غفار بابر :دنیا چلی گئی مری دنیا لیے ہوئے
(Ghulam Ibn-e-Sultan, Jhang)
ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک
دُور اُفتادہ قصبے’’کیچ‘‘میں مقیم پاکستان کے نامور ادیب غفار بابر نے
داعیء اجل کو لبیک کہا۔وہ گزشتہ نصف صدی تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر
رگِ سنگ میں اُترنے کی مساعی میں جس انہماک کا مظاہرہ کر رہا تھا اس کا ایک
عالم معتر ف تھا۔ اس کی تخلیقی فعالیت سے اردو شاعری اور نثر کی ثروت میں
جو اضافہ ہوا وہ تاریخ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔اس زیرک ،فعال
،مستعد اور عصری آگہی سے متمتع تخلیق کار نے نظم و نثر کی بیس کے قریب وقیع
تصانیف سے اردو ادب کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے بھر دیا ۔تین برس قبل اس کی
رحلت کی خبر سن کر روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا ۔غفار بابر کے ساتھ
میرا جوتعلق خلوص ،مروّت اور دردمندی کی اساس پر استوارتھا ،وہ مسلسل تین
عشروں پر محیط تھا۔ جب بھی ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ور ق گردانی کرتا ہوں تو
قریہء جاں میں اس کی حسین یا دیں اس طرح پھیلی ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ
اُٹھتی ہے اس کی آواز کی باز گشت کانوں میں رس گھولتی ہے۔رخشِ حیات مسلسل
رو میں ہے انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں رکاب میں
ہیں ۔ہم یہ نہیں جانتے کہ ہماری مسافت کب کٹے گی اور کس لمحے ہم زندگی کا
سفر طے کر کے اپنی آخری منزل کی جانب رختِ سفر باندھ لیں گے۔زندگی کا یہ
سفر بھی عجیب سفر ہے جس کی اصلیت کی تفہیم ہمارے بس سے باہر ہے۔ احباب کی
دائمی مفارقت کے بعدانسان کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ جاتا ہے
لیکن رفتگاں کی یاد کے صدموں سے پس ماندگان کا پُورا وجود کِر چیوں میں بٹ
جاتا ہے۔ہجوم یاس میں جب میرا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور میں
یاس و ہراس اور گھبراہٹ کے عالم میں غمِ جہاں کا حساب کرنے لگتا ہوں تو
غفار بابر مجھے بے حساب یاد آنے لگتا ہے۔وہ شخص جا چُکا ہے لیکن اس کے
احباب کے دل کی انجمن آج بھی اس کی یادوں کی عطربیزی سے مہک رہی ہے۔وقت بڑی
تیزی سے گزر گیا اور اس کی یادیں اب خیال و خواب بن کر ر ہ گئی ہیں۔شہر
یارکے یہ اشعار میرے جذبات حزیں کی ترجمانی کر تے ہیں:
عجیب چیز ہے یہ وقت جس کو کہتے ہیں
کہ آنے پاتا نہیں اور بِیت جاتا ہے
جو ہونے والا ہے اس کی فکر کیا کیجیے
جو ہو چکا ہے اُسی پر یقیں نہیں آتا
اس حادثے کو سُن کے کرے گا کوئی یقیں
سُورج کو ایک جھونکا ہوا کا بُجھا گیا
اگرچہ اس کی عمر بڑھ رہی تھی لیکن ضعفِ پیری کے کہیں آثار نہ تھے ۔اس کے
تخلیقی مزاج کے تمام عناصر اعتدال پر تھے اوراس کے اعضا پر کبھی اضمحلال
طاری نہ ہوا ۔ زندگی بھرغفار بابر کی تخلیقی فعالیت پورے جو بن پر
رہی۔ہوائے جور و ستم میں بھی اس زیرک شاعر نے شمع وفا کو فروزاں رکھا
اورسفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔زبان و بیان پر اس کی
خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔اردو شاعری کی تمام اصناف میں اس نے
اپنی فنی مہارت کا لوہا منوایا۔اس نے حمد ،نعت،سلام، منقبت ،قصیدہ،غزل
،رباعی،نظم،قطعہ،ہائیکواور مسدس میں خوب طبع آزمائی کی ۔اردو شاعری میں
ہئیت کے تجربات پراس نے اپنی توجہ مرکوز رکھی۔رجائیت پسندی اس کی فطرت
ثانیہ تھی یہی وجہ ہے کہ عملی زندگی میں فکر و خیال اور طرز عمل میں اس نے
ہمیشہ مثبت انداز فکر اپنانے پر زور دیا۔اس کی مثبت اور تعمیری سوچ نے اسے
ہر قسم کی تخریب سے دور رکھا اور اپنی دیوار ِ چمن کی بلندی اس کا نصب
العین رہا ۔غفار بابر کو پاکستان کے طول و عرض میں بولی جانے والی تمام
علاقائی زبانوں کے ادب سے کامل آگہی حاصل تھی۔لوک ادب بالخصوص لوک گیتوں
اور لوک داستانوں میں اس نے گہری دلچسپی لی اور ان سے وابستہ تلمیحات اس کی
شاعری میں اس طرح سما گئی ہیں کہ قاری ان سے گہرا اثر قبول کرتا ہے۔اپنے
جذبات و احسات کو اشعار کے قالب میں ڈھالنے کے سلسلے میں اس نے جس قدرت اور
ندرت کا ثبوت دیا وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔عملی زندگی میں اپنے
تجربات اور مشاہدات وہ نہایت خلوص ،درد مندی اوردیانت کے ساتھ پیش کرتا ہے
