باراں ماہ غلام حضور شاہ

ہر پڑھنے لکھنے والا' اپنے ہی گھر میں' اپنی ہی عزت مآپ تینویں مبارکہ سے یہ جملے

سنتا آ رہا ہے۔
تم نے زندگی میں کیا ہی کیا ہے۔

گھر کو کوڑ کباڑ بنائے رکھا ہے۔

لوگ جائیدادیں بناتے ہیں تم نے جائیداد میں بس ردی ہی بنائی ہے۔

لٹیرے اور تباہ کاریئے عموما چار طرح کے رہے ہیں۔
ادھر اماں بابا مرے ادھر آل اولاد چھنیوں کولیوں پر ٹوٹ پڑی۔ ہر کوئی زیادہ سے زیادہ کے حصول میں الجھ جاتا ہے۔ بابے کے کاغذات کی ٹھوک بجا کر بڑی بےدردی سے تلاشی لی جاتی ہے کہ بابے نے کاغذوں کتابوں میں مختصر یا کوئی لمی چوڑی رقم نہ چھپا دی ہو۔

تلاشی کے بعد بابے کے لفظ' جو اس کی عمر بھر کی کمائی ہوتے ہیں ردی میں بک جاتے ہیں۔ کہیں زوراور آل اولاد بابے کے مرنے کا بھی انتظار نہیں کرتی۔ یہ لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کا سامان اس کی آنکھوں کے سامنے ہی ہو جاتا ہے۔ ڈھیٹ بن کر جی رہا ہوتا ہے' لفظوں ناقدری برداشت نہیں کر پاتا اور اگلے سفر پر بڑی حسرت اور بےبسی سے روانہ ہو جاتا ہے۔

چور ڈاکو بھی جہاں گھر کے دوسرے سامان کی پھرولا پھرولی کرتے ہیں وہاں کتب خانے بھی ویرانے میں بدل جاتے ہیں۔ کہیں اور کسی دور میں کسی بابے نے رقم نام کی چیز رکھ دی ہو گی اور یہ شک چوروں میں نسل در نسل چلا آتا ہے۔ ورنہ علم اور سکے کب ہم سفر رہے ہیں۔

حیران چوری ایسا مشکل اور دقت گذار پیشہ صدیوں سے چلا آتا ہے۔ ریسک کے ساتھ جگاترا کاٹنا ایسا آسان کام نہیں۔ اگلے وقتوں میں پکڑے جانے کی صورت میں چھتر بھی کھانے پڑتے تھے۔عصر حاضر میں یہ رواج نہیں رہا۔ پہلے ہی مک مکا ہو چکا ہوتا ہے۔ ہاں چھتروں کا رخ تبدیل ہو چکا ہے۔ چور شور مچاتے ہیں اور ان کے شور کو اول تا آخر پذیرائی حاصل رہتی ہے۔

تیسرے نمبر پر اپنا ہی ملک فتح کرنے والے آتے ہیں۔ یہ جہاں جان مال اور املاک کو غارت کرتے ہیں وہاں لکھنے پڑھنے والے لوگوں کی جمع پونجی ردی کو بھی برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔

بیرونی حملہ آواروں زبان غیر کی مرقومہ ذہانت و فطانت سے کیا لینا دینا۔ وہ زمین املاک اور سونے چاندی کے سکوں کی چمک دمک میں اپنے ہاں کی ردی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔

مخدومی ومرشدی سید غلام حضور نے دنیا کو 1988 میں الودع کہا تو محترمہ والدہ صاحب نے چلتی سانسوں تک مکان آباد رکھا۔ حسب سابق بچے ان سے علمی استفادہ کرتے رہے۔ آخر مروت بھی کوئی چیز ہوتی ہے صرف دو چار بار مکان کے تو تکرار ہوئی۔ میری خواہش تھی کہ مخدومی ومرشدی سید غلام حضور کی اقامت گاہ کو بہرطور آباد رہنا چاہیے۔ وہ مجبور تھیں وقت سے پہلے کس طرح مر جاتیں۔ چھنوں کولیوں کے شوکینوں کی سنی گئی اور وہ 1996 میں انتقال فرما گئیں۔ کفن دفن کے ساتھ ہی کیل کانٹوں سے لیس قبضہ گروپ نے قدم جما لیے۔ میں نے غور ہی نہ کیا۔ امی ابا ہی نہ رہے تھے اب میرے لیے وہاں کیا رہ گیا تھا۔

