مودی سرکار کی پہلی سالگرہ جیسے
جیسے قریب آرہی ہے اس کیلئے بری خبروں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ اس
میں تازہ اضافہ فریندہ مہاراج گنج کا ضمنی انتخاب ہے۔ ویسے تو اس دوران بی
جے پی نے مختلف انتخابات میں منہ کی کھائی ہے مگر اس حلقہ کو خاص اہمیت
حاصل ہے ۔ یہ حلقہ اتر پردیش میں واقع ہے جس نے صحیح معنیٰ میں بی جے پی کا
مقدر بدل دیا۔ جس نے نریندر مودی کو وزیراعظم اور امیت شاہ کو بی جے پی کا
صدر بنادیا۔ اس ریاست میں بی جے پی اور اس کی حامی اپنا دل کو جملہ ۸۰ میں
۷۳ نشستوں پر کامیابی ملی۔ ریاست میں حکمراں جماعت سماجوادی پارٹی کو صرف ۵
اور کانگریس کو ۲ پر اکتفاء کرنا پڑا۔ بی جے پی کو ملنے والے ووٹ میں ۲۵
فیصد کا اضافہ ہواجبکہ کانگریس اور بی ایس پی کو بالترتیب ۱۱ اور ۸ فیصد کا
نقصان اٹھانا پڑا ۔ سماجوادی پارٹی کیلئے اطمینان کی وجہ یہ تھی کہ اس کے
ووٹ کا تناسب صرف ایک فیصد کم ہوا تھا لیکن اس کےباوجود اسے۱۸ نشستیں
گنوانی پڑی تھیں جبکہ بی جے پی ۱۰ سے اچھل کر ۷۱ پر جاپہنچی تھی اور انہیں۶۱
نشستوں نے ملک کاسیاسی منظر نامہ بدل کر رکھ دیا تھا ۔
اتر پردیش کی عوام کو اپنی غلطی کا احساس بہت جلد ہوگیا ۔۵ماہ بعد ستمبر کے
اندر جبگیارہ اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے تو۸ پر سماجوادی پارٹی
کو اور صرف ۳ پر بی جے پی کو کامیابی ملی۔ ان نتائج کی خاص بات یہ تھی کہ
یہ ایسے حلقہ ہائے انتخابات تھے جہاں سے ۲۰۱۲ میں بی جے پی کے ارکان
اسمبلی کامیاب ہوئے تھے ۔ یہ ارکان اسمبلی پارلیمانی انتخاب میں کامیاب
ہوکر لوک سبھا میں چلے گئے تھی جس کے سبب یہ نشستیں خالی ہوئی تھیں۔ان میں
سے صرف ایک روہنیا ایسی تھی جو پہلے سے سماجوادی پارٹی کے پاس تھی۔ ایس پی
نے اس پر بھی اپنا دبدبا برقرار رکھا اور اس کے علاوہ بی جے پی سے اس کی ۷
نشستیں چھین لیں ۔اس مرتبہ قومی سطح پر بھی بی جے پی کو صرف ۱۳ نشستوں پر
کامیابی ملی تھی اور اس کاکل۱۳ نشستوں کا نقصان ہواتھا جبکہ ایس پی نے ۷ کا
اور کانگریس نے اپنے ارکان اسمبلی میں ۵ کا اضافہ کیا تھا ایک نشست پر یو
ڈی ایف بھی کامیاب ہوئی تھی۔
اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا اور اکتوبر کے
اندر اس نے بی جے پی کو مغربی یوپی کے دو حلقہ ہائے انتخاب شاملی اور
کیرانہ میں شکست فاش سے دوچار کردیا۔ ان نشستوں پر بی جے پی کا ۱۹۹۶ سے
قبضہ تھا اور مظفرنگر کے فساد کے بعد بی جے پی کو یہ خوش فہمی ہوگئی تھی کہ
اب جاٹ پوری طرح اس کی جھولی میں آگئے ہیں لیکن یہ طلسم بھی ٹوٹ گیا۔ حال
میں تبلیغی جماعت پر قابلِ مذمتّ حملے اسی علاقہ میں ہوئے ہیں۔اس سال اپریل
میں پھر چرکھاری اور مہاراج گنج میں ضمنی انتخابات کا اعلان ہو گیا چرکھاری