۔اس کے اسلوب کی سادگی ،سلاست اور شیرینی اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس کا سہل
ممتنع انداز قاری پر فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتا چلا جاتا ہے ۔
ایک وسیع النظر ادیب کی حیثیت سے اس نے اردو،کشمیری، پنجابی،انگریزی،فارسی
،عربی،سرائیکی،ہندکو،پشتو،سندھی اور بلوچی زبانون کے کلاسیکی ادب کا بڑی
توجہ سے مطالعہ کیا ۔
غفار بابر کا تعلق صوبہ خیبر پختون خوا کے ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے
تھا ۔اس کے والد نامور ماہر تعلیم تھے اور شعبہ تعلیم میں انھوں نے طویل
تدریسی خدمات انجام دیں۔ جنھوں نے اپنے ہو نہار بچے کی تعلیم و تربیت پر
بھر پور توجہ دی ۔ غفاربابر نے اردو زبان و ادب اوراسلامیات میں ایم۔ اے کی
ڈگریاں حاصل کیں ۔ اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں واقع سرکاری کامرس
کالج میں اردو زبان وادب کی تدریس پر مامور ہوا اور بائیس سال تک تدریسی
خدمات انجام دیں ۔ زمانہ طالب علمی ہی میں پاکستان کے بڑے شہروں میں منعقد
ہونے والے مشاعروں میں شرکت کی اور کل پاکستا ن بین الکلیاتی مشاعروں میں
بھی حصہ لیا ۔ اسے ڈیرہ سماعیل خان میں کام کرنے والی علمی وادبی تنظیموں
کی روح رواں سمجھا جاتا تھا۔ وہ کئی بڑی ادبی تنظیموں کے اہم تنظیمی عہدوں
پر فائز رہا اور فروغ علم وادب کے لیے گراں قد ر خدمات انجام دیں ۔مجلس
ترقی اردو ڈیرہ اسماعیل خان ، ارباب قلم ڈیرہ اسماعیل خان ، گلستان اقبال
ڈیرہ اسماعیل خان میں اس کی خدمات اس علاقے کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ اپنی
علمی ،ادبی اور تدریسی زندگی میں غفار بابر کو جن نامور ادبی شخصیات سے
ملنے کا موقع ملا ان میں ساغر صدیقی ، اطہر کاشمیری، قتیل شفائی ، سید عبدا
لمجید عدم، جوش ملیح آبادی ، محمدشیر افضل جعفری ، سعداﷲ کلیم، سید جعفر
طاہر ، کبیر انور جعفری ، محمد فیروز شاہ،ارشاد گرامی، سجاد بخاری، سید
ضمیر جعفری ، این میری شمل ، رالف رسل ،خضر تمیمی ، کرنل محمد خان ، امیر
اختر بھٹی ، رفعت سلطان ، اشفاق احمد ، شفیع عقیل ، عطاشاد ، ڈاکٹر نثار
احمد قریشی ، انعام الحق کوثر ، محسن بھوپالی،خاطر غزنوی،احمد فراز،خادم
مگھیانوی،سید مظفر علی ظفر ،صابر آفاقی،نیاز سواتی،صابر کلوروی اور گدا
حسین افضل کے نام قابل ذکر ہیں ۔ عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جانے
والے یہ عظیم اور با کردار لوگ علم و ادب کے وہ آفتاب و ماہتاب تھے جو
حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیرؓ سے وابستہ رہے اور جن کے افکار کی
ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا
اہتما م ہوا۔یہ نابغہء روزگار فاضل محشر ِ عمل تھے، تاریخ ہر دور میں ان کے
نام کی تعظیم کرے گی۔ غفار بابر جب بھی ان یگانہء روزگار ہستیوں کا ذکر
کرتا تو اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔غفار بابرکی وقیع تصانیف جادہء نور
، ضرب گل، بر گ زرد ، چاند چنبیلی، پھل کنڈے ( پنجابی اور سرائیکی زبان میں
شاعری )نمکیات( ظریفانہ کلام ) کی اشاعت سے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں
اضافہ ہوا ۔ غفار بابر کی گل افشانیء گفتار سے ہر محفل رنگ ،خوشبو اور حسن
و خوبی کے استعاروں کی مظہر بن جاتی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شگفتہ مزاجی
اور ہنسنے ہنسانے کا شوق اس کی جبلت میں شامل تھا۔ اپنے آنسو ہنسی کے خوش
رنگ دامنوں میں نہاں کر کے سدا بہار مُسرتیں اور قہقہے عیاں کرنا اس کے
اسلوب کا امتیاز ی پہلو تھا۔ بادی النظر میں اس کی ذات تقدیر کی گردشِ ہفت
آسماں کی خزا ں رسیدگی کے باعث مضمحل سی تھی اور ہوا کے دوش پر اُڑتے ہوئے
برگِ زرد کے مانند اس کا گلشنِ زیست تازگی سے محروم رہا ۔جب اس کی مسافت کٹ
گئی تو صرف سفر کی دُھول ہی اس کا پیرہن تھا۔اپنی داخلی شکستگی کو اپنے
اسلوب کی شگفتگی سے اس نے اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ کسی کو اس کے داخلی کرب
و اضطراب کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔ اس نے جس بے ساختگی سے قندیلِ محبت کو
ضیا اور آئینہ ء ہستی کو جِلا بخشی وہ اپنی مثا ل آپ ہے ۔وہ اپنی جان کو
دوہرے عذاب میں مبتلا محسوس کرتا تھا ۔وہ زندگی کے تضادات ،نا ہمواریاں اور
