حقیقت یاافسانہ؟Operation Airlift of evil

سیمن ہرش ایک امریکی صحافی ہیں جو امریکی خفیہ اداروں کے جھوٹ افشاءکرنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ پہلی دفعہ وہ اس وقت عالمی توجہ حاصل کی جب 1969 میں ویت نام جنگ کےد وران امریکی فوجیوں کے ہاتھوں نہتے لوگوں کے قتل عام کا انکشاف کیا۔ 1991 میں اسرائیلی ایٹمی پروگرام کو سامنے لانے والوں میں بھی ہرش کا نام آتا ہے۔ اس کے علاوہ بغداد میں موجود ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ سی آئی اے کے غیر انسانی سلوک کو بھی پہلی بار انہوں نے منظر عام پر لایا تھا۔ اس غیر معمولی پس منظر کے ساتھ سیمن ہرش موجودہ دور میں جنگی امور خاص طور پر عراق اور افغان جنگ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔

2001ء میں جب امریکی افواج افغانسان میں داخل ہو رہے تھے اور طالبان یکے بعد دیگرے مختلف شہروں میں ہتھیار ڈال رہے تھے۔ اس دوران جو شہر آخر تک طالبان کے قبضے میں رہا وہ قندوز تھا۔ نومبر 2001ء میں پورے ملک سے طالبان کی حکومت کا تقریبا خاتمہ ہوگیا تھا اور طالبان کی اعلیٰ قیادت افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے تو عالمی میڈیا میں ایک پروپیگینڈے نے جنم لیا۔ پہلے کچھ امریکی اخباروں نے رپورٹ شائع کی کہ پاکستانی فوج اپنے فوجی افسروں کو جو طالبان کو ٹریننگ دینے کے لیے افغانستان میں موجود تھے، وہاں سے نکالنے کے دوران کئی طالبان اور القاعدہ رہنماؤں کو بھی نکال لیا۔

اس آپریشن کو Operation Airlift of evil کا نام دیا گیا اور ایک عرصے تک یہ خبر عالمی میڈیا میں زیر بحث رہی۔

اس دوران بھارتی اخباروں نے اس خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور امریکہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ اس بارے میں پاکستان سے پوچھا جائے۔ ان کو ڈر تھا کہ جو طالبان افغانستان سے نکالے گئے ہیں وہ کشمیر میں بھارت کے خلاف استعمال ہونگے۔ لیکن میڈیا میں جاری بحث کے بر عکس نہ ہی امریکی حکومت نے اور نہ ہی پاکستانی حکام نے اس خبر کی تائید کی۔ امریکی وزیر خارجہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ جنگ کے دوران پاکستان سمت کسی بھی ملک کا کوئی جہاز افغانستان میں داخل ہوا اور نہ افغانستان سے باہر گیا ہے۔

2003 میں امریکن براڈکاسٹنگ سروس کو دئے گئے ایک انٹرویو میں سیمن ہرش نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ قندوز ائیر لفٹ ایک حقیقت ہے اور وہ باقاعدہ امریکی حکام کی اجازت سے ہوا تھا۔ تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب افغانستان میں ہر طرف سے طالبان کو گھیرا جا رہا تھا تو افغانستان کے سرحدی شہر قندوز کو بھی شمالی اتحاد اور امریکی کمانڈوز چاروں طرف سے گھیر چکے تھے۔ طالبان کا مضبوط گھڑ ہونے کی وجہ سے پورے مک سے شکست خردہ طالبان قندوز میں جمع ہو رہے تھے۔ ہرش کے مطابق جب امریکی افواج کی پیش قدمی جاری تھی اور وہ شہر پر قبضہ کرنے کے بالکل قریب تھے تو اچانک ان کو اعلیٰ حکام کی طرف سے پیش قدمی روکنے کا حکم آیا۔ ایک امریکی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے سیمن ہرش بتاتے ہیں کہ کہ جونہی پیش قدمی رک گئی تو پاکستانی افواج کے کارگو طیارے قندوز ائیر پورٹ پر اترے اور وہاں پھنسے لوگوں کو اٹھاکر پاکستان لے جانے لگے۔ یہ اپریشن ائیر لفٹ دو دن جاری رہا ۔ بعض امریکی اور بھارتی اخباروں میں دعویٰ کیا گیا کہ اس دوران پانچ سے سات ہزار کے قریب لوگوں کو کارگو طیاروں میں ڈال کر وہاں سے فرار کرایا گیا۔ لیکن سیمن ہرش کہتے ہیں کہ اٹھائے گئے لوگوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں لیکن وہ ہزار سے پندرہ سو ہو سکتے ہیں یا پھر اس سے زیادہ جیسا کہ دوسرے اخبارنویسوں کا دعویٰ ہے۔

بعد میں سیمن ہرش امریکی وزارت دفاع کے ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ اس اپریشن کے لیے پاکستان کو باقاعدہ اجازت ملی ہوئی تھی۔ انٹرویو کرنے واالے صحافی کے سوال پر سیمن ہرش کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک اعتدال پسند حکمران امریکہ کی ضرورت تھی۔ مشرف نے ان سے کہا تھا کہ اگر میرے لوگ افغانستان میں مارے گئے تو میرے لیے حکموت میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے افغانستان میں موجود کسی پاکستانی کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ اس لیے امریکی حکومت نے مشرف کو افغانستان میں پھنسے ہوئے پاکستانوں کو نکالنے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے بعد امریکی حکام نے یہ معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ پاکستانی طیاروں میں کس کو اور کتنے لوگوں کو قندوز سے اٹھایا گیا۔ صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے یہ افواہیں حقیقت کی شکل اختیار کرنے لگیں۔ بھارتی اخباروں نے یہاں تک کہہ دیا کہ قندوز سے سات ہزار طالبان اور القاعدہ کے اہلکاروں کو چترال اور گلگت کے ہوائی اڈوں پر لائے گئے۔ اس کے بعد وہ لوگ کہاں گئے؟ اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

یہ واقعہ قندوز ائیر لفٹ یا ائیر لفٹ آف ایول کے نام سے مشہور ہے۔ ابھی تک اس اپریشن کی حقیقت سامنے نہیں آئی۔ جو لوگ اس کو حقیقت کہتے ہیں ان کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں لیکن سیمن ہرش جیسے بڑے بڑے صحافیوں کی اس کہانی میں موجودگی سے حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ حقیقت تھی تو کیا یہ امریکی خفیہ اداروں کی ناکامی تھی یا مشرف کی کامیابی یا پھر اس میں دونوں کی مصلحت شامل تھی؟ یہ سوال آج تک جواب طلب ہیں۔

Zakaria Ayobi
About the Author: Zakaria Ayobi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.