کسی زمانے میں اومابھارتی کاحلقہ ہوا کرتا تھا لیکن پچھلے ستمبر میں بی جے
پی نے وہاں سےشکست کھانے کے بعد یہ کیا بی ایس پی کے سابق رکن پارلیمان
گنگا چرن کو پارٹی میں شامل کرلیا اور ان کے بیٹے اکھل راجپوت کو ٹکٹ دےدیا۔
بیایس پی نے اس بار وہاں سے اپنا امیدوارکھڑا نہیں کیا جس سے بی جے پی
کواطمینان ہوگیا کہ اس بار تو کامیابی یقینی ہے لیکن چناؤ سمراٹ امیت شاہ
کی یہ چانکیہ نیتی بھی اکارت گئی۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ چرکھاری میں ضمنی انتخاب کی ضرورت اس لئے پیش آئی
کہ گزشتہ ستمبرمیں کامیاب ہونے والے سماجوادی رکن اسمبلی کپتان راجپوت اور
اس کے بھائی لکشمن راجپوت کو ۲۰۰۲ کے اندر پولس تھانے میں گھس کر قتل کرنے
کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا ئی گئی۔ سماجوادی پارٹی کی ڈھٹائی کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان سنگین الزامات کے باوجود اس نے
کپتان راجپوت کی اہلیہ ارمیلا کو اپنا امیدوار بنا دیا۔ بی جے پی کی ستم
ظریفی دیکھئے کہ اس بدنام زمانہ رکن اسمبلی کی اہلیہ کو بھی وہ شکست نہ دے
سکی اور عوام کا رحجان بھی قابل ِ توجہ ہے انہوں نے ارمیلا کے نام پر گویا
کپتان سنگھ کو پھر ایک بار ۴۵ ہزار ووٹ کے فرق سے کامیاب کردیا۔ یہ انتخابی
منظر نامہ نہ صرف بی جے پی بلکہ ساری قوم کیلئے تازیانۂ عبرت ہے۔ یہ اس
بات کا مظہر ہے کہ عوام کس طرح ووٹ دیتے ہیں اور کن کو کامیاب کرتے ہیں۔
مہاراج گنج کی نشست پر ۲۰۰۷ سے بی جے پی کا قبضہ تھا۔ ۲۰۰۲ میں وہاں سے
کانگریس کے شیام نارائن نے بی ایس پی کے ویریندر چودھری کو شکست دی تھی
لیکن ۲۰۰۷ میں ۳۴ سالہ بجرنگ بہادر نے ویریندر چودھری کو ہرا کر یہاں
زعفرانی پرچم لہرا دیا۔ ۲۰۱۲ میں وہ دوبارہ کامیاب ہوگئے اور اس دوران
انہوں رکن اسمبلی ہوتے ہوئے سرکاری ٹھیکے بھی لے لئے۔ لوک آیوکت نے اس پر
اعتراض کیا اور بی جے پی کے گورنر رام نائکنے انہیں برخواست کردیا ۔ اس طرح
یہ نشست خالی ہوگئی اور یہاں پر گزشتہ ماہ اپریل کے اندر ضمنی
انتخابہوناتھا۔ بھارتیہ جنتاپارٹی نے یہاں اپنے چہرے سے شرافت کا مکھوٹا
نکال پھینکا اور ایک راندۂ درگاہ رکن اسمبلی کو پھر سے ٹکٹ دے دیا ۔ یہ نہ
صرف بی جے پی کے اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے بلکہ اس کے اندر پائے جانے
والے شدید قحط الرجال کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ سنگھ پریوار کے بلند بانگ
دعووں کی ہوا ایسےہی مواقع پر نکل جاتی ہے۔
بجرنگ بہادر نے اس انتخاب کے خلاف الہٰ باد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اس
پر روک لگا دی۔ مخالفین نے اسے خوف پر مہمول کیا لیکن بجرنگ کی بہادری
سپریم کورٹ میں نہیں چلی جس کے سبب اسے بادل ناخواستہ رائے دہندگان کے