بے اعتدالیاں دیکھ کر تڑپ اُٹھتا اور اس کے بعد معاشرتی زندگی پر ان کے
مسموم اثرات کے بارے میں سوچ کر کُڑھتا رہتا تھا ۔اس کے خندہ زن ہونے کی دو
کیفیتیں تھیں کبھی تو وہ دوسروں پر ہنستاتھا لیکن اکثر عالی ظرفی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے اپنے آپ پر بھی ہنستا تھا ۔ غفار بابر ایک پیکرِ ملال اور تصو
یرِ درد تھایہی وجہ ہے کہ اس نے خود کو غم کے قبیلے کا ایک فرد قرار دیا
اور اپنے غموں سے سمجھوتہ کر کے بہاروں کا سوگ منانے کے بجائے خوشیوں کی
جستجو کی اور معاشرے میں خوشیاں بانٹنے پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ۔یہ کہنا
غلط نہ ہو گا کہ وہ اس لیے ہنستا تھا کہ کہیں دیدہء گریاں کی نہر صبر
اورضبط کے شہر ِآرزو کو بہا کر اپنے ساتھ نہ لے جائے۔انتہائی نا مساعد
حالات میں بھی غفار بابر نے صبر و تحمل اور ایثار کی شمع فروزاں رکھی۔
تحلیلِ نفسی کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی شخصیت ایک اکائی کے روپ میں
سامنے آتی ہے لیکن سمے کے سم کے ثمر نے اسے جن مسموم حالات کی بھینٹ چڑھا
دیا،اس کے باعث اس کی ر وح کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار ہونا پڑا۔اس
نے زندگی کی پُر خار راہوں پر ایک آبلہ پا مسافر کی طر ح اپنا سفر جاری
رکھا ۔ وہ جانتا تھا کہ شیشوں کا مسیحا کہیں موجود نہیں اس کے باوجوداپنی
شخصیت کی یہ کر چیاں وہ اپنے دامن میں لیے وہ کسی معجزے کا منتظر رہا ۔
آزمائش و ابتلا اور آلامِ روزگار کے خارِ مغیلاں سے اپنی فگار اُنگلیوں سے
وہ زندگی بھر ملبوس بہار کی تزئین میں ہنسی خوشی مصروف رہا ۔اس کے رنگِ سخن
میں اس کا بے ساختہ پن متکلم دکھائی دیتا ہے۔ تحریف نگاری کے ذریعے وہ اپنی
شاعری کو پُر لطف بنا دیتا ہے:
کتابیں چھین کر ہاتھوں سے بیگم نے یہ فرمایا
مجھے کچھ بھی نہیں غم،امتحاں تیرا ہے یا میرا
مجھے لکڑی بھی لادو اور سبزی بھی پکانے کو
اگر تُو فیل ہو جائے زیاں تیرا ہے یا میرا
پڑوسن نے کہا کچھ تو جھپٹ کر اُس پہ یوں برسیں
تجھے کیا ہے پڑی؟’’بابر میاں تیرا ہے یا میرا‘‘
مرد امیدوار ہوتے ہیں
بیویاں امتحان ہوتی ہیں
مرد منہہ میں لگام رکھتے ہیں
عورتیں بے عنان ہوتی ہیں
مرد چُپ سادھ لیتے ہیں اکثر
بیویاں ترجمان ہوتی ہیں
ایک شگفتہ مزاج تخلیق کار کی حیثیت سے غفار بابر نے اپنے اسلوب کو جاذبِ
نظر اور خندہ آور بنا دیا۔یبوست زدہ قنوطی جب آلامِ روزگار سے گھبرا کر
گریہ و زاری کر تے ہیں تو ان کا سینہ و دِ ل حسرتوں سے چھا جاتا ہے ۔ان
حالات میں طنزو مزاح ان کے زخموں کا مرہم بن جاتا ہے اور ہر درد کا درماں
ثابت ہوتا ہے۔غفار بابر کی شگفتہ مزاجی ،حاضر جوابی،بذلہ سنجی،فقرے
بازی،ضلع جُگت اور پھبتی ایک دھنک رنگ منظر نامہ سامنے لاتی تھی۔ اس کی
شگفتہ مزاجی سے اس کی علمی سطحِ فائقہ صاف دکھائی دیتی تھی۔اس کی شگفتہ
مزاجی کے سوتے اس کے ذہن و ذکاوت اور بصیرت سے پُھوٹتے تھے ۔
یوں زیست کے لمحات کو میں کاٹ رہا ہوں
اک بحر ِالم ہے کہ جسے پاٹ رہا ہوں
تعلیم نے بخشی ہے وہ افلاس کی دولت
چھے سال سے ایم اے کی سند چاٹ رہا ہوں
مبتلائے قبض ہو جائے نہ قوم
اس کو تھوڑا سا انیمہ چاہیے
ہو مبارک آپ کو عہدِ جدید
ہم کو بس دورِ قدیمہ چاہیے
اپنی ظریفانہ شاعری میں غفار بابر نے تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کی
اقدار و روایات کو اپنی گل افشانیء گفتار سے اس مہارت سے ہم آہنگ کر دیا ہے
کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔وہ اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھا کر محفل
کو کشتِ زعفران بنانے کا ہنر جانتا تھا۔اس نے قارئینِ ادب پر یہ بات واضح
کر دی کہ معاشرتی زندگی میں برداشت اور صبر و تحمل کی افادیت مسلمہ ہے ۔کسی
بھی قوم کے متمدن اور مہذب ہونے کی کسوٹی معاشرتی زندگی میں اس قوم کا
عمومی طرز عمل اور شیوہ ء گفتار ہی ہے ۔اگر کوئی قوم کٹھن حالات کا خندہ
پیشانی سے سامنا کرتی ہے ،ہجوم غم میں دِل کو سنبھال کر ہنستے مسکراتے موجِ
حواد ث سے کشتیء جاں کو نکال کر ساحلِ عافیت تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتی
ہے تو یہ بات اس کے انتہائی مہذب ہونے کی دلیل ہے۔غفار بابر کی آنکھوں نے
وطن اور اہلِ وطن کو درپیش مسائل کا بہ نظر غائر جائزہ لیا تھا ۔عام طور پر
اس کی شگفتہ مزاجی محض تفننِ طبع تک محدود رہتی ہے اور ظرافت کا عمدہ نمونہ
