تقریری بیان
میں یہ بھی کہہ دی ہے کہ راؤ انوار کا حدود اربہ تو پتہ ہے۔’’مگر ایسے
بھنگیوں کے انچارج کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘اس حولے سے میڈیا پر
لوگ کہہ رہے ہیں کہ 250،مارے جانے والے پولیس اہلکاروں کی طرح جن لوگوں نے
راؤ انوار کی کمر تھپکی ہے ان کا بھی پتہ لگا ر مظلوموں کی ڈائری میں ان کے
بھی نام درج کر لئے جائیں۔الطاف بھائی کے اس نشریئے نے ادروں کو حرکت میں
لانے کی راہ ہموار کرنے کی نوید دیدی ہے۔
الطاف حسین کی مذکورہ تقریر کے جواب میں فوجی ترجماں آئی ایس پی آر کی جانب
سے ایک انتہائی سخت بیان سامنے آیا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے
ڈائیریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے پاک فوج کے
خلاف الطاف حسین کے بیان کی انتہائی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے
کہ ’’الطاف حسین کابیان بہہودہ اور غیر ضروری ہے۔ فوجی قیادت سے متعلق اس
طرح کے بیانات برداشت نہیں کئے جائیں گے ۔الطاف حسین کی تقریر نفرت انگیز
اور بلا جواز ہے۔ اس طرح کے بیانات فوجی قیادت کے خلاف ان کے مجرموں کی
گرفتاری کا ردِ عمل ہیں،ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام کے جذبات بھڑکانے کے
لئے میڈیا کا سہارا لیا گیا ‘‘
جبکہ ردِ عمل میں الطاف حسین اپنے کار کنوں سے خطاب کرتے ہیں تو وہ اکثر
قانونی حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔جذباتیت میں وہ ،وہ باتیں کر جاتے ہیں جو ایک
سیاسی رہنما کو نہیں کرنی چاہئیں۔جس سے ان کے مخالفوں میں اشتعال پیدا
ہوجاتا ہے۔ گوکہ کارکن اس پر خوب واہ واہ کے ڈونگرے برساتے دکھائی دیتے ہیں۔
مگر جیسے ہی آئی ایس پی آر کا ردِ عمل قائد تحریک کے بیان پر سامنے آیا
ماضی کی طرح اپنے کہے پر معافی کے خواست گار ہوگئے۔جس کی سیاسی حلقوں میں
دبے لفظوں میں تعریف تو کی جا رہی ہے مگر ان کے الفاظ پر تحفظات کا بھی
ظہار مسلسل کیا جا رہا ہے۔بلوچستان اسمبلی نے الطاف حسین کے بیان پر ان کے
خلاف قرار دادِ مذمت متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ہے۔جس میں یہ بھی کہا
گیا ہے کہ فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والی تنظیم کے خلاف کاروئی کی
جائے۔قرار داد میں کھل کر اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ کراچی میں ہونے
والی دہشت گردی میں لسانی تنظیم کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں ۔جس نے
کراچی شہر کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔مرکزی حکومت اس تنظیم پر پابندی اور اس
کے قائد کے خلاف کار وائی کرے۔اسکے علاوہ تحریکِ انصاف ،ن لیگ، ق لیگ کا
الطاف حسین کی جانب سے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کی گئی اشتعال انگیز
تقریر پر سینٹ ، پنجاب اسمبلی،سندھ اور خیبر پختون خوا اسمبلی میں قرار
دادِمذمت لانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح کی قرار داد گلگت بلتستان
اسمبلی میں بھی پیش کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ایک طرح سے پاکستان
کے ہر جانب سے ایم کیو ایم کا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایم کیو
ایم کی بھی بطورِ سیاسی جماعت کے یہ بد قسمتی رہی ہے کہ الطاف حسین کی
تقاریر میں ہمیشہ توازن کا فقدان دیکھا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ایم کیو ایم
کو بعض اوقات خاصی سُبکی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کوجب اپنی غلط زبانی کا ادراک ہو جاتاہے۔
تو دیر سے ہی صحیح مگر پھر معافیوں تلافیوں کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں جو
’’پانی پیچھے پاڑ باندھنے‘‘ کے مترادف ہوتے ہیں۔ جب ان کی معافی آتی ہے تو
بہت سارا پانی پل سے گذر چکا ہوتا ہے۔ایم کیو ایم کے لوگوں کی بڑی بد قسمتی
یہ ہے کہ وہ اپنے قائد کو کوئی مثبت پیغام بھی نہیں دے سکتے ہیں جس کے
نتیجے میں ایم کیو ایم کی ساکھ کو دھچکے پر دھچکا لگتا رہتا ہے۔ایم کیو ایم
کی قیادت کو اگر سیاسی میدان میں ایم کیو ایم کو زندہ رکھنا ہے تو دھونس
دھمکی اور اشتعال کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔ دشمنوں کے آشیر واد سے مکمل
دستبرداری حاصل کر کے اپنے آپ کو محبِ وطن اور پُر امن پاکستان ثابت کرنا
ہوگا۔اگر کہیں عسکری ونگز ہیں تو اُن سے دستبرداری کا برملا اعلان کر کے
عسکریتی ونگز کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنا ہوگا۔ہم اس حقیقت کے
معترف ہیں کہ سندھ کے شہری عوام ایم کیو ایم سے عقیدت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے
کہ ایماندارانہ انتخابات میں بھی کوئی سی بھی سیاسی جماعت ان کو شکست دینے
کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔بس ذراسی سنجیدگی کا فقدان ہے۔ اگر کریمنلز سے ایم
کیو ایم دستبردار ہو جاتی ہے تو یقین جانئے یہ ایک دن پاکستان کے اقتدار کے
ایوانوں میں سب سے آگے ہوگی۔
|
|