سامنے ہاتھ پسار کر جانا پڑا۔ اس بار سماجوادی پارٹی کے ونود تیواری اور
کانگریس کے ٹکٹ پر ویریندر چودھری میدان میں تھے۔ گزشتہ انتخاب میں اس یہاں
پر سماجوادی پارٹی کو صرف ۲۶ ہزار ووٹ ملے تھے اور وہ تیسرے مقام پرتھی
لیکن اس بار اس نے تقریباً ۶۵ ہزار ووٹ حاصل کئے۔ دلچسپ بات یہ ہے بی جے پی
کایہ سابق رکن اسمبلی دوسرے مقام پر بھی نہیں آسکا بلکہ کانگریس کے
ویریندر سنگھ نے ۵۵ ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کرلئے جو گزشتہ کے ۳۴ ہزار ووٹ
کے مقابلے ۲۱ہزار زیادہ
ہے۔ویریندرچودھری۲۰۰۲سےیہاںقسمتآزمارہےہیںدومرتبہبہوجن سماج پارٹی کے
امیدوار کی حیثیت سےوہ ناکام ہوئےاوردومرتبہ وہ کانگریس کےٹکٹ پرہارگئے۔
بجرنگ بہادر کو اس بار صرف ۴۷ ہزار ووٹ ملے اور وہ تیسرے مقام پر کھدیڑ دیا
گیا۔الیکشن کمیشن کے سامنے خودبجرنگ بہادرنے حلف نامہ میں اپنی جائیداد کے
کروڈوں میں ہونے کا اعتراف کیا ہے اس کے باوجودان کی حالتِ زار
پروفیسرعنایت علی خان کے اس شعر کی مصداق ہے کہ ؎
تشنہ لب آئے تھے دامن تر چلے
’’جس لئے آئے تھے سو ہم کر چلے‘‘
بی جے پی اس دعوے کے ساتھبڑے طمطراق سے اقتدار میں آئی تھی کہ اب’’ اچھے
دن آنے ہی والے ہیں‘‘ ۔ بعدمیں اسے مہاراشٹر ،ہریانہ اور جھارکھنڈ میں بھی
مرتے پڑتے کامیابی مل گئی جس سے اس کا دماغ بالکل ہی خراب ہوگیا۔ اس دوران
اسے ضمنی انتخابات کے جھٹکے لگتے رہے لیکن میڈیا میں اس کا خاطر خواہ اثر
نہیں دیکھا جاسکا لیکن پھر دہلی کے انتخابات نے اس کی ہوا پوری طرح اکھاڑ
دی اور ساری دنیا کو پتہ چل گیا کہ اب یہ زعفرانی بہار خزاں رسیدہ ہوگئی۔
اس سلسلے کا ایک بڑا جھٹکا تو مغربی بنگال کے حالیہ میونسپل انتخابات لگا
لیکن اس سے قبل ایک نظر مہاراشٹر میں ہونے والے دو بلدیاتی انتخابات پر
ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ریاستی انتخاب میں کامیابی کے بعد بی جے پی نے
نعرہ لگایا تھا کہ ’’بھاجپ باپ سینا ہاف‘‘ لیکن اس بار جب نوی ممبئی اور
اورنگ آباد کے انتخابات سے قبل اس نے ناک گھس کے شیوسینا کے ساتھ الحاق
کرلیا۔ اس الحاق کے باوجود نوی ممبئی میں بی جے پی کو کانگریس سے کم یعنی
۱۰ کے مقابلے ۶ نشستوں پر کامیابی ملی۔ اورنگ آباد کے اندر اسے مجلس اتحاد
مسلمین نے پچھاڑ دیا اور اس کے ۲۲ سے ایک زیادہ یعنی ۲۳ نشستوں پر کامیابی
درج کرالی۔ اگر اس میں دو حامیوں کو شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ۲۵ ہوجاتی
ہے۔ اس انتخاب میں نہ صرف نشستیں بلکہ بی جے پی کےووٹ کا تناسب بھی ایم
آئی ایم سے کم رہا۔
مغربی بنگال کے اندر گزشتہ سال کے قومی انتخابات میں بی جے پی نے ویسے تو
صرف ۲ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی مگر اس کے ووٹ کا تناسب ۶فیصد سے بڑھ