پیش کرتی ہے۔اس کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ
شاعرکی شگفتہ بیانی کا قصر ِعالی شان شعوری یا لاشعوری مقصدیت کی اساس پر
استوار ہے ۔اسی مقام پر اس کا اسلوب طنز کا روپ دھار لیتا ہے۔
خون کی ندی بھی ہم نے پار کی
ہم سے باتیں کر رہے ہو دار کی
ہے یہاں کانٹوں سے اپنا واسطہ
کررہا ہوں بات میں گلزار کی
اک غریبِ شہر کو حق مل گیا
یہ خبر ہو گی کسی اخبار کی
عدل کی زنجیر کو مت چھیڑئیے
کون سنتا ہے یہاں نادار کی
خا ک کی چادر پہ سونا چاہیے
بس یہی ہم کو بچھونا چاہیے
خون مکھن بن کے نکلے جسم سے
قوم کو اتنا بلونا چاہیے
طنزاو ر مزاح میں موجودحدِ فاصل کا غفار بابر کو احساس تھا۔اس نے طنز کی
کلاسیکی روایت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور معاشرتی زندگی کی قباحتوں کو بیخ
و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کے سلسلے میں طنز کو کامیابی سے استعمال کیا ۔ ایک
حساس تخلیق کار کی حیثیت سے اپنے گرد و نواح کے ماحول پر اس کی گہری نظر
تھی۔سماجی زندگی میں جامد و ساکت بتوں،سنگلاخ چٹانوں اور بے حس پتھروں نے
انسانی زندگی اجیرن کر ر کھی ہے۔رہزنوں سے بچ کر بھاگ نکلنے والوں کو جب
رہبر گھیر لیتے ہیں تو راہِ جہاں سے گزرنے والے آبلہ پا مسافروں کی کوئی
امیدبر نہیں آتی اور نہ ہی انھیں بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ قحط
الرجال کے موجودہ زمانے میں چلتے پھرتے ہوئے مُردوں نے بے بس و لاچار
انسانیت کا جینا دشوار کر دیا ہے اور زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی
ہیں۔معاشرتی زندگی کے تضادات پر غفار بابر کا طنز زندگی کی حقیقی معنویت کو
اُجاگر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ایک ظریف الطبع تخلیق کار کی حیثیت سے
غفار بار اپنے داخلی کرب کو محض خندہء استہزامیں نہیں اُڑاتا بل کہ طنز کے
وار سے جبر کی دیوار کو منہدم کرنے کا آرزو مند دکھائی دیتا ہے۔اپنے معاشرے
کے تضادات پر اس کے طنز کا اہم اور بنیادی مقصد صرف یہ دکھائی دیتا ہے کہ
اصلاحِ احوال کی کوئی صورت تلاش کی جائے۔یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ
حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے لیکن فسطائی جبر اور نا انصافی کی اسا س
پر قائم ہونے والی حکومت ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایک ایسی تحریر کے
مانند ہے جسے سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے پلک جھپکتے میں نیست و نابود کر کے
صفحہء ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی
وابستگی کے وسیلے سے غفار بابر نے ہمیشہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو
مطمح نظر بنایا اور اسی فعالیت کو اپنی تخلیقی شخصیت کے فروغ کا وسیلہ
بنایا۔
ہم نے جو بویا وہی کاٹا میاں
اپنے کرتوتوں پہ رونا چاہیے
پوچھتی ہے بم دھماکوں کی صدا
قوم کے بچو!کھلونا چاہیے
خود اُگانے اور کھانے کے لیے
حسرتوں کا بیج بونا چاہیے
زبان و بیان پرخلاقانہ دستر س غفار بابر کے اسلوب کا نمایاں وصف سمجھا جاتا
ہے۔ صنائع بدائع ،رنگ ،خوشبواورحسن و خوبی کے جملہ استعارے اس کے اسلوب میں
سمٹ آئے ہیں اس کی علمی فضیلت ،لسانی مہارت ،بصیرت اور ذہن و ذکاوت کی سطحِ
فائقہ اس کے اسلوب کو زر نگار بنا دیتی ہے۔گلدستہ ء معانی کو نئے ڈھنگ سے
سجانے اور ایک پُھول کا مضمون سو رنگ سے باندھنے میں وہ جس فنی مہارت کا
مظاہرہ کرتا تھا وہ اس کے صاحبِ اسلوب ادیب ہونے کی دلیل ہے۔ اس کی خارجی
زندگی کے معمولات ،تجربات اور مشاہدات جب اس کے لاشعور ی اور داخلی محرکات
سے ہم آہنگ ہو جاتے تواس کا تخلیقی عمل اپنی صد رنگی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا۔
اپنے ترکش میں طنزو مزاح کے تیر لیے ایک کہنہ مشق اورآزمودہ کارناوک فگن کی
طرح وہ مسلسل تیراندازی میں مصروف رہتا تھا۔معاشرتی زندگی کے تضادات ،کجیوں
،بے اعتدالیوں،استحصال اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے بتوں پر وہ تیروں کی
بو چھاڑ کر دیتا تھا۔ اس کے منفرد اسلوب سے وجدان کی ایک ایسی موثر لہر
قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جس کے معجز نما اثر سے ہجوم غم کے سیاہ
بادل چھٹ جاتے اور قاری دِل کو سنبھال کر آگے بڑھنے کا حو صلہ محسوس کرتا