مخدومی ومرشدی سید غلام حضور پنجابی شاعر تھے۔ علاوہ ازیں بھی اچھی خاصی ردی ورثہ میں چھوڑی تھی۔ اس کا کیا ہوا یہ ایک الگ سے کہانی ہے۔ اسے کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ چھوٹی نصرت شگفتہ نے ایک رجسٹر مہیا کیا ہے۔ اس میں 1974, 75, 76 کا کلام ہے۔ رجسٹر کی حلت کا کچھ نہ پوچھیے۔ اگر اس پر تاریخیں درج نہ ہوتیں تو میں نے اس کے حضرت آدم ع سے پہلے ہونے کا دعوی داغ دینا تھا۔ گویا میرے والد صاحب مخدومی ومرشدی سید غلام حضور' حضرت آدم ع سے پہلے ہو گزرے ہیں۔

اس میں مختلف نوعیت اور مختلف اصناف پر مبنی کلام ہے۔ بارہ ماہ مقبول و معروف صنف شعر رہی ہے۔آج چوں کہ دیسی مہینے اندراج میں نہیں رہے لہذا یہ صنف ادب ہی ختم ہو گئی ہے۔ یہ بھی اس رجسٹر میں ملتے ہیں۔ سن اندراج درج نہیں۔ کاتب کون ہے ٹھیک سے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ساون کے چاروں شعر ہیں۔ آخری مصرع پڑھا نہیں جا رہا۔ پھاگن کے دو مصرعے اندراج میں آئے ہیں۔ دونوں ہی پڑھے نہیں جا رہے۔ آج چوں کہ دیسی مہینے اندراج میں نہیں رہے لہذا یہ صنف ادب ہی ختم ہو گئی ہے۔

ہر مہینے کے برصغیر میں الگ سے رنگ رہے ہیں۔ قدرتی طور شخص کے جذبات اور احساسات ان کے حوالہ سے تبدیلی آتی ہے۔ شاعر باریک بین ہوتا ہے اور وہ بدلتے موسموں کے ساتھ شخص کے باطنی رنگوں کا بھی مطالعہ کر لیتا ہے اور ان رنگوں کا اظہار بھی اسی طور سے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

باباجی کے ان بارہ مہینوں میں ہجر کی مختلف کیفیات کو بیان کیا گیا ہے۔ زبان بالکل سادہ اور عوامی ہے۔ مفاہیم تک رسائی کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ البتہ دو اطوار اختیار کئے گئے ہیں۔ کہیں معاملہ ذات سے اور کہیں سیکنڈ پرسن کے حوالہ سے بات کی ہے۔ دونوں صورتوں کی مثالیں ملاحظہ ہوں۔

1- غلام حضور شاہ بلاوے بیٹھا کوئی سندا نئیں واجاں نوں
غلام حضور شاہ نوں لالچ لا کے گلاں دے وچہ ٹالیا سو

2- غلام حضور شاہ دے آکھے لگ کے دکھڑے میں سناواں گی
غلام حضور شاہ دے آکھے لگ کے کھوتا کھوہ چا پایا ای

صنف ریختی کے علاوہ بھی صیغہ تانیث استعمال کرنے کا عام رواج تھا۔ بابا جی کے ہاں یہ رویہ ملتا ہے۔ مثلا
چیت مہینہ چڑھیا اڑیو میں ہن لبھن جاواں گی
وساکھ وساکھی ٹر گئے لوکیں گھر وچہ بیٹھی رواں میں
گھر وچہ بیٹھی دل پرچاواں کر کر یاد تیریاں یاداں نوں

باباجی کے ہاں عوامی محاورہ اور امثال کا بڑی خوبی سے استعمال میں آئے ہیں۔ مثلا
گھت کٹھالی گالیا
کھوتا کھوہ چا پایا ای
پکاراں کر کر تھکی
تیر کلیجے لایا

معروف ہے تکیف اور دکھ چپ وٹنا درست نہیں۔ کوٹھے پر چڑھ کر اعلان کرو۔ بابا جی کے ہاں استعمال ملاحظہ ہو۔
کوٹھے چڑھ کھلوواں
بہرطور شخصی احساس اور باطنی کیفیات کو بڑے موثر انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اب باباجی کا کلام ملاحظہ ہو۔ یہ تحریر میں کب آیا کچھ کہ نہیں سکتا۔ ہاں اس رجسٹر پر 1974 یا 1975 میں نقل کیا گیا۔ اس حساب سے بھی چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا۔ ناقل نے کہیں ناکہیں ٹھوکر کھائی ہو گی۔ پڑھا نہیں جا رہا لہذا محفوظ میں بھی نہیں رہا ہوں گا۔ بہرطور باطور تبرک اور یاد رفتہ کے حوالہ سے کلام ملاحظہ فرمائیں۔