کر۱۷ فیصد پر پہنچ گیا تھا۔ اس اضافہ کے بعد بی جے پی نے ترنمول کو سردھا
بدعنوانی کے معاملے پھنسا دیا اور اس کو خوب جی بھر کے بدنام کیا۔ دسمبر کے
اندر امیت شاہ نے کولکاتہ جاکر اعلان کردیا کہ ممتا بنرجی کیالٹی گنتی شروع
ہوچکی ہے اور بہت جلد مغربی بنگال میں زعفرانی پرچم لہرانے والا ہے۔ ان
حرکات سے زعفرانی دہشت گردوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے کہ وہ ایک سن
رسیدہ راہبہ کی عصمت دری کرنے سے بھی باز نہیں آئے لیکن پھر اس کے بعد
بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوگیا تھا۔ امیت شاہ نے دسمبر میں اعلان کیا تھا
کہ وہ ہر ماہ آئیں گے لیکن اس کے بعد ایک بار بھی بنگال نہیں پھٹکے عوام
نے سوچا جو صدر اپنی پارٹی سے وعدہ وفا نہیں کرتا وہ ہمارے ساتھ کیا کرے
گا؟
کولکاتہ بلدیہ ویسے بھی ترنمول کانگریس کے قبضے میں تھی لیکن اس بار کئی
ترنمول رہنماوں کے ممتا سے دور ہو جانے کے سببایسا لگ رہا تھا کہ ترنمول
کمزور پڑ گئی ہے اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ملے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ٹی ایم سی کے کاونسلرس کی تعداد ۹۵ سے بڑھ کر ۱۱۴ پر پہنچ گئی ۔ بائیں بازو
کی جماعتوں کو ۳۳ کے بجائے ۱۵ پر اکتفاء کرنا پڑا ۔بی جے پی کا بائیں محاذ
کو ہٹا کر سب سے بڑی حزب اختلاف بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا اور وہ صرف ۷
نشستوں پر سمٹ گئی ۔ کانگریس کو ۵ اور ۳ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ بی جے
پی کےراہل سنہا نےایسے میںاعلان کردیا کہ۵۰مقامات پر ان کے امیدوار دوسرے
نمبر آئے ہیں لیکن یہ دعویٰ بھی جھوٹ نکلا اس لئے کہ صرف ۳۸ مقامات پر بی
جے پی دوسرے نمبر پر آئی اس کے برعکس ۶۵ مقامات پر بایاں محاذ دوسرے نمبر
پر آیا۔ اس مرتبہ کولکاتہ میں جہاں بی جے پی کو ۱۵ فیصد ووٹ ملے وہیں
ترنمول کو ۵۱ فیصد ووٹ ملے۔ہندسوں کا یہ الٹ پھیر معمولی نہیں ہے۔
کولکاتہ کے علاوہ دیگر بلدیاتی اکائیوں میں ٹی ایم سی نے ۹۱ میں سے ۶۹
مقامات پر اپنی برتری ثابت کردی ۔ کانگریس اور بائیں محاذہردو نے ۵ مقامات
پر اپنی اکثریت ثابت کی لیکن بیچاری بی جے پی تو اپنا کھاتہ تک نہ کھول سکی
اور ایک بڑا سا رس گلہّ چبا کر بیٹھ گئی۔ترنمول کو جملہ ۱۴۲۵ وارڈس میں
کامیابی ملی اس کے برعکس بی جے پی کا رتھ ۸۵ پر جاکر رک گیا جبکہ کانگریس
۱۸۶ تو بایاں بازو ۲۸۵ وارڈس میں کامیاب رہا۔ سلی گڑی کے انتخاب میں جسے سی
پی ایم اور ٹی ایم سی نے وقار کا مسئلہ بنا دیا تھا کل ۴۷ نشستوں میں سے ۲۳
پر دایاں محاذ کامیاب رہا جبکہ ٹی ایم سی کو صرف ۱۷ نشستیں ملیں۔ بائیں
محاذ کو یہی سی بڑی کامیابی تھی۔ بی جے پی کے اندر پائی جانے والی بدنظمی