ہے۔زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ کی راہ میں حائل تمام دشواریوں پر قابو
پا لینے کے بعد وہ ہنستا مسکراتا طوفانِ حوادث سے گزر جاتا ہے ۔ غفار بابر
جیسے ناوک فگن کے اُٹھ جانے کے بعد ظلم و استبدادکے بتوں پر طنز و مزاح کے
تیر برسانے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔غفار بابر نے ہر قسم کی عصبیت ،تنگ
نظر ی اور کینہ پروری کو ہمیشہ نفرت کی نگا ہ سے دیکھا۔اس کا خیا ل تھا کہ
سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا ذہنی مریض کینہ پروری سے معصوم لوگوں کا
جینا دشوار کر دیتے ہیں۔ اس نے واضح کیا کہ کینہ پرور جن ہتھکنڈوں سے لذتِ
ایذ ا حاصل کرتا ہے وہ مظلوم انسانیت کے لیے عقوبت،اذیت اور کرب کا باعث بن
جاتے ہیں۔جو کام کینہ پرور اپنے لیے خوش گوار خیال کرتا ہے وہی کام اس کا
ہدف بننے والے بے بس انسانوں کے لیے انتہائی ناخوش گوار ثابت ہوتے
ہیں۔اُردو کی ظریفانہ شاعری کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو ذہانت اور ذکاوت کا
مظہر ایسا اسلوب ہر دور میں قابلِ قدر سمجھا گیا ہے۔
اہلِ زر کی کمین گاہوں میں
نفرت و غم کے ناگ پلتے ہیں
فقر کے بے ریا خرابوں میں
زندگی کے چراغ جلتے ہیں
آج کی بات نہ کل پر کبھی ٹالی جائے
ان سے ملنے کی کوئی راہ نکالی جائے
جو بھی اس در پہ محبت کا سوالی آئے
دامنِ دل نہ کبھی لے کے وہ خالی جائے
اپنے آنچل کے تقدس کا بھرم رکھنے کو
میری پگڑی نہ سرِ راہ اُچھالی جائے
یہ معجزہ بھی جہاں کو دکھا کے بیٹھے ہیں
چراغ دوشِ ہوا پر جلا کے بیٹھے ہیں
نہیں ہے جس کا کوئی اندمال بھی ممکن
وہ زخم گردشِ دوران سے کھاکے بیٹھ ہیں
غفار بابر کو اس بات کا قلق تھا کہ دلوں کے چمن سے بے لوث محبت اور بے باک
صداقت کی عطر بیزی اب رخصت ہو چُکی ہے ۔ کالا دھن کما کر نو دولتیے بن جانے
والے ،منشیات فروش ،عقوبت خانے ،چنڈو خانے اور قحبہ خانے کے دادا گیر
اورجرائم پیشہ درندے ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں۔ان لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور
مسموم حالات میں مظلوم اور بے بس انسانیت کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ جنسی
جنونی، ہوس پرست ،ابن الوقت ،چڑھتے سورج کے پجاریوں ،بہتی گنگا میں ہاتھ
دھونے والوں اور کُوڑے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے
اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ آوارہ سگانِ راہ سے وہ شدید نفرت کرتا تھا ۔اس
کا خیا ل تھا کہ ما دی دورکی لعنتوں نے زندگی کو ایک ادق زبان بنا دیا جیسے
بچے اپنی نصابی کتابوں کے مندرجات کے مفاہیم سے نا آشنا ہیں اسی طرح عام
انسان بھی زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم کی استعداد سے عاری ہیں۔ اﷲ کریم
نے غفار بابر کو جس جمالیاتی حس سے متمتع کیا تھا وہ اس کے اسلوب میں واضح
دکھائی دیتی ہے۔وہ زندگی کے حسن و جمال کا مداح ہے اور اس کی مہک سے قلبی
سوز اور روحانی سکون حاصل کرتا ہے۔یہ کہناغلط نہ ہو گا کہ غفار بابر کی
تخلیقی فعالیت کے سوتے حسن ِ فطرت کے مظاہر سے پُھوٹتے ہیں۔اس کی ظریفانہ
شاعری میں فصیلِ جبر کو تیشہء حرف سے منہدم کرنے کی جو سعی کی گئی ہے وہ
قاری کو ایک ولولہء تازہ عطا کرتی ہے۔طنزکے تیر چلا کر ہر انتہاکو چھلنی
کرنا اس کے شگفتہ اسلوب کا نمایاں وصف سمجھا جاتا ہے۔
ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے غفار بابر نے معاشرتی زندگی کے تضادات پر
اپنی تشویش کا برملا اظہار کر نے میں کبھی تامل نہ کیا ۔قحط الرجال کے
موجودہ زمانے میں المیہ یہ ہوا کہ دردمند ادیب دُکھی انسانیت کے مصائب و
آلام سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کے سامنے بیان کرنے پر مجبور
ہے۔ غفار بار اس صورتِ حال پر بہت دل گر فتہ تھا کہ منزلوں پر ان طالع آزما
،مہم جُو اورابن الوقت استحصالی عناصر نے غاصبانہ قبضہ کرکھا ہے جو شریک
سفر ہی نہ تھے۔وہ اپنے دل کے افسانے جب الفاظ کے قالب میں ڈھالتا تو یہ
قاری کے دل میں اُتر جاتے۔اس کا ذوقِ سلیم اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے
والی باتیں موثر ابلاغ کو یقینی بنا دیتیں اور تہذیب و ثقافت اور تمدن و
معاشرت کی متعدد جہات حقیقی روپ میں سامنے آتیں۔اس کی مستحکم شخصیت کا
تلاطم ، ندرت تخیل ،مد و جزرِ افکارکے گرداب ،بھنور اور اشہبِ قلم کی