چیت

چیت مہینہ چڑھیا اڑیو میں ہن لبھن جاواں گی
بانا پہن فقیراں والا گل وچ کفنی پاواں گی
لبھ کے سوہنا ماہی اپنا پیریں پے مناواں گی
غلام حضور شاہ دے آکھے لگ کے دکھڑے میں سناواں گی

وساکھ

وساکھ وساکھی ٹر گئے لوکیں گھر وچہ بیٹھی رواں میں
دن سارا میرا روندیاں گزریا ہنجو ہار پروواں میں
درد غماں وچہ رڑ دی جاواں راتیں کدے نہ سوواں میں
غلام حضور شاہ پریشان ہاں ڈاہڈی کوٹھے چڑھ کھلوواں میں

جیٹھ

جدائیاں تیریاں مینوں غماں دا بالن بالیا سو
در در پھراں میں لبھدی تینوں دیس کیڑا جا بھالیا سو
درد غماں دے کولے پا کے گھت کٹھالی گالیا سو
غلام حضور شاہ نوں لالچ لا کے گلاں دے وچہ ٹالیا سو

ہاڑ

چڑھے ہاڑ پاواں ہاڑے ماہی پھیرا نئیں پایا ای
درد غماں دی موئی نوں نواں وچھوڑا پایا ای
پر پر ودھی نال زخماں دی نوں تیر کلیجے لایا ای
غلام حضور شاہ دے آکھے لگ کے کھوتا کھوہ چا پایا ای

ساون

چڑھدے ساون کڑیاں در تھیں پینگاں پایاں جے
نسیاں بھجیاں کڑیاں آون پینگاں جھوٹن آیاں جے
بدل گھٹاں نے زور چا پایا ساون جھڑیاں لایاں جے
آخری مصرع مٹیا ہویا اے پڑھیا نئیں جا رہیا

بھادروں

بھادروں بھار پیا دل میرے کوئی سنے نہ فریاداں نوں
گھر وچہ بیٹھی دل پرچاواں کر کر یاد تیریاں یاداں نوں
دل نوں میں سمجھایا ڈاہڈا چھڈ دے سبھ سواداں نوں
غلام حضور شاہ بلاوے بیٹھا کوئی سندا نئیں واجاں نوں

اسوج

اسوج آساں کر کر تھکی دلاں دا مقصد پایا نہ
یاد کر کر راتیں ستی خواب دے وچ وی آیا نہ
رو رو بیٹھی میں پچھتاواں رٹھیا یار منایا نہ
غلام حضور شاہ نوں طعنے ماراں دلاں دا مقصد پایا نہ

کاتک

چڑھدے کاتک ماہی نہ آیا میں ہن مر دی جانی آں
پچھلا وقت پھر ہتھ نہ آوے رو رو پئی پچھتانی آں
داد فریاد کوئی سنے نہ میری کونج وانگوں کرلانی آں
غلام حضور شاہ توں منگ دعائیں مانے پیا جوانیاں

مگھر

مگھر مار مکایا مینوں تیرے ہجر وچھوڑے جے
زخماں تیریاں مار مکایا جیویں جسم تے پھوڑے جے
لہو سی میرے وچہ رہیا نہ کائی خون میرا نچوڑیا جے
غلام حضور شاہ سمجھاوے اوہناں نوں واگاں پچھاں چا موڑیا جے

پوہ

پوہ پکاراں کر کر تھکی گھر ماہی نہ آوندا اے
مل ملے خرید میں لیندی بازار نہ کتے وکیندا اے
زخماں نال میں پر پر ودھی مرہم مینوں نئیں لواندا اے
طعنے مارے مینوں بیٹھی حضور شاہ نہ سمجھاندا اے

ماگھ

ماگھ مہنے ماگھی آئی خوشیاں لوگ مناندے نے
میں وچاری گھر وچہ بیٹھی لوکیں میلے جاندے نے
گھر دے مرنے کر کر تھکی لوکیں عیش مناندے نے
غلام حضور شاہ سمجھاوے لوکاں تائیں کیوں ماگھ گواندے نے
 

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی : 9 Articles with 24694 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.