کا یہ حال تھا کہ بڑی مشکلوں سے وہ مہابھارت سیریل کی دروپدی محترمہ گنگولی
کوپارٹی میں لے کر آئے تاکہ انہیں کولکاتہ کا متوقع مئیر کی حیثیت سے پیش
کیا جاسکے لیکن وہ بیچاری کولکاتہ کی ووٹر تک نہیں تھیں بلکہ ان کا ۲۴پرگنہ
کے رائے دہندگان کی فہرست میں نکلا۔ مودی جی کی جرمنی کے اندر نیتاجی سبھاش
چندر بوس کے پوتوں سے ملاقات بھی بی جے پی کے کسی کام نہ آسکی اس لئے کہ
اب ملک کے عوام یہ نوٹنکی سمجھ چکے ہیں اور ہرکوئی انتظار میں ہے کہ ذرا
اونٹ پہاڑ کے نیچے آئے تو اسے دال آٹھے کا بھاو بتایا جائے۔
بجرنگ بہادر کو تو خیر ۲۰۰۲ میں ایک سرکاری ٹھیکہ لینے کے سبب لوک آیوکت
کی سفارش پر گورنر نے برخواست کردیا لیکن کمپٹرولراینڈ آڈیٹر جنرل کی تازہ
رپورٹ میں سابق صدر بی جے پی اور وزیر ہائی وے نتن گڈکری پر سنگین الزامات
دھر دئیے۔ اس رپورٹ کے مطابق سرکاری ادارے آئی آر ای ڈی اےنے ۶ء۴۸ کروڈ
روپئے گڈکری کی کمپنی پورتی ساکھر کارخانے کو دئیے۔ اس کارخانے کو رقم اس
لئے دی گئی تھی ماحولیات کے تحفظ کی خاطر بھوسے کو جلاکر اس سے بجلی بنائے
لیکن اس کارخانے کے شروع ہوتے ہی ۱۳ دن کے اندر سےناقابلِ استعمال قرار دے
دیا گیا جو غالباً ایک سازش تھی ۔ اس وقت تک پورتی پرسود سمیت ۱۲ء۸۴ کروڈ
روپئے واجب الاداء ہو گئے تھے لیکن ریاستی ادارہ صرف ۳۵ء۷۱ کروڈ روپئے لینے
پر راضی ہوگیا اس طرح سرکاری خزانے کا ۷۷ء۱۲ کروڈ روپیہ نقصان ہوا۔ اس کے
علاوہ اب وہ کارخانہ کوئلہ اور تیل پر چلتا ہے جبکہ اس طرح کے ایندھن پر
چلنے والا کارخانہ اس قرض کا مستحق ہی نہیں تھا۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ اس بدعنوانی کے سبب وزیر سڑک نتن گڈکری کی بھی چھٹی
کرکےانہیں سڑک پر بھیج دیاجائے اور وہ جب دوبارہ انتخاب لڑنے کیلئے جائیں
تو عوام انہیں بھی بجرنگ بہادر کی مانند سبق سکھائیں۔ویسے وارانسی میں
وزیراعظم نریندر مودی کی حالت بھی بجرنگ بہادر سے بہت مختلف نہیں ہے اس لئے
کہ پی ایم صاحب نے اپنے ایم پی فنڈ سے ایک نیا پیسہ بھی ابھی تک وارانسی کی
عوام کےفلاح وبہبود پر خرچ نہیں کیا ہے۔ شاید وہ بھول گئے ہیں کہ باتوں سے
میڈیا کا تو پیٹ بھرتا ہے اور ان کے بھکتوں کی آنکھیں بھی ٹھنڈی ہوتی ہیں
مگر عوام کا نہیں کی بھوک نہیں مٹتی۔ فاقہ کش لوگ ووٹ نہیں دیتے بلکہ چوٹ
کرتے ہیں جس کا مظاہرہ ضمنی و بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں ہورہا ہے۔
اپنی پہلی سالگرہ پر مودی سرکار اگر ان نتائج سے کوئی سبق لے تو اچھا ہے
وگرنہ چار سال بعد اس پر بھی یہ مزاحیہ قطعہ صادق آجائے گا؎(ترمیم کے
ساتھ)
رخصتی پر تھا نریندر کے کسی کا تبصرہ
بڑبڑاتا آیا تھا اور گڑِ گڑا کر چل دیا
تبصرے پر مابدولت نے لگائی یہ گرہ
ہائے وہ ’غنچہ دہن‘ جو بن کھلے مرجھا گیا |