جولانیاں اسے منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہیں۔شدت ِ احساس نے اس کے شعور
کی رو کو اُس ندرت ،تنوع ،برق رفتاری اور کاٹ سے آ شنا کیا تھا کہ اس کی
فنی بصیرت اورجمالیاتی حس کے اعجاز سے اس کا اسلوب نکھرتا چلا جاتا ہے۔ایک
علمی و ادبی تقریب میں اس کی ملاقات ایک ایسے مشکوک نسب کے کرگس زادے سے ہو
گئی جو اپنے اہلِ خانہ کو سیڑھی بنا کر ایک محل کی بلند چوٹی پر جا بیٹھا
او ر مسلسل کائیں کائیں کر کے ا نسانیت کی توہین ،تذلیل اور تضحیک اس متفنی
کا وتیرہ بن گیا۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں رخصت ہو جائے تو مسلسل شکستِ
دِل کے باعث بے حسی کا عفریت ہر سُو منڈلانے لگتا ہے اور متعدد سانپ تلے کے
ایسے بچھو بُوم ،شپر اور زاغ و زغن رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں ۔ غفار
بابر اس چربہ ساز ،سارق ،کفن دُزد مسخرے کے قبیح کردار سے واقف تھا اور
ہمیشہ اس سے دُور رہتا تھا۔ اُسی ادبی نشست میں اس ابلہ بُزِ اخفش نے غفار
بابر سے پُوچھا :
’’آپ کو جدید اردو شاعری کاجو شاعر بہت پسند ہے اس کے چند اشعار سنائیں۔‘‘
غفار بابر نے اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیا
’’جدید اردو شاعری میں حریتِ فکر کی روایت کو پروان چڑھانے میں محسن
بھوپالی کی شاعری کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔محسن بھوپالی کی کتاب’’
شہر آشوبِ کراچی ‘‘تم جیسے سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا لوگوں کو آئینہ
دکھا کر آشوبِ ذات کے پُر پیچ سلسلوں سے آگاہ کرتی ہے۔ ‘‘
’’آپ نے صحیح فرمایا ‘‘مسخرے نے ہنہناتے ہوئے کہا ’’ براہِ کرم محسن
بھوپالی کے منتخب اشعار سنائیں جو اس جری شاعر کی حق گوئی اور بے باکی کے
نقوش واضح کر دیں۔‘‘
غفار بار نے کہا ’’میں محسن بھوپالی کے یہ شعر تمھاری نذر کرتا ہوں:
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رِندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
یہ اشعار اس کرگس زادے کو پانی پانی کر گئے لیکن اس نے ڈھٹائی سے موضوع کو
بدل دیا اور چُلّو بھر پانی میں غواصی کے لیے بے چین ہو گیا۔حسب عادت بے
غیرتی ،بے ضمیری اور بے حسی کی تصویر بناوہ سفلہ یہ کہتے ہوئے وہاں سے رفو
چکر ہو گیا :
’’ اس وقت تو مجھے ایک اہم کام کے سلسلے میں لاٹ صاحب کے پاس جانا ہے
پھرکبھی تفصیلی ملاقات ہو گی۔‘‘
بُلو ،ماڑی اور شاکر میں تھل کے صحرائی علاقے میں گیدڑ ،بجو ،خرگوش اور
لومڑیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں ۔ یہاں حدِ نگاہ تک ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں
جنگلی حیات اور نباتات کی روئیدگی کے کہیں آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بعض
مقامات پر جنڈ ،کریریں ،پیلوں ،اکڑا ، بھکڑا،ڈیہلے ،سنجاونا اور پوہلی
موجود ہے۔ ناصف کھبال یہاں کا ایک ایسا جعل ساز تھا جس کے باپ نے تو کبھی
پِدی نہ ماری تھی لیکن یہ خو دکو بہت بڑا شکاری او ر تیر انداز قرار دیتا
تھا ۔یہ بہروپیا ہر ادبی نشست میں ایک ایسا کوٹ پہن کر آتا جو شیر کی کھال
سے مشابہ تھا ۔یہ کوٹ اس متفنی نے لُنڈا بازار کے تاجر کی دُکان سے اس وقت
اُچک لیا تھا جب وہ سو رہا تھا ۔ایک ادبی نشست میں ناصف کھبا ل اور غفار
بابر کا آمنا سامنا ہو گیا۔ جون کی سخت گرمی میں بھی ناصف کھبا ل شیر کی
کھال کا کوٹ پہنے وہاں آ دھمکا۔ناصف کھبا ل اپنی عادت سے مجبور لا ف زنی پر
اُتر آیا اور اپنے منہہ میاں مٹھو بن کر بولا :
’’میں پیشہ ور شکاری ہوں ،یہ جو کوٹ میں نے پہن رکھا ہے ،یہ شیر کی کھال سے
تیار کیا گیا ہے ۔یہ شیر میرے دادا مرحوم نے شاکر کے صحرا میں اس وقت مُکوں
سے مار گرایا جب یہ شیر کسی خرگوش ،چوہے، چھپکلی ،سانڈے یا گرگٹ کے شکار کی
تلاش میں ریت کے ایک ٹیلے کے پیچھے چُھپا،دُم دبا کر مُردوں سے شر ط باندھ
کر سویا ہو ا تھا ۔ دادا مرحوم نے شیر کو پاؤں کی ٹھوکر مار کر جگایا اور
پھر شیر پر ضعیفانہ وار چڑھائی کر کے اس سے گتھم گتھا ہو گئے۔ دادا مرحوم
نے عالم ِ پیری میں بھی شیر پر گھونسوں ،لاتوں اور مُکوں کی بو چھاڑ کر دی
بُزدل شیر اس ضعیف مرد کے وار کی تاب نہ لا سکا اوروہیں ڈھیر ہو گیا ۔میرے
دادا نے اسی وقت اپنی جیب سے چاقو نکالااور مردہ شیر کی کھال اُتار کر پہن
لی،شیر جو ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اس پر ریت ڈالی اور اس ریت کے اس ڈھیر کے
نیچے پڑے شیر پر حسرت بھری کم زور نگا ڈالی اور خراماں خراماں گھر آ گئے۔
اس کے بعددادا مرحوم کی بہادری کی دھاک بیٹھ گئی۔ ‘‘
غفار بار نے یہ بے سروپا باتیں بڑے صبر و تحمل سے سُنیں اور کہا:
’’مجھے اس وقت اردو زبان کی کلاسیکی شاعری کے نامور شاعر مرزا سودا کا وہ
شعر یاد آ رہا ہے جواسی نوعیت کے واقعے کی یاد دلاتا ہے۔لکھنو کے ایک نواب
نے بِھیلوں کے علاقے میں واقع گھنے جنگل میں ایک آدم خور خونخوار شیر کو
ہلاک کیا تو سودا نے کہا:
یارو !یہ ابن ِ مُلجم پیدا ہوا دوبارہ
شیِر خدا کو جس نے بِھیلوں کے بن میں مارا
تمھارے دادا نے جس چوہا خور شیر کو مارا شاید وہ سرکس کا شیر ہو گا ۔سرکس
کی عقوبت ،اذیت ،بُھوک اور مارپیٹ نے جس کی شیرانہ خُو ختم کر دی تھی اسی
لیے تو وہ چند ٹھوکریں کھا کر زینہء ہستی سے اُتر گیا ۔ تم اس شعر میں
بِھیلوں کو بدل کر حسب حال بنا سکتے ہو ۔
تلمیحات اور ان میں نہاں گنجینہء معانی کے طلسم سے نا آشنا ناصف کھبال یہ
باتیں سُن کر خوشی سے پُھول کر کپا ہو گیااور ہنہناتے ہوئے یوں ہرزہ سرائی
کی:
یارو ! یہ اِبنِ مُلجم پیدا ہو ا دوبارہ
شیرِخدا کو جس نے شاکر کے بن میں مارا
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ غفار بابر کو قدرت ِکاملہ کی طر ف سے جو بصیرت
عطا ہوئی تھی،اس کے اعجاز سے وہ حالات کی پیش بینی کی صلاحیت سے متمتع ہوا۔
وہ ایک عابد و زاہد ،متقی اور پر ہیز گار انسان تھا اس لیے لوگ اس سے دعا
کی استدعا کرتے تھے ۔وہ ایام کا مرکب نہیں بل کہ ایام کا ایک ایسا راکب تھا
جو مہر و مہ و انجم کے محاسب کا کردار بھی ادا کرتا تھا ۔ آئینہ ء ایام میں
وہ سب لوگوں کی کارگزاری اور ان کی شامت اعمال کے بارے میں جو پیش گوئی
کرتا وہ حرف بہ حر ف درست ثابت ہوتی ۔اس کی فغانِ صبح گاہی پر مبنی دعا ئیں
جو دردمندوں ،ضعیفوں اور مظلوموں کے حق میں دل کی گہرائیوں سے نکلتیں وہ
خالقِ کائنات کے حضور منظور ہو جاتی تھیں۔ ٹاہلی کے علاقے میں مُراد نامی
ایک فرعون نے غریبوں اور مزارعوں پر عرصہء حیا ت تنگ کر دیا ۔اس شقی القلب
درندے کی بے رحمانہ مشق ِ ستم اور شقاوت آمیز ناانصافیوں کے باعث مظلوم
انسانیت کی زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمرہو کر رہ گئیں۔اس کا ذکر چلا تو
غفار بابر نے بے ساختہ کہاکہ ایسے لوگ بالآخر نا مرادانہ زیست کرتے ہیں ،یہ
شخص نا مراد ہی رہے گا۔چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ منشیات ،سٹے بازی ،قحبہ
خانوں اور جوئے میں مرادسب کچھ ہار گیا ۔اس کی اہلیہ باقی زرو مال سمیٹ کر
ایک مزارع کے ساتھ فرا ر ہو گئی اور ہر طرف نحوست ،بے برکتی اور خجالت کے
کتبے آویزاں ہو گئے۔ اب ٹاہلی کے پُورے علاقے میں مُراد کو مانگنے پر بھیک
بھی نہیں ملتی۔ٹھٹہ میں ورکنگ ویمن ہاسٹل میں مقیم خواتین اس ہاسٹل کی
مہتمم شباہت ثمر نامی ایک ڈھڈو کٹنی سے عاجز آگئیں ۔اگست 2004میں اس ہاسٹل
میں یوم آزادی کے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ۔ اس مشاعرے میں غفار بابر کو
بھی بلایا گیا ۔شباہت ثمر نے مشاعرے کی اجازت نہ دی اور مشاعرے کی رات
ورکنگ ویمن ہاسٹل کی بجلی اور پانی کی سپلائی روک دی۔غفار بابر اس صورت حال
کو دیکھ کر بہت دُکھی تھا ۔خواتین کی پریشانی پر اس کا دل خون کے آنسو رو
رہا تھا ۔ان اعصاب شکن حالات کے باوجود سب حاضرین نے صبر و تحمل کا مظاہرہ
کیا،پانی اور بجلی کا متبادل انتظام کیا گیا اور مشاعرے کی انتظامیہ اس
ایثار اور صبر و تحمل کے بعدوطن ،اہلِ وطن اور انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ
نبھانے میں کامیاب ہو گئی۔اس موقع پر غفار بابرنے کہا:
’’ ورکنگ ویمن ہاسٹل کی کرتا دھرتا جس خاتون نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
بے رحمی سے خواتین اور بچوں کا پانی بند کیا ہے مجھے تو یہ خاتون شباہتِ
شمر محسوس ہوتی ہے۔ عورتوں ،بچوں اور تشنہ لبوں کا پانی بند کر کے اس نے
اپنے جدِ امجد شمر کی یا دتازہ کر دی ہے ۔نظامِ کہنہ کی گرتی ہوئی عمارت کے
سائے میں عافیت سے بیٹھنے والے یا درکھیں کہ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی
دیر ہے اس کے بعد یہ سب کرو فر خاک میں مِل جائے گا۔‘‘
چھے ماہ کے بعد ایک چھاپے کے دوران شباہت ثمر کے دفتر سے بڑی مقدار میں
منشیات اور ناجائز اسلحہ بر آمد ہوا ۔سب درندے پس ِ دیوارِ زنداں تھے،ان کا
سب ٹھاٹ پڑا رہ گیا اور سب گھسیارے اپنی دکان بڑھا گئے۔ اب شباہت ثمر اور
کے پروردہ عشاق کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔
بدھوانہ کا ایک متشاعر جس کا نام حیات چمار تھا اس قدر بے حس تھا کہ اس نے
مرگ آفرین قوتوں کا آلہء کاربن کر زیرک تخلیق کاروں کی اُمیدوں کی فصل غارت
کر دی اور حساس ادیبوں کی اصلاح معاشرہ اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر
کرنے کے سلسلے میں سب محنت اکارت جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ لوگ اسے حیات
حمار کے نا م سے پُکارتے اور یہ نا ہنجار اپنا یہ بگڑا ہوا نام سن کر بھی
ٹس سے مس نہ ہوتا۔ وجھلانہ شہر کے ڈُوم ،ڈھاری ،بھانڈ ،بھڑوے ،مسخرے، لُچے
،شہدے ، اُچکے ،رجلے ،خجلے اور بھگتے سب اس کے شریک ِجرم ہم نوالہ ا ور ہم
پیالہ تھے ۔یہ متفنی، غبی اور خسیسمتشاعرہر مشاعرے میں بِن بلایا پہنچ جاتا
اوراس کے ساتا روہن اس کی تُک بندی سن کر اسے بے تحاشا داد دیتے ہر طرف سے
واہ !حیات واہ !کے اس قدر فلک شگاف نعرے بُلند ہوتے کہ کان پڑی آواز سُنائی
نہ دیتی۔ یہ اُجرتی بد معاش صرف حیات حمار کی بے جا تعریف پر اکتفا نہ کرتے
بل کہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت کہنہ مشق اور بزرگ شعرا کی بلا وجہ
تضحیک اوردشنام طرازی بھی کرتے۔ یہ پیشہ ور مسخر ے سنجیدہ تخلیق کار کا
جینا دشوار کر دیتے اور ان کی لاف زنی سے ہر شخص ذہنی اذیت اور روحانی کرب
میں مبتلا ہو جاتا۔ ایک مشاعرے میں غفار بابر نے جب ان جعل سازوں کی
ہُلڑبازی اور تحسین نا شناس کی کیفیت دیکھی تو بر ملا کہا :
’’ متشاعرحیات کے حامی سب لوگ صحیح کہہ رہے ہیں ،صرف سمجھنے کا فرق ہے
۔حیات کے جوڑ کریں یہاں حیات کا جوڑ حلوائی والے ’’ح‘‘ نہیں بل کہ دوسرے
یعنی ہاتھی والے’’ ہ‘‘ سے کیا گیا ہے۔اس ہذیان گو شاعر حیات حمارکے بارے
میں جو نعرے لگائے جا رہے ہیں وہ نعرے یوں ہیں :
واہیات! واہ،واہیات! واہ
مزاح میں زبان و بیان کی بازی گری بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔اسی اسلوب کو اس
تحریف میں برتا گیا ہے، یہ سن کر محفل کشت زعفران میں بدل گئی اور سب مسخرے
دُم دبا کر وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔
اپنی عمل زندگی میں غفار بابر نے مقدور بھر کوشش کی کہ قارئین ادب کو
معاشرتی زندگی کے تضادات سے آگاہ کیاجائے اور ان کے بارے میں اعتدال پر
مبنی سوچ کو پروان چڑھانے کی مساعی کو آگے بڑھایا جائے۔ زندگی کی جمالیاتی
اور اخلاقی اقدارکو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر غفار بابر نے نہ صرف
زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کر نے کی سعی کی بل کہ ادب کے وسیلے سے
تہذیبی ،ثقافتی،روحانی اور انسانی اقدار و روایات کے تحفظ پر بھی اصرار کیا
۔اسے اس بات کا پُختہ یقین تھاکہ انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے ان
اقدار عالیہ کا تحفظ نا گزیر ہے ۔حیف صد حیف اجل کے بے رحم ہاتھوں نے بزم
ادب کے ہنستے بولتے چمن کو مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت کی بھینٹ چڑھا
دیا۔دکھی انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کرنے والاادیب ہماری بزم وفا
سے کیا اُٹھاکہ درو دیوار حسرت و یاس کی تصویرپیش کر ر ہے ہیں۔اس کی رحلت
کے بعد درد کی جو ہوا چلی ہے اس کی وجہ سے تنہائیوں کا زہر رگ وپے میں
سرایت کر گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ غفار بابر کے الفاظ
زندہ رہیں گے۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے وہ اندھیروں کی دسترس سے دُور
سدا روشنی کے مانند سر گرم ِ سفر رہے گا ۔اس کا ہر نقش ِ پا ہمالہ کی رفعت
کا مظہر ہے ۔اپنی ذات میں سمٹے ہوئے اس زیرک تخلیق کار کے افکار میں سمندر
کی سی بے کرانی تھی۔خورشیدِ جہاں تاب کبھی غروب نہیں ہوتا وہ تو کسی اور
اُفق پر ضوفشاں ہونے کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔غفار بابرکاسدا بہار
اسلوب اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔پروین شاکر نے سچ کہا تھا :
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بُھلا ہی دیں گے
لفظ میرے،میرے ہونے کی گواہی دیں گے
|
|